ہندو لڑکیوں سے’جبری‘ شادیوں کے مسائل

قادر خان  ہفتہ 7 فروری 2015
qakhs1@gmail.com

[email protected]

جبری طورپرمذہب تبدیل کروانے اور شادی کرنے کے بہت کم معاملات اعلی عدالتوں یا میڈیا تک پہنچ پاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کے اندارج صرف 45 فیصد ہیں جس میں کسی نہ کسی طور پر متاثرہ خاندان اپنی فریاد ارباب اختیار تک پہنچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس میں متاثرہ خاندان نے  فیصلوں پر سخت حیرت اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔اس سلسلے میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے  ایک فیصلے پر نکتہ چینی کی تھی ۔

رنکل کماری کیس کے بارے میں2012ء میں فیصلہ دیا گیا تھا کہ اسے شوہر کے ساتھ گھر جانے کی اجازت ہے۔ فریال ( رنکل کماری) نے اپنے گھر جانے جب کہ  ڈاکٹر حفضہ (لتا) نے اپنے شوہر نادر بیگ کے ہمراہ جانے کا بیان دیا۔ سندھ پولیس کو ہدایت کی گئی کہ دونوں لڑکیوں کو باحفاظت کراچی میں قائم ’’پناہ‘‘ نامی شیلٹر ہوم میں پہنچائیں تاکہ وہ دباؤ سے آزاد ہوکر فیصلہ کرسکیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔

اس لڑکی کو بالغ بنا کر پیش کیا گیا جب کہ  اس کے والدین نے اسکول اور پیدائشی اسناد سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لڑکی کی عمر بارہ سال ہے۔ لہذا قانون کے مطابق اٹھارہ سالہ لڑکی یا لڑکا ہی شادی کرسکتے ہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے سندھ کے شہر میرپورماتھیلو کی ہندو لڑکی رنکل کماری کی مبینہ طور پر مذہب تبدیلی اور جبری شادی پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا کہ ایک سیاسی شخصیت نے میر پورماتھیلو سے اغوا شدہ لڑکی رنکل کماری کو اپنے پاس رکھا جسے بعد ازاں ہندو کیمونٹی کے احتجاج پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔پاکستان انسانی حقوق کمیشن یہ دعوی کرتی ہے کہ لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کرکے اس کا نام فریال رکھا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی کے رکن پیتامبر سیوانی نے ایوان میں ایک قرارداد پیش کی تھی کہ نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغوا اور ان کا مذہب زبردستی تبدیل کر کے ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں ۔انھوں نے میر پور ماتھیلو کی رنکل کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’ اگر کوئی ہندو لڑکی اپنی رضا مندی سے مسلمان ہونا چاہتی ہے تو ہندو کیمونٹی کو کوئی اعتراض نہیں مگر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ پتیامبر شیوانی اور ہندو پنچایت کمیٹی کا یہ دعوی غور طلب ہے کہ سندھ سے ہر ماہ بیس سے پچیس لڑکیوں کو مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

فریال (رنکل کماری) کے چچا راج کمار نے کراچی پریس کلب میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں ایک چھ سالہ لڑکی جمنا کو اسٹیج پر بلا کر یہ دعوی کیا تھا کہ جمنا اور اس کی دس سالہ بہن پوجا کو بھی مذہب تبدیل کرانے کی کوششیں کی گئی لیکن معاملہ میڈیا پر آنے سے ایسا نہ ہوسکا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دس سالہ جمنا کو دارالامان  بھیجا گیا ، جب جمنا کے والد سوما کے مطابق  ’ پوجا‘ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگتی اور اس کی برین واشنگ کی گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرتی ہے ‘۔

ڈھرکی کے بھرچونڈی کے پیر خاندان پر یہ الزام رنکل کمار نامی لڑکی کے جبری مذہب و شادی کرانے پر عائد کیا گیا تھا تو ایک اسی طرح کا دوسرا واقعہ میگھوار کی انجلی نامی لڑکی کے ساتھ بھی پیش آیا جس میں والدین نے الزام لگایا کہ انجلی کو زبردستی اغوا کیا گیا ۔ ریاض سیال نامی شخص نے دعوی کیا کہ اس نے انجلی سے پسند کی شادی کی ہے ۔کندن میگھواڑ نے عدالت میں نادرا کا پیدائشی سرٹیفکیٹ اور اسکول کا سرٹیفکیٹ دکھایا کہ انجلی کی عمرساڑھے گیارہ سال ہے۔

عدالت نے انجلی کوکراچی کے دارالامان بھیجنے کا حکم دیا، بعد ازاں انجلی جس کا اسلامی نام سلمی رکھا گیا تھا  ،2015ء میں سندھ ہائی کورٹ کے روبرو اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اٹھارہ سال کی ہے اور انھوں نے اپنی مرضی سے ریاض سیال سے بیاہ رچایا اور اسلام قبول کیا ہے اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ عدالت کے ریاض سیال سے اس کی رہائش اور سیکیورٹی سے متعلق استفسار پر مطمئن ہونے کے بعد سلمی (انجلی) کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ، جب کہ  اس قبل عدلیہ نے آدھا گھنٹہ والدین اور آدھا گھنٹہ ریاض سیال کے ساتھ ملاقات کروانے کا حکم دیا تھا اور بعد میں لڑکی کو مزید ایک گھنٹہ سوچنے کی مہلت بھی دی تھی ۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ سندھ کے کئی شہروںمیں میگھواڑ برادری نے احتجاج کرتے ہوئے اس بات پر شکوہ کیا تھا کہ ’’ہندو اراکان اسمبلی جو اکثر اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ، دلتوں سے زیادتی پر خاموش رہتے ہیں۔‘‘

ہمیں دونوں اطراف سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کہ اصل معاملہ کیا ہے ، اس کی وجوہات اور معاشرتی و سیاسی معاملات کا بھی بغور مطالعہ کرنا ہوگا۔سیاسی پہلو کے علاوہ ایک مذہبی پہلو بھی ہے کہ شریعت میں لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے عمر کی قید کا کوئی تعین نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے بھی مسالک میں اختلافی مختلف وضاحتیں ہیں۔حالاں کہ پاکستانی آئین میں نکاح کے لیے عمر کی حد اٹھارہ سال معین رکھی گئی ہے لیکن اس پر عام حالات میں بھی عمل کم ہی ہوتا ہے اور نکاح خواں ، خانہ پری کے لیے بغیرکسی تصدیق کیے جو عمر لڑکی کی بتائی جاتی ہے ، نکاح نامے میں اندراج کردیتا ہے۔

اس ضمن میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کا جبری مذہب تبدیلی کا معاملہ ہو یا زبردستی پسند کی شادی کے لیے اغوا اور دباؤ ڈالنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی روایت ، بہ حیثیت مسلم ہمیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اسلام کی بدنامی کا موقع کسی غیر مسلم کو ملے۔ اسلام امن وآشتی کا دین ہے جو جبر کی شدید مخالفت کرتا ہے، قبولیت اسلام کے لیے دباؤ اورلالچ قرآن وسنت رسولﷺ میں نہیں ہے اگر کوئی یہ عمل کرتا ہے تو وہ اسلام کے برخلاف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔