کیا اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 6 فروری 2015

ہم سب لمحوں میں جیتے ہیں اکثر ساری عمر یہ لمحے اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ ہم پہ غالب ہی نہیں آپاتے لیکن کبھی کبھار یہ لمحے ہم سے اتنے طاقتور ہوجاتے ہیں کہ ہماری ساری زندگی کو یکسر بدل ڈالتے ہیں صرف ایک لمحہ ہم کو اتھل پتل کرکے رکھ دیتا ہے۔ وہ لمحہ اتنے چپکے سے آتا ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے وہ ایک لمحہ پہلے پہل ایک انسان کو تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ انسان دنیا کو تبدیل کر نے میں لگ جاتا ہے دنیا کی ساری تبدیلیاں اسی ایک لمحے کا کرشمہ ہیں۔

ٹاس ایلوا ایڈیسن جسے دوست صرف ’’ایل‘‘ کہتے تھے ایل کی والدہ نے اسے ابتدائی سبق پڑھائے جو اس نے جلد یاد کر لیے لیکن اسے گھر سے باہر کی چیزیں دیکھنے کا بڑا شوق تھا اور میلان میں اس نے ہر چیز دیکھی اور پوری چھان بین کی، میلان کی خوشحالی کا اصل سبب یہ تھاکہ وہ تجارتی آبی راستوں کے مر کز میں واقع تھا لیکن ان آبی راستوں کے مقابلے میں ریل کی پٹریاں جا بجا بچھ رہی تھیں۔

جب ڈیٹرائیٹ اور پورٹ ہیورون کے درمیان ریلوں کی آمدورفت شروع ہوگئی تو سیموئیل ایڈیسن نے میلان چھوڑ کر پورٹ ہیورون میں رہنے کا فیصلہ کیا، بیوی سے کہا کہ ریل جلد ہی نہری کاروبار ختم کر دے گی مگر بیوی اپنا خوب صورت مکان چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھی جب کہ سیموئیل کو حالات کا زیادہ صحیح اندازہ تھا۔اس نے پورٹ ہیورون میں ایک مکان اور غلے کا کاروبار خرید لیا اور اہل وعیال کے ساتھ وہاں منتقل ہوگیا۔

نئے مقام پر اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد ’’ایل ‘‘کو پورٹ ہیورون کے اسکول میں بھیج دیا گیا۔ اس کی عمر7 سال کی ہوچکی تھی ’’ ایل ‘‘ ایسا طالبعلم ثابت نہ ہوا کہ استاد اس پر مطمئن ہوتا کتابوں پر اس کی توجہ بہت کم تھی برابر سوالات کر تا رہتا اور یہ ہی شیوہ اس نے گھر میں اختیار کر رکھا تھا جب استاد سبق پڑھاتا تو ’’ایل ‘‘ ہم جماعتوں سے باتیں کرتا رہتا یا گرد و پیش کی ہر چیز بھول کر غوروفکر میں ڈوب جاتا ایک سہ پہر7 سالہ ’’ ایل‘‘ اسکول سے گھر آیا تو سیدھا والدہ کے پاس پہنچا اور پو چھاماں غیر طبعی کا مطلب کیا ہے۔

مسز ایڈیسن مسکرائی اور کہا غیر طبعی اس انڈے کوکہتے ہیں جو بالکل خراب ہوجائے ’’ ایل‘‘ نے جواب میں کہا ماں یہ تو مجھے معلوم ہے لیکن غیر طبعی لڑکا کیا ہوتا ہے ماں !اس کا مطلب ہے وہ لڑکا جو ایک حد تک خبطی ہو پھر ماں نے پوچھا تم نے یہ لفظ کہاں سے سنا ’’ ایل‘‘ ایک دم سنجیدہ ہوگیا اور بولا آج انسپکٹر اسکول کے معائنے کی غرض سے آیا تھا اور اس نے طلباء کے متعلق پوچھا۔ ماں آپ جانتی ہیں کہ میری سماعت بہت اچھی ہے استاد نے میری طرف اشارہ کر تے ہوئے انسپکٹر سے کہا میں غیر طبعی ہوں اور عام بچوں کی طرح نہیں، ظاہر ہے اس حالت میں مجھے اسکول میں رکھنا محض وقت ضایع کرنا ہے۔

مسز ایڈیسن یہ سنتے ہی بھڑک اٹھی اچھا اس نے تمہارے متعلق یہ کہا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور وہ بولی چلو میرے ساتھ یہ کہتے ہی امریکی انقلاب کی پوتی اسکول پہنچی۔ جاتے ہی استاد سے کہا تم نے انسپکٹر سے میرے بچے کے متعلق جو کہا وہ مجھے معلوم ہو گیا خوب کان کھول کر سن لو اگر یہاں کوئی غیر طبعی ہے تو تم ہو اگر ’’ایل‘‘ کے مقابلے میں تمہیں نصف دماغ بھی ملا ہوتا تو تم اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے پھر زور سے اپنا ہاتھ ہراس زدہ استاد کی میز پر مارتے ہوئے بولی، میرے الفاظ یاد رکھنا ایک روز دنیا میرے بچے کی نامور ی سے گو نج اٹھے گی اور تمہارا نام بھی کوئی نہ جانے گا اور بچے کو یہ کہتے ساتھ لے گئی آج سے تمہیں اسکول جانے کی کوئی ضرورت نہیں، میں خود تمہیں سب کچھ پڑھائوں گی چنانچہ اس نے بچے کو تعلیم دی۔

وہ بچہ ایڈیسن آگے چل کر دنیا کا سب سے کامیاب سائنسدان بنا جس نے 1093 ایجادات کیں۔ اس نے لکھا ’’ میں جوکچھ بھی بنا ہوں ماں کا بنایا ہوا ہے میں نے اسی روز فیصلہ کر لیا تھا کہ میں ماں کو مایوس نہیں کروں گا اسے میرے متعلق بے حد یقین تھا اور وہ قول کی سچی تھیں۔ ‘‘ ماہرین نفسیات کے مطابق ’’ کامیابی یا نا کامی انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ذہنی رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ‘‘ کامیابی ،خوشحالی، ترقی،خوشیاں کبھی آپ کو راہ چلتے سٹرک پہ پڑی ہوئی نہیںملتیں بلکہ یہ سب آپ کو اپنے ارادوں سے ملتی ہیں۔

ہیوگو نے کہا ہے ’’ لوگوں میں طاقت کی کمی نہیں ہے ان میں ارادے کی کمی ہے ۔‘‘ ہم سب جس چیز کو سب سے زیادہ ضایع کررہے ہیں اور اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں وہ ہے ہماری ذہنی طاقت کا ضیاع۔ ہر شخص میں ویسی ہی طاقت موجود ہوتی ہے جیسا وہ بننا چاہتا ہے آپ وہ ہرکام کرسکتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں ہم 67 سالوں سے منزل اور ہدف کا تعین کیے بغیر بس چلے ہی جا رہے ہیں ۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی منزل کیا ہے اس کا ہدف کیا ہے۔

ہم اپنے سوا ہر شخص اور ہر چیز پر تنقید کرتے رہتے ہیں ہم سب اپنے منفی پیغام کو طاعون کی طرح پھیلاتے رہتے ہیں ہم دراصل ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کا نام تجزیے کا فالج ہے، یاد رہے اس بیماری کا شکار لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے پھر آخر میں دنیا کے سب سے افسوسناک لفظ کاش کے پجاری بن کے رہ جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی ساری برائیوں اور خرابیوں کے خالق ہم خود ہیں۔ یہ تمام برائیاں اور خرابیاں زمین پھاڑ کر باہر نہیں نکل آئی ہیں اور نہ ہی کسی نے انھیں آسمان سے ہمارے اوپر پھینک دی ہیں۔

نہ جانے ہمیں اپنے آپ پر ترس کیوں نہیں آتا ورنہ ہم دنیا کے لوگوں کی طرح اپنی قسمت اور نصیب کبھی کے بدل چکے ہوتے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے ۔ آخر وہ لمحہ ہماری زندگیوں میں کیوں نہیں آ رہا ہے کہ جس میں ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنی جہالت ،غربت،انتہاپسندی، عدم رواداری، عدم برداشت کا خاتمہ اپنے ہاتھوں کرنا ہے اور دنیا کا سب سے کامیاب انسان بن کے دکھانا ہے ۔یہ بات ہماری سمجھ سے تو باہر ہے اگر آپ کو سمجھ آتی ہے تو آپ ہی بتا دیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔