دعا جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے!!

شیریں حیدر  ہفتہ 7 فروری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جہاز اپنی معمول کی پرواز پر تھا، موسم بھی ٹھیک تھا اور ہوا بھی موافق، اندازہ تھا کہ آدھے گھنٹے میں جہاز منزل مقصود پر پہنچ جائے گا۔ اچانک سب لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، جہاز یکدم جیسے کہیں گر رہا تھا، یقیناً کسی ائیر پاکٹ میں آ گیا تھا۔

لمحوں میں ٹوں کی آواز کے بعد پائلٹ کی آواز گونجی کہ چند لمحے پہلے مطلع بالکل صاف تھا اور اب اچانک موسم خراب ہو گیا تھا ، اس نے لوگوں کو فوراً حفاظتی بند باندھ لینے کو کہا، سب نے ہدایات پر عمل کیا، اب جہاز ہچکولے کھانے لگا تھا۔ پائلٹ کی آواز دوبارہ گونجی، اس نے بتایا کہ کنٹرول ٹاور سے اس کا رابطہ ہو گیا تھا اور اسے کہا گیا تھا کہ ایسے حالات میں پرواز کو جاری رکھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

اسے ہدایات دی جا رہی تھیں کہ جہاز کو ایک قریبی فوجی چھاؤنی کی لینڈنگ سٹرپ پر اتار لیا جائے۔ جہاز نے چند ہلکے ہلکے جھٹکے کھائے تاہم منٹوں میں وہ ٹیکسی کر کے رک گیا، ایک اجاڑ بیابان سی جگہ پر لینڈنگ سٹرپ تھی، جہاز سے باہر نکل کر فاصلے پر ایک خستہ حال سی عمارت بھی نظر آئی جو کبھی غالباً اس چھاؤنی کا ائیر پورٹ رہا ہو گا۔ فوجی بسوں کے ذریعے مسافروں کو ایک میس کی عمارت میں پہنچایا گیا۔

لوگوں کو دو آپشن دی گئیں کہ وہ مقامی ہوٹلوں میں ائیر لائن کی طرف سے قیام کر کے انتظار کریں کہ ان کے لیے کیا بندوبست کیا جاتا ہے یا کسی کے پاس اپنا کوئی ذریعہ ہے تو وہ وہاں سے روانہ ہو سکتے ہیں۔ ایک مسافر ڈاکٹر طلال، ملک کا نامور نیورو سرجن، اس وقت سے انتہائی بے چین تھا، اسے ایک اہم مریض کو دیکھنے جانا تھا، اس کے لیے اس کی بھاری فیس کے علاوہ اس کی آمد و رفت کا سارا خرچہ بھی اٹھایا گیا تھا کیونکہ مریض کی حالت ایسی تھی کہ وہ وہاں نہ لایا جا سکتا تھا، تمام مقامی ڈاکٹروں نے اس کے علاج سے معذوری کا اظہار کر دیا تھا اور اسے ملک سے باہر لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔

مگر اس سے قبل اگر ممکن ہوتا تو اس مایہ ناز ڈاکٹر کو دکھا لیتے جو کہ وہاں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھا اور اپنی مقبولیت کے باعث عدم دستیاب بھی، اس سے معائنے کے لیے ہی لوگوں کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا، مگر اس مریض کی صورت میں ایسا ممکن نہ تھا اس لیے بڑی پہنچ کے ذریعے اس ڈاکٹر کو وہاں بلایا گیا تھا، جس کا ایک ایک لمحہ قیمتی اور انتہائی مصروف تھا۔

اس سارے واقعے کے بعد ڈاکٹر طلال اب جھنجھلانے لگا تھا، اسے اس مریض کو دیکھ کر اسی روز اپنی باقی مصروفیات کے لیے واپس بھی پہنچنا تھا، ’’ میں فوری طور پر اپنے لیے کوئی گاڑی چاہتا ہوں ، جس معاوضے پر بھی ملے ، میرا وقت بہت قیمتی ہے اور میرا کسی مریض کو دیکھنا انتہائی اہم‘‘ ۔ اسے بتایا گیا کہ موسم انتہائی ابتر ہے اور اس طرح کی ناقص سی سڑک پر اس طوفانی موسم میں سفر کرنا عقل مندی نہیں مگر اس کا فیصلہ حتمی تھا۔ اس کے لیے ایک انتہائی آرام دہ گاڑی کا بندوبست کر دیا گیا ۔

چالیس منٹ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب گاڑی ایک بیابان میں تھی اس نے چلنے سے انکار کر دیا، ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی انتہائی فٹ اور نئی تھی اس کا یوں رک جانا نا قابل یقین ہے، اب کیا کیا جا سکتا تھا، جہاں گاڑی رکی تھی وہیں فاصلے پر ایک چھوٹے سے مکان میں سے کمزور سی روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ باہر ٹخنوں سے اوپر تک پانی تھا، سڑک پر دریا بہہ رہا تھا، وہ شڑاپ شڑاپ کرتا ہوا اس مکان کے پاس پہنچا، دروازے پر کوئی گھنٹی نظر نہ آئی تو اس نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے قدموں کے گھسٹنے کی آواز آئی اور دروازہ وا ہوا، ایک جھریوں بھرا انتہائی کمزور چہرہ، اس نے سلام کیا، بڑھیا نے سلام کا جواب دیا اور ہٹ کر اسے گھر کے اندر آنے کو کہا۔

مختصر سا گھر، ایک بڑا سا ہال نما کمرہ جس کے ایک سرے پر باورچی خانہ نما حصہ تھا اور دوسری طرف سے باہر نکل کر برآمدے میں غسل خانہ۔ ڈاکٹر نے پہلے غسل خانہ استعمال کیا اور پھر بڑھیا سے پوچھا کہ اگر چائے مل سکتی ہو تو۔ بڑھیا نے معذوری ظاہر کی اور اسے بتایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی، اس کی بیٹی دن میں ایک قریبی گاؤں میں زمیندار کے گھر پرکام کرتی ہے اور شام میں واپس آ کر اسے اور اپنے بیٹے کو کچھ کھانے کو بنا کر دیتی ہے، دن میں وہ دونوں بے سہارا اور لاچار ہوتے ہیں۔ تب ڈاکٹر کو چارپائی پر پڑا وہ وجود بھی نظر آ گیا، دس بارہ سال کی عمر کا وہ بچہ …’’ کیا ہوا اس بچے کو؟؟ ‘‘ وقت گزاری کی خاطر اس نے سوال کیا۔

’’ سات سال قبل ایک حادثے میں اس کا باپ مر گیا، ماں کو معمولی چوٹیں آئیں مگر اسے جانے کہاں چوٹ لگی کہ یہ بستر پر پڑ گیا، بظاہر اسے کچھ نہیں، اس کا قد کاٹھ بھی بڑھ رہا ہے ، یہ دیکھتا ہے، سنتا ہے، کسی نہ کسی طرح کچھ ٹوٹا پھوٹا بول بھی لیتا ہے مگر اپنی ایک انگلی تک کو ہلانے پر قادر نہیں!!‘‘ بڑھیا نے اسے بتایا۔

’’ اوہو… بڑا افسوس ہوا، کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا آپ نے؟ ‘‘

’’ تم اس گھر کو، مجھے، اس بچے کی حالت کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ حالات کو سمجھ تو گئے ہو گے، غربت اور افلاس نے اس گھر پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ساتھ والے گاؤں کے جس زمیندار کے ہاں میری بیٹی دن بھر کام کرتی ہے ، ان کا بیٹا شہر میں پڑھتا ہے، ا س نے اس بچے کو لے جا کر شہر میں دکھایا تھا، یہاں کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس ملک میں اگر کوئی امید اس بچے کے علاج کی ہے تو وہ ایک ہی ڈاکٹر ہے، اب اتنے بڑے شہر میں، اس ڈاکٹر کے پاس کون لے کر جائے، اسی بچے کا منت ترلا کیا تو وہ دو برس سے کوشش کر رہا ہے مگر اس ڈاکٹر سے اس بچے کے لیے وقت نہیں مل پا رہا۔

ایک تو اتنی فیس کی سکت نہیں ہماری جو کہ معائنے سے پہلے وصول کی جاتی ہے اور دوسرے اس بچے کو کون شہر لے کر جائے، کس طرح اس کا علاج ہو، میری بوڑھی ہڈیوں میں سکت ہے نہ میری بیٹی کے پاس وقت۔ بمشکل کام کر کے تین زندگیوں کی گاڑی کھینچ رہی ہے، میں تو دعا ہی کر سکتی ہوں ، تم سنو تو ہنسو، میں تو اللہ تعالی سے رو رو کرکہتی ہوں ، اے عرشوں کے مالک، تجھے سب طاقتیں ہیں، تو زمینوں اور آسمانوں پر قادر ہے، ہواؤں کے رخ موڑ دینے پر قادر ہے، ہم تو کیڑوں سے بھی کمتر ہیں ، سکت نہیں رکھتے کہ اس بچے کو لے کر وہاں جائیں مگر تو تو برتر ہے، تو جو چاہے تو اس ڈاکٹر کو ہواؤں پر سوار کر کے یہاں لے آئے، تیرے اختیار کی تو کوئی حد نہیں !!!!‘‘ بڑھیا کے چہرے کی جھریوں میں آنسو یوں چل رہے تھے جیسے گلیوں میں طوفانی بارش کا پانی… ’’ مگر میں گناہ گار کیا شے ہوں کہ وہ میری سنے۔ ‘‘

’’ کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا ؟ ‘‘ ڈاکٹر نے خالی دماغ سے سوال کیا۔

’’ڈاکٹر طلال… ‘‘ بڑھیا نے فوراً کہا۔ اب آنسوؤں سے ڈاکٹر رو رہا تھا، اس نے بڑھیا کے ہاتھ پکڑ لیے، اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس کے آگے کر دیے ۔

’’ اماں ، آپ بہت عظیم ہیں، آپ کو اپنی دعا کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں، اس ہواؤں کو موڑ دینے کی طاقت رکھنے والے نے آپ کے دل سے نکلی دعا کو کس طرح قبول کیا آپ جانتی ہی نہیں۔ میرے لیے دعا کریں اماں! میرے ہاتھ میں شفا کے لیے دعا کریں ، میں ہی وہ کم نصیب ہوں جس سے ملنے کی آپ کی دعا نے آج مجھے زندگی کے ایک نئے سبق سے آگاہ کیا ہے، آج کے بعد ڈاکٹر طلال کی ترجیح وہ مریض ہوں گے جن کے پاس علاج کی سکت نہیں، ان میں سب سے پہلے آپ کا نواسا ہے اماں !!!‘‘ بڑھیا پھٹی پھٹی نظروں سے اس ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی اور ڈاکٹر طلال اس کے نواسے کے ابتدائی معائنے میں مصروف ہو گیا۔

اسے جانچ کر اس نے اپنا فون اٹھایا اور ایک نمبر ملایا… ’’ ابراہیم… میں اپنے اس مریض کودیکھ کر واپسی پر اپنے ساتھ ایک مریض بچے کو لے کر آؤں گا، اسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں اس کے لیے ایک بیڈ تیار کروا کر، میرے آپریشنوں کی لسٹ میں اس بچے کا نام سب سے اوپر لکھ دیں… ایک منٹ ٹھہریں!‘‘ وہ رکا اور بڑھیا کی طرف متوجہ ہوا، ’’ بچے کا نام کیا ہے اماں ؟ ‘‘

’’ عبداللہ ‘‘ بڑھیا کا پورا وجود خوشی اور حیرت سے لرز رہا تھا!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔