وہ شاہِ جہاں قلم کون سا ہوتا ہے

عبدالقادر حسن  جمعـء 6 فروری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قومی اسمبلی کے ارکان کو جو ہمیشہ خوشخبریوں اور نعمتوں کی افراط کی زد میں رہتے ہیں انھیں ایک تازہ اور بڑی قیمتی خوشخبری یہ ملی ہے کہ یعنی مرزا غالبؔ کے الفاظ میں دلی کے خبر تراشوں نے اطلاع دی ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے لیے ان کے ووٹ کی جمہوری قیمت دو کروڑ روپے صرف مقرر ہوئی ہے یعنی سینیٹ کی رکنیت کے امید وار جو قومی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے ان کی طرف سے اپنے ووٹروں کو فی ووٹر اندر خانے دو کروڑ روپے نذرانہ دیا جائے گا۔

ان کے چند لفظوں کی حیثیت یعنی جن دو چار لفظوں میں وہ کسی امیدوار کے لیے اپنے ووٹ کا اعلان کریں گے دو کروڑ روپے ہو گی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ سب خفیہ معاملہ ہو گا۔ کسی بھی الیکشن میں ووٹوں کی خریداری پرانا مسئلہ ہے۔ قومی اسمبلی میں خواتین کی کچھ نشستوں کا بھی قومی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے الیکشن ہوتا ہے۔ ایک مشہور و معروف سیاسی پٹواری نے اپنی بیگم کے لیے بھی ووٹ خریدے تھے یہ سستا زمانہ تھا ووٹ کی قیمت صرف دس گیارہ لاکھ روپے تھی۔ بیگم صاحبہ کو اگرچہ کوئی دس ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن ان کے لیے احتیاطاً بارہ تیرہ ووٹر خریدے گئے۔

ظاہر ہے کہ بیگم صاحبہ رکن منتخب ہو گئیں اور قوم کی نمایندگی کرتی رہیں۔ علاوہ ازیں ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ووٹروں کو کسی پر فضا مقام پر تمام سامان عیش و عشرت کے ساتھ مہمان بنا کر اس وقت تک رکھا گیا جب تک کہ ان کے ووٹ بھگتا نہ لیے گئے اور یہ تو عام بات ہے کہ الیکشن میں نچلی سطح پر بھی مال چلتا ہے اور خاص لوگ مال لے کر عوام کے ووٹ بھگتاتے ہیں لیکن جب معاملہ قومی سطح پر یعنی ایوان بالا سینیٹ تک پہنچ جائے تو پھر بقول مرزا غالبؔ خبر تراش اسے لے اڑتے ہیں اور کروڑوں تک لے جاتے ہیں البتہ جناب عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کی جماعت کے کسی رکن نے ووٹ بیچا تو وہ اسے پارٹی سے نکال دیں گے۔

میں نہیں سمجھتا کہ وہ پارٹی جو ابھی محض شہرت کے سہارے زندہ ہے کبھی اسمبلی میں اتنی اکثریت لے سکے گی کہ وزیراعظم اس کا ہو گا اور پھر دو نہیں کئی کروڑ ملا کریں گے مگر یہ تو دور کی باتیں ہیں فی الحال جو بھی مل جائے وہی غنیمت ہے اور دو کروڑ روپے کی رقم تو اس مہنگائی میں بھی بڑی بات ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جس گرانی کا دور دورہ ہے وہ کہاں کہاں پہنچ چکی ہے اور بازار میں اب نیا مال بھی متعارف ہوا ہے۔ عین ممکن ہے جب وقت آئے گا تو یہ مال اس سے بھی زیادہ مہنگا ہو جائے گا اور بولیاں لگیں گی۔ خریدار جس قدر زیادہ ہوں گے مال اتنا ہی مہنگا ہو گا۔ پنجابی کا ایک ماہیا ہے

آری تے آری اے

اک جِند یوسف دی سارا مصر وپاری اے

یعنی یوسف کی تو ایک ہی جان ہے مگر سارا مصر کاروباری اور خریدار بن گیا ہے۔

ہماری قومی اسمبلی کے اراکین ماشاء اللہ خوشحال لوگ ہیں اور کئی ایک کی خوشحالی ایسی بھی ہے جس پر انگلیاں اٹھا کرتی ہیں۔ ایسے رئیس لوگوں کو کروڑ دو کروڑ کی ضرورت نہیں ہے لیکن مفت کا مال ہو تو برا کیا ہے ویسے بھی جو مالدار ہوتے ہیں وہی زیادہ لالچی بھی ہوا کرتے ہیں اور ان کا لالچ کبھی ختم نہیں ہوتا اور دو کروڑ روپے، روپے کی اس بے قدری کے زمانے میں بھی بہت ہیں۔ ان حضرات کو دو چار لفظ لکھنے پر ہی اتنا کچھ مل جائے گا۔

رشک کے مارے میں مرا جا رہا ہوں کہ دو چار کیا دو چار لاکھ اور شاید اس سے بھی زیادہ الفاظ لکھنے کے باوجود اب تک ایسا موقع بھی نہیں مل سکا کہ میں اتنی رقم کہیں ایک جگہ پڑی دیکھ بھی سکوں اتنی رقم کی ملکیت تو دیوانے کا خواب ہے جو شخص عمر بھر قلم گھسنے کے باوجود کرائے کے مکان میں عمر عزیز بسر کر رہا ہو وہ ایسے خواب دیکھے تو دیوانہ نہیں تو اسے اور کیا کہا جائے۔ یہ جو کروڑوں روپے کسی ایک ووٹ کو دینے پر تیار ہیں انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمارے حق میں کچھ لکھ دو تو تمہیں کچھ مل جائے گا۔ خواہ وہ تھوڑا ہی سہی۔

اب آپ میرے بعض ہم سخن اور ہم پیشہ دوستوں کی مثال مت دیجیے گا جو اس قلم کے ذریعے شاید سینیٹ کے لیے ووٹ خریدنے کے قابل بھی ہوں۔ صحافت برائے تجارت اور سرکار دربار سے نفع خوری اب اتنی دور اور پرانے زمانے کی بات نہیں رہی۔ میں اپنے ان دوستوں ساتھیوں کی بات نہیں کرتا جو بے پناہ عرق ریزی کے بعد کسی اچھے راستے پر چلے ہیں اور کامیاب رہے ہیں۔ میں ان کا مداح ہوں کہ انھوں نے جان ماری اور اس پیشے کو گداگروں اور صرف تنخواہ داروں کے پیشے سے نکال کر ایک بڑے اور معزز پیشے میں لے گئے ہیں ان کی کامیابیوں کے طفیل لوگ ہمیں بھی مفت میں جدید زمانے کے معیار پر خوشحال سمجھنے لگے ہیں۔

میں تو ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو بڑی نظریاتی قومی تحریکوں میں شمولیت اور قلمی خدمت کے عوض بڑے رئوسا سے آگے نکل گئے ہیں اور اب تو ایسے مقام پر ہیں کہ اشرافیہ میں شامل ہی نہیں عام اشرافیہ سے برتر اور اونچے ہیں اور یہ سب ہمارے سامنے ہیں مگر اپنے قلم و قرطاس سے انھوں نے اپنے گرد ایک ایسا خوشنما پردہ تان رکھا ہے جس کے پیچھے کسی کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی اور وہ اس پردے کے نقش و نگار کے طلسم میں ہی گم ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک تھی تحریک پاکستان جو اپنے کتنے ہی پاکستانی کارکنوں کو نہال کر گئی مگر اس دولت کو ہنر مندی سے اس قدر مقدس اور نظریاتی بنا لیا گیا کہ اس پر کسی کو حرف زنی تو کجا اس کا کھوج لگانے اور بیان کرنے کی ہمت بھی نہیں پڑتی۔

اس کی لاتعداد اور بعض حیران کن مثالیں ہیں مگر یہ کہانی پھر سہی اب تو اپنا رونا ہے کہ کسی نے یہ کیسے کہہ دیا تھا کہ ’قلم گوئد کہ من شاہ جہانم‘ یعنی قلم تو دنیا کی بادشاہ ہے۔ پتہ نہیں وہ قلم کیسی ہو گی جو ’شاہِ جہاں‘ ہو گی۔ اب تو چند ٹکے کا بال پوائنٹ ہے جو ہمارے آپ کے ہاتھ میں ہے اور بے کار ہونے پر پرے پھینک دیا جاتا ہے جیسے یہ قلم جس سے میں لکھ رہا ہوں۔ قلم زنی سے ہزار گنا کم محنت پر تو میں رکن اسمبلی بھی بن سکتا تھا اپنے مرحوم بھائی کی طرح اور آج دو کروڑی ہوتا یعنی کروڑ پتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔