یمن سُلگ رہا ہے

انوار فطرت  اتوار 8 فروری 2015
یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب مغرب میں 2 لاکھ 3 ہزار 800 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے،   فوٹو: فائل

یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب مغرب میں 2 لاکھ 3 ہزار 800 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، فوٹو: فائل

20 اور 21 جنوری کے دو روز یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی اور ان کے پشتی بان مغرب پر خاصے بھاری رہے اور بالیقین ان حالات کے سبک رو ہونے کی کوئی پیش گوئی فی الحال کی بھی نہین جا سکتی۔

باغیوں نے دارالحکومت صنعا میں صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے، صدر عبد ربّہ خوش بخت نکلے کہ ان کے محافظ انہیں بچا لے گئے ورنہ باغیوں کے تیور کچھ اچھے نہ تھے۔ ان کی وزیراطلاعات نادیہ الثقف ان کے محفوظ ہونے کی اطلاع دیتی ہیں۔ صدارتی حفاظتی دستے کے لیڈر کمانڈر صالح الجمالانی نے اس کارروائی کو بغاوت قرار دیا ہے۔ اِدھر صنعا میں یہ صورتِ حالات جاری تھی اور اُدھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس نے فوری طور پر اس کی مذمت کر دی۔

اجلاس کے شرکاء نے فریقین کے مابین مذاکرات پر زور دیا اور کہا کہ صدر عبد ربّہ ہادی منصورکی صدارت صد فی صد جائز ہے۔  دنیا میں کہیں بھی ایسی یا ایسی صورتِ حال کے مماثل کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو واشنگٹن کو پسو پڑ جاتے ہیں کہ کوئی امریکی نہ مارا جائے سو وہ یمن میں اپنے سفارت خانے کو بند کرنے پر غور فرما رہا ہے۔

باغیوں کے سردار عبدالمالک الحؤثی نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی اصلاحات کرو ورنہ صورتِ حال کا حلیہ مزید بگڑ سکتا ہے، کتنا بگڑ سکتا ہے؟ وہ کہتے ہیں اس کی کوئی حد متعین نہیں۔ حؤثی گروپ کے ٹی وی نیٹ ورک پر انہوں نے ایک طویل تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے منظور کردہ امن سمجھوتے پر عمل درآمد تیز تر کیا جائے۔ اب انہوں نے یہ مطالبہ کر تو لیا لیکن حکومت کے لیے یہ لوہے کا چنا چبانا ایسا آسان نہیں کیوں کہ اس امن سمجھوتے پر عمل درآمد ہو جائے تو ’’باغی‘‘ بہت مضبوط پوزیشن میں آ جاتے ہیں اور وہ کمیٹی جو، یمن کے لیے نیا آئین مرتب کر رہی ہے، اس کا اب تک کا سارا کیا دھرا چوپٹ ہو جاتا ہے۔

خیر! صدر ہادی ’’باغیوں‘‘ سے مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ  جنگ بندی کی کوئی صورت نکل آئے۔ پیر کے روز دارالحکومت مکمل طور پر حؤثی ’’باغیوں‘‘ کے قبضے میں تھا اور انہوں نے شہر میں جگہ جگہ اپنے چیک پوائنٹس قائم کر لیے تھے، سرکاری ذرائع ابلاغ بھی ان ہی کے زیر قبضہ تھے۔ پیر کو بگڑنے والی صورتِ حال میں تب تک 9 افراد ہلاک اور 67 زخمی ہوچکے تھے، اندیشہ ہے کہ تعداد بڑھے گی۔

چند روز قبل دارالحکومت میں ایک کار میں نصب بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔ یہ دھماکا پولیس کالج کے سامنے کیا گیا تھا اور بہ ظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کا مقصد کالج میں زیر تربیت کیڈٹوں کو زد پر لینا تھا۔ دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول کی یا نہیں البتہ یہ اظہر ہے کہ القاعدہ، حؤثی باغی گروپ یا پھر داعش میں سے کوئی ایک ہے۔ حؤثی قبیلے کا تعارف کرانے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ حقائق یمن کے بارے میں آشکار کیے جائیں۔

یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب مغرب میں 2 لاکھ 3 ہزار 800 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، ساحلی پٹی اس کی 12 سو میل طویل ہے۔ شمال کی جانب سے یہ ملک سعودی عرب سے متصل ہے اور اس کے مغرب میں بحیرۂ قلزم، خلیج عدن، جنوب میں بحیرۂ عرب اور مشرق میں اومان ہے، صنعا صدر مقام ہے، دو سو جزائر بھی اس کی عمل داری ہیں۔ تاریخی طور پر یہ سبائیوں کا وطن رہا ہے اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے معروف، سبا یا شیبا یہیں کی ملکہ تھی۔ یمن کا زریں عہد دس صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک وقت میں حبشہ اور ایرٹریا بھی اس کا حصہ رہے ہیں۔

275 عیسوی میں اس پر یہودی حماریہ بادشاہت مسلط رہی۔ مسیحیت یہاں چوتھی صدی عیسوی میں پہنچی اور ساتویں صدی میں اسلام یہاں قبول کیا گیا۔ یہاں کی حکم رانی آغاز ہی سے مشکل رہی ہے البتہ تیرہویں سے پندرہویں صدی کے دوران میں یہاں بَنو رسول کے حکم رانوں نے جم کر حکومت کی۔ یہ دراصل اوغوز ترکمان محمد بن ہارون کی آل تھی، رسول جس کا لقب تھا۔ بیسویں صدی میں یہاں برطانیہ گھس آیا اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، آدھا برطانیہ اور آدھا حصہ اس کا سلطنت عثمانیہ کے پاس رہ گیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد شمالی حصے میں زیدی متوکلی حکم ران ہوئے جب کہ جنوبی یمن 1967 تک برطانیہ کی عمل داری میں رہا۔ جدید جمہوریۂ یمن 1990 میں معرض وجود میں آئی۔ علی عبداللہ صالح کی سربراہی کے دوران میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس کے مطابق یہ ایک Kleptocratic ریاست کہلائی۔ یہ اصطلاح ایسی ریاست کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس کے حکم ران عوام کو بھاڑ میں جھونکتے ہیں اور صرف اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اسے ’’چوروں کی حکومت‘‘ کہیے۔

182 بدعنوان ترین ریاستوں میں اس کا نمبر 2009 میں 164 تھا۔ اس کے تمام تر وسائل پر پاکستان کی طرح بالائی طبقہ قابض تھا بھی اور ہے بھی۔ یہ بالائی طبقہ تین شخصیات اور ایک ریاست پر مشتمل تھا۔ ایک تو اس کے سربراہ علی عبداللہ صالح، میجر جنرل علی محسن الاحمر اور اسلامی اصلاح پارٹی کے لیڈر شیخ عبداللہ الاحمر اور چوتھے نمبر پر ریاستی مداخلت اس میں سعودی عرب کی ہے جو، یہاں کے قبائلی شیوخ پر اثر و رسوخ رکھتا ہے اور ان کی مالی ضروریات کا خاص خیال رکھتا ہے۔

2011 میں جب صدر علی عبداللہ صالح نے اپنی مرضی کی ترامیم آئین میں گھسیڑنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ غریب ملکوں کے عوام کو آئین کی پے چیدگیوں سے دل چسپی الا ماشاء اللہ کم کم ہی ہوتی ہے، دراصل یمنیوں کے ردعمل کے پیچھے انتہا کو پہنچی ہوئی غربت،  حکم رانوں اور افسر شاہی کی لوٹ مار وغیرہ کارفرما تھی۔ علی عبداللہ صالح اپنے کرتوتوں کے آئینے میں اپنی صورت دیکھے بغیر ہی خود کو یمن کا تاحیات صدر تسلیم کرنے کے چکر میں تھے اور بادشاہوں کی طرح اپنے صاحب زادے احمد صالح کو ولی عہد بنانے کی تمنا رکھتے تھے جو، اس وقت نیشنل ری پبلیکن گارڈ کے کمانڈر تھے (جو یمنی فوج کو نکیل ڈالنے کے لیے قائم کی گئی تھی) جب کہ سعودی عرب اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ علی عبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا، سو انہوں نے چھوڑ دیا مگر اس شرط پر کہ انہیں کوثر و تسنیم میں دھلا دھلایا قرار دے کر محفوظ راستہ دیا جائے، سو صدارت موجودہ صدر عبد ربّہ منصور ہادی کے ہاتھ آ گئی۔ ایسے ملکوں میں مواخذہ و احتساب چہ معنی دارد ! عبد ربّہ بھی اندھے ہی تھے، دو آنکھیں درکار تھیں، ’’بیچ دے‘‘ کا نعرہ مارا اور کرسی پر ٹک بیٹھے۔ انہوں نے قومی مکالمے کی مجلس (نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس) کا ڈول ڈالا جو دو سال تک چلا کی اور 25 جنوری 2014 کو اس کا اختتامی اجلاس ہوا۔

فیصلہ یہ برآمد ہوا کہ یمن کو کثیر علاقائی وفاقی (ملٹی ریجن فیڈرل ری پبلک) جمہوریہ بنایا جائے۔ صدر ہادی کی مدت صدارت میں ایک سال کی توسیع کی گئی تاکہ دو کمیٹیاں اپنا کام مکمل کرلیں؛ ایک کمیٹی آئین بنا رہی ہے اور دوسری یہ کہ طے کر رہی ہے کہ یمن کے ریجن دو ہوں یا چھے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ دونوں کام جاری جنوری میں مکمل ہو جائیں گے، اب ۔۔۔۔۔۔ بات یہاں سے بگڑنے کو ہے۔

فروری 2014 میں ایک صدارتی پینل اس امر پر راضی ہو گیا کہ یمن کو چھے ریجن پر مشتمل وفاق بنایا جائے لیکن اس پر ملک میں بے چینی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا۔ اس بے چینی کا اظہار حؤثی ملیشیا کر رہی تھی، جس نے دارالحکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس پر ان کے اور حکومت کے درمیان میں ساجھی حکومت کے قیام اور امن کا ایک معاہدہ طے پایا۔ اس کے نتیجے میں ایک  نئی مشترک سی حکومت قائم ہوئی، جس میں متعدد یمنی فریق شامل ہو گئے۔ اس کہانی کو کچھ دیر کے لیے یہیں چھوڑتے ہیں۔

جاری صورتِ حال میں یمن کا اپنا اور مغربی میڈیا، جس گروہ کو باغی قرار دے رہا ہے، اس کا تعلق حؤثی قبیلے سے ہے، یہ حؤثی کون ہیں؟ آیے دیکھتے ہیں !

2011 میں حؤثیوں نے یمنی انقلاب اور نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس میں بھی شرکت کی تاہم انہوں نے گلف کوآپریشن کونسل کا ایک سمجھوتہ، نومبر 2011 میں مسترد کردیا تھا، جس میں علی عبداللہ صالح اور اتحادی حکومت کی اسٹیبلشمنٹ کو امان دینے کی شق بھی شامل تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ 2011 میں حؤثیوں نے یمن کی دو علاقائی حکومتوں سعدہ اور جوف کو زیر نگیں بھی کر لیا تھا اور تیسری حکومت حجہ بھی ہتھیا لینے کے قریب تھے لیکن نہیں کر سکے۔

اگر یہ حکومت بھی ان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ صنعا پر براہ راست حملہ کر سکنے کی پوزیشن میں آ جاتے۔ بہرحال 2014 میں یہ لوگ دارالحکومت کے مختلف حصوں پر کنٹرول پانے میں کام یاب ہو گئے، جن میں ریڈیو اسٹیشن سمیت متعدد سرکاری عمارتیں بھی شامل تھیں۔ جاری جنوری میں بھی وہ صنعا اور البیداء حکومت کے شہر رضا پر قابض ہیں تاہم انہیں القاعدہ کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی ہے۔ یورپ اور امریکا، ایران پر حؤثیوں کی پشت پناہی کا الزام دھرتے ہیں جب کہ سعودی عرب پر حؤثیوں کے مخالفین کو کمک پہنچانے کا الزام آتا ہے۔

یہ وہ پس منظر ہے، 20 جنوری کے واقعات جن کا نتیجہ ہیں یعنی یہ کہ حؤثیوں نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے موقع پر صدر عبد ربّہ محل کے اندر ہی تھے تاہم باغیوں نے انہیں نکل جانے دیا۔ یمن پوسٹ کا اندازہ ہے کہ حؤثی جنگ بازوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ حؤثی احمد البحر کا کہنا ہے کہ حؤثی تحریک کے ارکان کی کل تعداد ایک لاکھ سے لگ بھگ سوا لاکھ تک ہے، جن میں جنگ باز اور غیر مسلح، دونوں طرح کے اراکین شامل ہیں۔

اب القاعدہ کی سنیے! کہ یہ بھی یمن میں سرگرم ہے۔ اس سرگرمی کے خلاف امریکا، یمن کا مددگار ہے، دامے، درمے، سخنے اور ۔۔۔۔ قدمے بھی۔ القاعدہ نے 2001 میں یہاں پر پرزے نکالے اور 2010 تک وہ ایک بھرپور عفریت بن گیا تو حکومت یمن نے اس کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 2011 کے یمنی انقلاب کے دوران میں جہادیوں نے یمن کی گورنری (Governorate) کے غالب حصے پر غلبہ حاصل کر لیا تھا بل کہ اسے اپنی امارت قرار دے دیا تھا۔ 2012 کے آغاز میں انتہا پسندوں نے جنوب مشرقی علاقوں میں شدید شورش برپا کی اور حکومت کو مصیبت میں ڈالے رکھا گیا۔

مئی 2013  میں ان ہی شورش پسندوں نے یمن کی تیل کی سب سے بڑی پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی، جس سے خام تیل کا بہائو تل پٹ ہو گیا۔ امریکا نے اس سلسلے میں یمن کی امداد کا سلسلہ اس لیے شروع کیا کہ القاعدہ نے 2000 میں ایک امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول اور 2008 میں امریکی سفارت خانے پر بمباری کی اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی زد پر لیا۔ تنظیم نے 25 دسمبر 2009  کو ڈیٹرائٹ جانے والے ایک امریکی ائیر لائنر پر بھی حملے کی کوشش کی تھی۔

داعش (دولت اسلامیۂ عراق و شام) ایک اور تنظیم ہے، جو یمن میں حال ہی میں اپنے لیے الگ سے جگہ بنا رہی ہے۔ ایک یمنی افسر نے چند روز پہلے بتایا کہ داعش (آئی ایس آئی ایس) کم از کم تین جنوبی صوبوں اور وسطی یمن میں موجود ہے۔ اس کی سب سے بڑی رقیب القاعدہ ہے۔ مذکورہ افسر کے مطابق دونوں تنظیموں، القاعدہ اور داعش کے مابین گزشتہ ماہ، مشرقی یمن کے صوبوں میں رن پڑ چکا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ ان مقابلوں میں دونوں طرف سے کتنے افراد کھیت رہے۔

گویا یمن ایک ملک کم اور مختلف جنگ جو گروپوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ حکم رانی کی کیفیت یہ ہے کہ جو شخصیت منصب صدارت و وزارت پر براجمان ہوتی ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کے تمام تر وسائل پر مکمل تصرف حاصل کرے اور اس مقصد کے لیے وہ ہر کلیدی عہدے پر اپنے عزیزوں، اقرباء اور وفا داروں کو متعین کر لیتا ہے۔ اندازہ کیجیے ! سابق صدر علی عبداللہ صالح کا بیٹا، بیٹی، چار بھتیجے، داماد اور دو سوتیلے بھائی، ملک کے اہم ترین عہدوں پر تعینات تھے۔ یہ ذات شریف تین دہائیوں تک ملک کے سفید و سیاہ کو لوٹتے رہے۔ انہوں ملک کی فوج کے دکھانے والے دانت باقی رکھے اور کھانے والے نکلوا دیے اور جب معزول ہونے لگے تو شرط یہ رکھی کہ انہیں اور ان کے کسی بھی اپنے کو چھو کر میلا نہ کیا جائے۔

ملک بدعنوانی کا گڑھ ہے اور حقوقِ انسانی کا تصور انتہائی مبہم ہے، ناپُرسانی میں پاکستان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ غریب کی جورو، سب کی بھابی! سرکار کے علاوہ چار فریق اس کے دیور بنتے ہیں، اس رشتے کی پاداش میں عوام کٹ، پس رہے ہیں۔ یمن دنیا کے نادار ترین ممالک میں سے ایک ہے، شہریوں اور خاص طور پر بچوں کو، بھوک کھا رہی ہے۔ دو کروڑ اور لگ بھگ چالیس لاکھ افراد کا یہ ملک 21 گورنریوں اور 2014 کے آئین کے مطابق چھے علاقوں (Regions) میں بٹا ہوا ہے۔

صدارتی محل پر قبضے کے بعد صدر عبد ربّہ مستعفی ہو گئے تھے تاہم ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا۔ شریف آدمی لگتے ہیں، بہ دستور پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے رہیں گے۔ آپ تو جانتے ہیں ! ملک جتنا غریب ہوتا ہے، ایسے مناصب پر کام کرنے والوں کو تن خواہ اتنی ہی فیاضی سے پیش کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔