صرف گندم ہی کیوں؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 7 فروری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گندم سے پیدا ہونے والی ’’گلوٹین الرجی‘‘ کے حوالے سے جو ای میل میرے پاس آئی ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ 54 ای میل میں سے 42 ان لوگوں کی ہیں جن کی فیملی کے کسی نہ کسی ممبر کو یہ بیماری لاحق ہے۔ بہت افسوس ہوا یہ جان کر کہ کسی کی بیٹی، بہن، بھتیجی یا بھائی  اور بیٹا اس کا شکار ہیں۔ ان سب کو میں نے اس طبی جریدے کا نام پتہ اور فون نمبر ارسال کردیے ہیں۔ ڈاکٹر ہما ارشد کو میں ذاتی طور پر بالکل نہیں جانتی، لہٰذا ان کے متعلق معلومات بھی اسلام آباد کا وہی طبی جریدہ فراہم کرسکتا ہے۔

یقین کیجیے کہ مجھے خود بھی اس کا زیادہ پتہ نہیں تھا۔ تین سال پہلے میری ایک کولیگ پروفیسر کی پوتی کا نہ قد بڑھ رہا تھا نہ وزن اور نہ ہی اسے بھوک لگتی تھی ایک دن وہ یونہی باتوں باتوں میں کہنے لگیں … لو اور سنو اتنے سارے ٹیسٹ ہوئے کہ بھوک کیوں نہیں لگتی۔ تو ڈاکٹر صاحب نے رپورٹ دیکھنے کے بعد کہاکہ ’’بچی کو گندم کی بنی ہوئی کوئی چیز نہ کھلائی جائے۔ یہی اس کا علاج ہے‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے لاپرواہی سے کہا ’’لو بھلا گندم سے بھی کوئی بیماری ہوسکتی ہے۔‘‘

بیرون ملک سے آئی ہوئی بعض ای میل میں دو ڈاکٹر صاحبان نے اس بیماری پہ بڑی تفصیلی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا انسانی صحت کی خاطر پاکستانی حکام ایسی گندم کی پیداوار پہ پابندی نہیں عائد کرسکتے؟ اگر یہ ممکن نہیں تو سرکار کی زیر نگرانی کیا دیسی گندم کی دوبارہ کاشت نہیں کی جاسکتی؟ ان حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ اور امریکا، کینیڈا میں ایسی غذائیں ضایع کردی جاتی ہیں جن کے بارے میں ہلکا سا شبہ بھی ہو کہ یہ انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔ افسوس کہ ہم یوں تو بڑے بڑے جلوس نکال کر، مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کرکے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی باتوں پہ اور ان کی تعلیمات پہ عمل پیرا نہیں ہوتے۔

’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ اس کی جو درگت ہم نے بنائی ہے وہ سب پہ عیاں ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ خریدار کو مال بیچنے سے پہلے اس کا عیب بتادو لیکن ہم روز اس مشاہدے اور تجربے سے گزرتے ہیں کہ گلے سڑے پھل دکاندار چھپا کر خاموشی سے شاپرز میں ڈال دیتا ہے۔ مقامی طور پر بننے والے کپڑے پر غیر ممالک کی اسٹمپ لگانا عام سی بات ہے۔ ایسے میں ’’گلوٹین فری‘‘ آٹا اور بسکٹ وغیرہ کا تصور بھی محال ہے۔

جہاں گدھوں اور مردہ جانوروں کا گوشت کھلے عام فروخت ہوتا ہو تو ایسی صورت میں یہ توقع رکھنا کہ حکومت کچھ کرے گی صرف نادانی ہے۔ حکومت کے کرنے کو اور بہت کچھ ہے۔ مثلاً فیصلے ایک 8×12 کے کمرے میں بیٹھ کر ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے مری میں دربار لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے تمام حکمران بالخصوص وہ جو 1970 کے بعد ہم پر نازل ہوئے ہیں انھیں مار کوپولو، ابن بطوطہ اور واسکوڈے گاما بننے کا بڑا شوق ہے۔

میری اس بات سے بہت سے لوگ اتفاق کریںگے کہ غذائی عادات اور اس کی اہمیت سے جس طرح ہمارے بزرگ واقف تھے ہم اس معاملے میں بالکل کورے ہیں۔ آج صرف لذت کام دہن کے علاوہ کسی بھی بات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔  گھروں میں کھانا کم پکتا ہے، بازار سے زیادہ آتا ہے۔ ویک اینڈ پہ باربی کیو باہر جاکر کھانا بھی لازمی ہے۔

اسی لیے اب گھروں سے نہ دال بگھارنے کی سوندھی خوشبو آتی ہے جس سے اشتہا بڑھ جاتی تھی اور نہ ہی آلوگوشت، بس پڑے پڑے دھنیے کی خوشبو، شب دیگ، مغلیٔ قورمہ، یخنی پلاؤ اور شاہی بریانی بھی خواب وخیال ہوئی۔ سارا زور نوڈلز اور چائنیز کھانوں پر۔ پندرہ بیس سال پہلے تک بھی صورت حال اتنی خراب نہ تھی گھروں میں موسموں کے حوالے سے کھانے پکتے تھے۔ اسی لیے صحتیں بھی اچھی رہتی تھیں۔ رات کو دیر سے کھانے کی عادتوں نے بھی بہت خرابی پیدا کی ہے۔ صبح کا ناشتہ تین بجے سہ پہر اور رات کا کھانا گیارہ بجے کے بعد بہت عام سی بات ہے۔

لہٰذا جب ہر طرف افرا تفری اور کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ لگی ہو تو ایسے میں گلوٹین الرجی فری غذائیں کہاں سے ملیںگی۔ اس سلسلے میں صرف یہ تجویز دی جاسکتی ہے کہ جن گھروں میں کوئی بھی فرد اس بیماری میں مبتلا ہے اس گھر کی خواتین کو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے وہ اس طرح کہ گیہوں کے بجائے جو، بیسن، جوار، مکئی، باجرہ اور چاول کو غذا میں شامل کیاجائے۔ ہم نے اپنے گھر میں دیکھا کہ دادی اور والدہ سردیوں میں بطور خاص باجرے اور مکئی کی روٹی پکاتی تھیں اور اس پہ اصلی گھی لگاکر سب گھر والوں کو کھلاتی تھیں۔

میرے والدکی زندگی کا زیادہ تر حصہ چونکہ انگریزوں کے ساتھ گزرا اس لیے ان کی غذائی عادات تھوڑی مختلف تھیں۔ وہ جوار، باجرہ، مکئی اور جو کی روٹی بالکل پسند نہیں کرتے تھے لیکن دادی کے حکم پر پانچوں اناجوں کو ملاکر جب روٹی پکائی جاتی تھی تو وہ انھیں نورتن سبزی کے ساتھ ضرورکھانی پڑتی تھی۔ اسی طرح سردیوں ہی میں باجرے کی روٹی کا ملیدہ بنایا جاتا تھا۔گڑ،گھی اور سفید تلوں کے ساتھ۔ یہ بھی صرف ذائقے کے لیے نہیں بلکہ طبی فوائد کے لیے۔ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ وہ ان تمام اجناس کو استعمال میں لائیں۔ کبھی مریض کے لیے بیسن کی روٹی پکادی، کبھی مکئی کی،کبھی باجرے کی اور کبھی ان سب میں تھوڑا سا چاول کا آٹا ملاکر چپاتی بنائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح خواتین گھر میں بسکٹ اور مٹھائی وغیرہ بھی بناسکتی ہیں۔ بازار میں بیسن کے لڈو اور اندرسے با آسانی دستیاب ہیں۔

اندرسے صرف چاول اور سفید تلوں سے بنائے جاتے ہیں۔چاول کے آٹے کی پوریاں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بہت ضروری ہے کہ مریض میں اس الرجی کی آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین کروا دیا جائے کہ ’’گلوٹین الرجی‘‘ خدا نہ کرے کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے۔ آخر شوگر کے مریض بھی تو چینی کا استعمال اور ہائی بلڈ پریشر کے نمک سے پرہیز کرتے ہیں۔ اگر گندم نہیں ہے تو اس کی متبادل دیگر اجناس بھی تو ہیں، ہماری ایک کولیگ اکثر حلیم میں دالوں کے ساتھ گندم کی جگہ باجرہ ڈالا کرتی تھیں اور ہم سب کو کھلایا کرتی تھیں، بہت لذیذ حلیم ہوتا تھا۔ اسی طرح دہلی اور یوپی والے ایک ڈش بناتے ہیں جس کو ’’شولہ‘‘ کہتے ہیں اس کو لونگ کی چھلکوں والی دال، چاول، قیمہ اور پالک ملاکر پکایاجاتا ہے۔

ٹماٹر اور دیگر مصالحے ملاکر بعد میں ہری مرچ، ہرا دھنیا، ادرک، لیموں،گرم مصالحہ اوپر سے ڈالا جاتا ہے اور پیازکا بگھار لگاکر کھایا جاتا ہے۔ یقینا ’’گلوٹین الرجی‘‘ سے متاثر لوگوں کو یہ غذا ضرور پسند آئے گی۔ اسی طرح جو کا دلیہ بھی غذائی اعتبار سے نہایت اہم ہے بچوں کو دودھ میں دلیہ پکا کرکھلایا جاسکتا ہے۔ اگر بیکنگ آتی ہو تو بیسن اور چاول کے آٹے کی ڈبل روٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔

میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اپنے ٹاک شوز میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی توجہ اس جانب دلوائی جائے کہ وہ دیسی گندم جو وہ اپنے استعمال کے لیے اگاتے ہیں اسے وہ قیمتاً ’’گلوٹین الرجی‘‘ کے مریضوں کو فراہم کردیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پہ  بھی اس بیماری سے آگاہی کے لیے ایک مہم چلائی جائے اور دیسی گندم کے رکھوالوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی اپنی قبریں روشن رکھنے کے لیے اس جانب توجہ دیں۔ مناسب قیمت پرمتاثرین کو گلوٹین فری گندم فراہم کریں۔

ساتھ ہی ڈاکٹر صاحبان سے گزارش کروںگی کہ وہ اس بیماری کے حوالے سے عوام کو آگاہی دیں اور ساتھ ہی ایک عام آدمی کے لیے یہ بھی بتائیں کہ (PARTICLES PER MILLION) P.P.M سے کیا مراد ہے؟ PPMکا کتنا LEVEL قابل قبول ہے یعنی گندم میں کتنا gluten نقصان دہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔