عوام اپنے مقدر کے مالک کب بنیں گے؟

خالد گورایا  جمعرات 5 فروری 2015
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے انڈسٹریل کلچر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حکمرانوں نے جولائی 1955 سے کھڑی کرنی شروع کردی تھیں۔ جب پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد بیماری کی وجہ سے دو ماہ کی رخصت پر جون 1955 کو گئے اور اس کی جگہ قائم مقام گورنر جنرل اسکندر مرزا بن گئے ۔ اسکندر مرزا نے جولائی 1955 میں 3.340(تین اعشاریہ تین سو چالیس روپے) روپے سے 4.762روپے کا ایک ڈالر کردیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 43 فیصد کمی کر دینے سے ملکی مجموعی معیشت خسارے کا شکار ہوگئی۔

مالی سال 1956-57کا بجٹ 24.886ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ مالی سال 1954-55میں تاجروں، ایکسپورٹرز نے 119.7 ملین روپے سرپلس حاصل کیے تھے۔ جب جولائی 1955 میں روپے کی قیمت میں 43 فیصد کمی کردی گئی تو ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں کم ڈالر ریٹ پر زیادہ اشیا ایکسپورٹ کیں جس کے نتیجے میں انھوں نے 458.6ملین روپے کا منافع کا حاصل کیا۔ 1954-55سے یہ نفع تجارت 283فیصد زیادہ حاصل کرلیا۔ اس کی بنیادی وجہ روپے کی قیمت میں کمی 43 فیصد کا فائدہ تاجروں نے حاصل کیا تھا کیونکہ ایک ڈالر پر پاکستانی 1.422روپے نفع انھوں نے اپنے ملک میں ڈالر ٹریڈنگ سے حاصل کیا۔

اس مصنوعی تجارتی امریکی طریقے کو Currency Devaluation Minus Economic Developmentیعنی CDMED سڈمڈ کہا جاتا ہے۔ اس کا منفی اثر ملکی تمام مجموعی معیشت پر پڑا۔ مالی سال 1956-57باہر سے ہر آنے والی چیز کی قیمت 43فیصد روپے میں زیادہ ادا کرنی پڑی۔ جس کے نتیجے میں صنعتی کلچر میں پیداواری لاگتیں بڑھ گئیں اور تجارتی خسارہ مالی سال1956-57 میں 727.00ملین روپے ہوگیا اور یہ خسارہ پاکستان بننے کے بعد 1949-50اور 1951-52 میں ہونے والے دونوں کے مجموعی خسارے سے ڈیڑھ گنا زیادہ خسارہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی ملکی اشیاء  کی لاگتیں بڑھ گئی تھیں۔

ان لاگتوں کے بڑھنے سے ملکی تیار اشیا بیرونی منڈی سے آنے والی اشیا کے مقابلے میں مہنگی ہوگئیں۔ اس کے بعد مسلسل امپورٹ زیادہ ہوتی رہی اور ایکسپورٹ کم رہی ، جب ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971کو باقی بچے پاکستان کا اقتدار حاصل کرلیا تو مئی 1972کو امریکی ادارے کے حکم پر روپے کی قیمت 4.762روپے سے 11.031روپے فی کردی۔ جس کے نتیجے میں روپے کی قیمت میں 132 فیصد کمی ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی تمام معیشت 132 فیصد منفی یا پیچھے دھکیل دی گئی۔ کراچی میں آٹا 1970-71میں 22.86روپے کا 40 کلوگرام تھا۔

یہ 1972-73میں 27.65روپے ہوگیا تھا۔ باسمتی چاول 1970-71میں 42.96روپے 40کلوگرام تھا۔ 1972-73میں 80.16روپے 40کلو گرام ہوگیا۔چاول کی قیمت میں 87 فیصد اضافہ ہوا۔ 1970-71میں پٹرول ایک لیٹر 0.93پیسے تھا۔ 1972-73میں 1.38 روپے لیٹر ہوگیا اور سیمنٹ زیل پاک 1970-71میں ایک ٹن 131.02روپے تھا۔ 1972-73ایک ٹن کی قیمت 173.50روپے ہوگئی اور Bedford Bus Chasis MSB5، 1971-71 میں 63ہزار 3 سو 50 روپے تھی۔

1972-73 میں 66 ہزار 7 سو 62 روپے ہوگئی۔ مالی سال 1970-71اور 1972-73کے لیے پیش کی گئی قیمتوں کے اعداد و شمار کتاب 50 Years of Pakistan Statistics (Volume IV) Federal Bureau of Statistics_Statistics Division Government of Pakistan 1947-1997سے پیش کیے گئے ہیں۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ امریکی معاشی غلامی تلے آنے سے قبل سال میں ایک بار بجٹ کے دوران ہوتا تھا۔ لیکن امریکا نے دسمبر 1945 کو آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور اقوام متحدہ کے ادارے یورپی ملکوں کے تعاون سے بنالیے تو امریکا نے برطانوی سامراج کی جگہ حاصل کرلی۔

پہلے برطانیہ براہ راست اپنے غلام ملکوں پر حاکمیت کرتا تھا۔ بجٹ سازی برطانوی نمایندے کرتے تھے۔ اس طرح اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ٹیکسوں کی شکل میں سال میں ایک بار ہوتا تھا۔جنرل ایوب نے 27 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا۔ اس کے دور میں روپے کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ کیونکہ اس کے سامنے شہید لیاقت علی خان نے سختی سے امریکا کو پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اس لیے ایوب خان کو اس کے منفی اثرات کا باخوبی علم تھا یا پھر اس پر امریکا نے دباؤ نہیں ڈالا کیونکہ اس کے دور میں سارے معاملات سامراجی امریکا کی منشا کے مطابق ہو رہے تھے۔ یاد رہے کہ ستمبر 1949 کو امریکا نے سعودی عرب کی کرنسی ریال کی قیمت میں 3.750سعودی ریال ہی رہنے دی۔ 23 دسمبر 2014 کو 3.753 ریال کا ایک امریکی ڈالر تھا۔ اسی طرح یو۔اے۔ امارات کا درہم ستمبر 1949 میں 4.7619درہم کا ایک ڈالر تھا۔ 23 دسمبر 2014 کو 3.673درہم کا ڈالر کردیا گیا۔

وینزویلا کا Bolivar Fuerteستمبر 1949 کو 3.220بولیوار ایک ڈالر کے برابر تھے۔ 23 دسمبر 2014 کو 12.00بولیوار ایک ڈالر کے برابر کردیے گئے۔ امریکا اپنے اثر تلے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی نہیں کرتا ہے بلکہ جن ملکوں کا معاشی استحصال، ان کے صنعتی کلچر کو فلاپ یا خاتمہ کرنا چاہتا ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں بتدریج کمی کرتا آرہا ہے کہ وقفے وقفے سے معاشی سڈمڈ CDMEDکے جھٹکوں سے ایسے ملکوں کے دفاعی اور انتظامی ادارے، پیداواری ادارے خساروں میں جا جا کر لامحسوس طور مزاحمت کھو کھو کر دم توڑتے جائیں تاکہ ایسے معاشی غلام ملکوں کو ناکام ریاستیں بناکر سامراجیوں کی گود میں گرادی جائیں۔

(1)۔امریکا سڈمڈ لگا کر ملکوں کی معیشتوں کو خسارے میں بدل دیتا ہے اور پھر خساروں سے نکلنے کے لیے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف و دیگر سامراجی اداروں سے مہنگے قرضے دے کر قرض کا قیدی بناکر سامراجی شرائط منواتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے مالی سال 2012-13تک کل قرضہ 188 ارب 95کروڑ ڈالر منظور کرایا۔ اس قرضے پر بروقت (ہر سال قرضہ حاصل کرتے وقت) سود و اصل زر کی مد میں 59 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کٹوائے گئے۔

کل حاصل شدہ قرضے میں حقیقی وصولی 29 ارب 68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی۔ عوام کے ذمے قرض ادائیگی کا بوجھ 50 ارب 20 کروڑ 90 لاکھ ڈالر موجود رہا تھا یہ قرضے Long Termہیں۔ منظور شدہ قرضے کا صرف ایک حصہ وصول کیا گیا۔ دو حصے سود و اصل زر کی مد میں بروقت ادا کر دیے گئے۔ یعنی حاصل شدہ قرضے میں سے 67 فیصد سود و اصل زر کی مد میں کٹوا دیا گیا اور 33 فیصد صرف نقد قرض وصول کیا گیا۔ اور وصول کیے گئے قرضے 29 ارب 68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے بدلے عوام پر ادائیگی کا بوجھ 50 ارب 20 کروڑ 90 لاکھ ڈالر موجود رہا۔

یہی نہیں ’’اشرافیائی جمہوریت‘‘ کے ذریعے اور فوجی حکمرانی کے ذریعے بننے والے حکمرانوں کے کارنامے کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14کے صفحے 132 پر دیکھیے۔مارچ 2014 تک غیرملکی اور ملکی مجموعی قرضہ 155 کھرب 34 ارب روپے عوام کے کندھوں پر لاد دیا گیا۔ اس دوران پاکستان کی آبادی 18 کروڑ 80 لاکھ 20 ہزار افراد تھی۔ پاکستان کا بوڑھا، جوان، بچہ، ہر فرد کے ذمے 82 ہزار 6 سو 18 روپے کا قرض ادائیگی کا بوجھ موجود تھا۔

آج میرے سامنے 31 اکتوبر 2014 کو ایک اخبار پڑا ہے۔ جس میں مرکزی چیئرمین APTMA نے کہا ہے کہ توانائی کے بحران کی وجہ سے 2.5بلین ڈالر کا ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد 27 جنوری 2015 کو سائٹ کراچی صنعتی زون ہے۔ انڈسٹری کے حوالے سے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے عہدے داران نے صنعتوں کو گیس کی قلت کی طرف سندھ کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

صنعتی کلچر اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے تمام لوازمات پورے ہوتے ہیں کیونکہ صنعتی کلچر کی بنیاد ہی منڈی مقابلہ ہے۔ پاکستان کے صنعتکار بیرونی ملکوں میں اپنا سرمایہ لے جا رہے ہیں۔ اگر ملکی حالات موافق نہیں ہوتے تو صنعتی کلچر کی تباہی خطرناک ہوگی اور صنعتی کلچر کو تو پہلے ہی امریکا نے سڈمڈ لگا لگا کر تباہ کردیا ہے۔  30 جنوری 2015 کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 48.57ڈالر فی بیرل تھی، یعنی ایک ڈالر کا تیل 3.370لیٹر مل رہا تھا۔

اسی روز پاکستانی روپے کی قیمت 101.10روپے (ایک سو ایک اعشاریہ دس روپے) کا ایک ڈالر تھا۔ روپے کی قیمت کی نسبت سے پاکستان عالمی منڈی سے 30 روپے کا لیٹر تیل لے رہا تھا اور عوام یہی تیل 79روپے لیٹر لے رہے تھے۔عوام کو ان نام نہاد جمہوریت کے چاہنے والوں سے یہ پہلے لکھوا لینا چاہیے کہ کتنے فیصد مہنگائی،کتنی فیصد تعلیمی،کتنا فیصد امن وامان، عوام کے ہر شخص کی کتنی فیصد قوت خرید بڑھاؤ گے۔ جواب آپ کو ملے تو فیصلہ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔