بالقرضِ محال پر گہری نگاہ

نسیم انجم  ہفتہ 7 فروری 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سب سے پہلے تو میں ڈاکٹر ایس ایم معین کا شکریہ ادا کروں گی کہ انھوں نے ایک بار پھر مجھے اظہار خیال کا موقع عطا فرمایا۔ حاضرین ذی وقار! ڈاکٹر صاحب نے سختی سے منع کیا تھا کہ میرے بارے میں زیادہ بات نہ کی جائے۔ البتہ تحریروں کے حوالے سے تبصرہ وتذکرہ ضرور پیش کریں۔ اب اگر کتاب کے بارے میں بات کریں یا ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے، بات تو ایک ہی ہے۔ سو، شروع کرتے ہیں اﷲ کے بابرکت نام سے کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ ماشاء اﷲ تئیسویں (23 ویں) کتاب بالقرض محال ہے، جس کی رونمائی اور شناسائی کے لیے ہم سب ایک مرکز پر جمع ہوئے ہیں۔ یقینا یہ ایک خوشی کا موقع ہے۔

مصنف کی تقریباً تمام ہی کتابیں ڈھیر ساری معلومات قاری کے لیے ہویدا کرتی ہیں، ملکوں، ملکوں کے واقعات اور نگر نگرکے قصے، دلچسپ پیرائے میں پڑھنے کو ملتے ہیں، اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو صحت اچھی رہتی ہے یعنی تندرستی ہزار نعمت ہے کہ مصداق اور دوسرے بنا ٹکٹ اور ویزے کے سفر کے بغیر دنیا جہاں کے سیاسی و معاشرتی حقائق ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔

بالقرضِ محال ہو یا پھر ’’پورب سے یورپ‘‘ تک کا سفرنامہ ہو یا ان کی تحریر کردہ دوسری کتب ہوں، قاری کو سیکھنے اور ہنسنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے۔

مذکورہ کتاب کو قربانی کے بکرے کی طرح تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی حصہ اول، حصہ دوم اور سوم، لیکن یہاں حق دار کا سوال نہیں ہے بلکہ ہر شخص بلا تخصیص استفادہ کرسکتا ہے۔ کتاب میں 10 نہیں 20 نہیں پورے ساٹھ مضامین شامل ہیں، تمام مضامین صداقت و ظرافت کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھتے ہیں۔ ’’آزمائش شرط ہے‘‘ کے عنوان سے پروفیسر انوار احمد زئی کا مضمون ہے، جن کی تحاریر و تقاریر کے ڈنکے بجتے ہیں، اپنے مضمون کی ابتدا انھوں نے یوں کی ہے کہ بغیر سہرے کے دلہا ایسا لگتا ہے جیسے بغیر جعلی ڈگری کے سیاست دان۔ واہ خوب۔ کتاب ملکی و غیر ملکی واقعات سے مزین ہے۔

مصنف نے عام باتوں اور معلومات کو طنز و مزاح کی چاشنی میں ڈبکیاں لگاکر قاری کی خدمت میں جوں کا توں پیش کردیا ہے، پھر اشعار بھی واقعات کی مناسبت سے لکھے گئے ہیں۔ ’’فضائی سفر میں فلائنگ ککس‘‘ اس مضمون میں چینی ایئر ہوسٹوں کے جوڈو کراٹے اپنے تحفظ کے لیے سیکھنے کا ذکر بڑے ہی موثر انداز میں نظر آتا ہے۔ ’’جشن آزادی‘‘ پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ وہ آزادی نہیں جسے ہم سمجھ رہے ہیں۔ تن تنہا زندگی گزارنے کی آزادی ہے۔ یعنی شادی کے بندھن کو دو دھاری تلوار سے تماشبین کے بیچ اور شادیانوں کی گونج میں کاٹنے کا نام ہے، جاپان کے ایک تاجر نے ٹوکیو میں پہلا طلاق محل کھولا ہے، جس کی باقاعدہ بکنگ ہوتی ہے۔

پاکستانیوں کے چال چلن اور دیار غیر میں ان کی شہرت کی عکاس مصنف کی تحریر ’’لوٹ سیل‘‘ ہے، پاکستانیوں نے بیرون ممالک میں اپنا نام جو کمایا ہے اس سے سب واقف ہیں تو ان کی شناخت کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے کہ ایک جہاز میں ایک اطالوی، ایک فرانسیسی اور ایک پاکستانی سفر کررہے تھے، اچانک اطالوی پکارا، آہا! ہم اس وقت اٹلی کے اوپر ہیں، نیچے ٹاور آف Pisa دیکھا ہے، تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ فرانسیسی چلایا، اب ہم پیرس کے اوپر ہیں، مجھے ایفل ٹاور صاف دکھائی دے رہا ہے، چند لمحے گزرے تھے تو پاکستانی بھائی کو جوش آگیا، بولے دوستو! اب ہم پاکستانی فضاؤں میں داخل ہوچکے ہیں۔ دونوں نے تعجب سے کہا کہ پاکستان کہاں سے آگیا ابھی تو ہم یورپ میں ہیں، پاکستانی نے نہایت اعتماد سے جواب دیا خطہ کوئی بھی ہو، لیکن جہاز اس وقت پاکستان کی حدود میں ہے، کیوں کہ میں نے ذرا سی دیر کے لیے کھڑکی سے ہاتھ نکالا تھا کہ کسی نے میری انگلی سے انگوٹھی کھینچ لی۔

’’وقفہ ضروری ہے‘‘ پاکستانیوں کی کاہلی، آرام طلبی کے حوالے سے مضمون ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں انسان کو کولہو میں جوت دیا جاتا ہے اور وہ بے چارہ بیل کے فرائض انجام دیتا ہے، ویسے بھی آج کے زمانے میں انسان سے زیادہ جانور کی عزت بھی ہے اور تحفظ بھی۔ خیر جانے دیجیے اس بحث کو۔ سرکاری اداروں میں معاملہ برعکس ہے، خوب چھٹیاں ہوتی ہیں اور اگر اعلیٰ حضرات چھٹی کی کال دے دیں تب تو چھٹیوں کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے، ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ چھٹی تو پاکستانی قوم کی گھٹی میں پڑی ہے۔ بے شک آج کے دور کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ ’’لوح و قلم‘‘ اب محدود دائرے میں مقید ہوکر رہ گیا ہے۔

اسی لیے ڈاکٹر صاحب نے پرورش لوح و قلم کے بجائے ’’دہن و شکم‘‘ کی بات کی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہماری قوم کا حال ابتر ہے، تعلیمی اداروں میں بھینسیں بندھی ہیں اور جرائم پنپ رہے ہیں جب کہ ریستورانوں میں جم غفیر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہا تو کیا غلط کہا کہ یہاں کرپشن کی طرح بسیار خوری بھی ٹاپ پر جا رہی ہے۔ اہل ثروت کو تقریبات کے مواقعوں پر جہادی عمل میں مصروف پایا۔ بجا فرمایا۔

’’ہائے کیا لوگ مرے حلقہ احباب میں تھے‘‘ یہ میں نہیں کہہ رہی ہوں بلکہ ڈاکٹر صاحب فرمارہے ہیں۔ وہ اپنے مضمون کے ذریعے ’’ادب، براڈکاسٹر اور سفرنامہ نگار قمر علی عباسی مرحوم کو دلی کی گہرائیوں سے یاد کررہے ہیں، ان سے بچھڑنے کے بعد اپنے صدمے کو اس طرح ظاہر کیا ہے۔

ایک ایک کرکے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے

آخری حصہ ’اردو ہے جس کا نام‘، اس حصے کے مضامین بھی غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ہنسنے ہنسانے کا سامان بھی بہم پہنچاتے ہیں۔ ’’پیشگی معذرت‘‘ اور ’’ہوئے مرکے ہم جو زندہ‘‘ ڈاکٹر صاحب کی یہ دونوں تحریریں عرق ریزی اور شاندار مطالعہ کی غماز ہیں۔ موقع کی مناسبت سے ہر شعر برجستہ جواب کی مانند ہے، مصنف کو بیتے دنوں میں فلم بینی کا کس قدر شوق تھا اور حافظہ بلا کا کہ سن بھی یاد ہیں اور اداکاروں کے نام اور ان کی اداکاری اور ساتھ میں گلوکاروں کے فن سے بھی شناسا ہیں۔

مصنف منافقت سے کوسوں دور ہیں اور اوصاف حمیدہ نے ان کی شخصیت کو نکھار دیا ہے۔’’بدیسی دانشور کی خدمت میں‘‘ انھوں نے ایسے ہی ایک صاحب کا بھانڈا پھوڑا ہے جو چند سال دیار غیر میں رہنے کے بعد اپنی زبان اور اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھلا بیٹھے تھے۔

بدیسی دانشور کی غلط بیانی پر ان کا جذبہ صداقت فوراً سچ کا زہر اگلنے کے لیے آمادہ ہوگیا، فوراً بول اٹھے جناب گاندھی جی نہیں، نیلسن منڈیلا بیسویں صدی کے رہنما تھے، انھوں نے ستائس (27) سال جیل کی اذیتیں اٹھاتے ہوئے گزاری، تو موصوف نے اپنی تصحیح کی کہ میں برصغیر پاک و ہند کے تناظر میں اپنی رائے پیش کررہا تھا، اس پر بھی جواب حاضر تھا، فرمایا اگر یہ بات ہے تو قائداعظم بلاشبہ اس خطے میں بیسویں صدی کے رہنما تھے۔ بے حد قابل احترام ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنے مضمون احوال واقعے کا اختتامیہ ابن انشاء کے ان اشعار سے کیا ہے۔

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہوکار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہوکار گئے

جو دعا دے دے، وہ ہی ساہوکار ہے، میری دعا ہے کہ مصنف کی عمر عزیز میں اﷲ اضافہ کرے اور زورِ قلم بڑھتا ہی جائے (آمین)
(تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھاگیا مضمون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔