ہالۂ نور، رنگ و توانائی

شایان تمثیل  ہفتہ 7 فروری 2015

گزشتہ کالم میں ہم بات کررہے تھے ہالۂ نور پر سائنسی تحقیقات کی، جس میں ڈاکٹر کلنر کے تجربات کو بیان کیا گیا۔ ڈاکٹر کلنر نے متواتر تجربات سے ثابت کیا کہ تھکن، بیماری اور اضمحلال کے عالم میں اس ہالے کی چمک دھندلی پڑ جاتی ہے، یہ سکڑ جاتا ہے، نیز اپنی اسکرین پر انھوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ذہین لوگوں کا جسمانی ہالہ درخشاں اور بڑا ہوتا ہے اور سست، افسردہ مزاج اور غبی لوگوں کے ہالے میں دھیماپن اور سکڑاؤ پایا جاتا ہے۔

شدید جذباتی ہیجان کے وقت ہالے میں آڑھی ترچھی برقی لہروں کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، البتہ موسمی تبدیلیوں سے ہالۂ نور پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب کہ  روسی سائنسدانوں کا بیان ہے کہ موسمی تبدیلیاں ہالۂ نور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر والٹر جے کلنر کا کہنا ہے کہ انسان کے اثیری جسم (ایتھریکل باڈی) کی چوڑائی چار انچ ہوتی ہے۔ مزید مشاہدات سے پتہ چلا کہ انسانی ہالے میں خاکستری اور سفید رنگ کے علاوہ سرخ، زرد اور نیلے رنگ بھی پائے جاتے ہیں۔ ماورائے بنفشی (الٹرا وائلٹ) شعاعوں کے ذریعے ان گوناگوں رنگوں کی تحقیق ممکن ہے۔

ڈاکٹر کلنر نے اپنی پر از معلومات کتاب ’’ہیومن ایٹ ماسفیر‘‘ میں لکھا ہے کہ عام طور پر یہ ہالہ انسانی جسم کے گرد دھنکے ہوئے بادلوں کی طرح نظر آتا ہے، جس پر انسانی اعصاب سے نکلنے والی توانائی برابر اثر انداز ہوتی رہتی ہے، خصوصیت کے ساتھ وہ توانائی جو مرکزی اعصابی نظام (سینٹرل نروس سسٹم) سے خارج ہوتی ہے۔ دماغی اور اعصابی امراض مثلاً جنون، مرگی اور بے ہوشی کے دورے جسمانی ہالے کو بری طرح متاثر کرتے ہیں، نیز جذباتی اور نفسیاتی بیماریوں (خوف، غصہ، مایوسی، بیزاری، حسد، انتقام، احساس کمتری وغیرہ کی شدید کیفیتیں) بھی ہالے کی روشنی اور تابناکی کے لیے سخت نقصان رساں ہیں، ان صورتوں میں ہالۂ نور ڈِم اینڈ ڈل یعنی مدھم اور بھدا ہوجاتا ہے۔

انسانی جسم کے ہالے کی تشکیل میں سینٹرل نروس سسٹم سے خارج ہونے والی توانائی بہت اہم حصہ لیتی ہے اور یوگ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سانس کی مختلف مشقوں کے ذریعے سینٹرل نروس سسٹم کی توانائی کو منظم اور بیدار کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین کے سائنسدانوں نے جسم انسانی کے ہالۂ نور کے جن رنگوں کا ذکر ہے روحی استعداد رکھنے والے لوگوں کو ابتدا ہی سے ان کا علم تھا، چنانچہ مختلف علوم مخفی کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہالۂ نور کی رنگینیوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کے پیکر خاکی (جسم) کے گرد ایک رنگین ہالہ ہوتا ہے۔ گزشتہ کالم میں ہم نے ڈسکوری چینل پر پیش کی جانے والی ڈاکومنٹری کا تذکرہ کیا تھا جس میں مخصوص کیمروں کے ذریعے انسان کے ہالہ نور کو دکھایا گیا تھا، یہاں تک کہ جہاں آپ مستقل بیٹھے ہوں، آپ کے اٹھ جانے کے بعد بھی کچھ دیر تک ہالۂ نور کو وہاں پایا گیا۔ افسوس اس ڈاکومنٹری کا نام ہم نہیں دیکھ سکے لیکن انٹرنیٹ استعمال کرنے والے حضرات باآسانی یہ ڈاکومنٹری Human Aura لکھ کر سرچ کرسکتے ہیں، نیز انٹرنیٹ خاص طور یوٹیوب پر آپ کو بہت سی ایسی سائنسی تحقیقاتی ویڈیوز بھی ملیں گی جن میں آسٹرل باڈی ٹریول اور ہالۂ نور پر سائنسی تحقیقات کو فلمایا گیا ہے۔

افسوس پاکستان میں عوام کے کثیرالجہتی فوائد کا نہیں سوچا جاتا، کچھ عاقبت نااندیشوں کی جانب سے کی جانے والی غلط حرکت کے باعث یوٹیوب کو جو ایک بار بند کیا گیا تو اب تک یہ پابندی برقرار ہے، حالانکہ متنازعہ ویڈیو کے ڈیلیٹ کیے جانے کے بعد یوٹیوب سے پابندی ہٹا دینی چاہیے تھی۔ یوٹیوب پر نہ صرف تحقیقاتی موضوعات پر لیکچرز بلکہ کئی ایسے ٹیوٹوریل بھی دستیاب ہیں جن سے طلبا گھر بیٹھے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ان سطور کے ذریعے ہم ارباب اختیار سے یوٹیوب پر سے پابندی ہٹانے کے درخواست گزار ہیں۔

جن لوگوں میں ہالہ بینی کی صلاحیت بیدار ہوجاتی ہے وہ اس کے رنگ کو دیکھ کر فوراً انسانی شخصیت، نیز مزاج، کردار، خواہشات، جذبات اور دماغی کیفیات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انسانی جسم کے ہالے پر اگر پگھلے ہوئے سونے کا رنگ غالب ہو تو وہ روحانی طریقے پر کافی ترقی یافتہ ہوتا ہے، سنہری زرد رنگ روحانی ترقی، سکون قلب اور بھرپور روحی زندگی کی علامت ہے۔ یہ عشق صادق، اطمینان خاطر اور اعلیٰ خیالی کی بھی نشانی ہے۔ سنہری زرد رنگ کے بعد نیلے رنگ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ عرض کردوں کہ ہر رنگ کے مختلف درجات ہوتے ہیں، مثلاً سنہری زرد رنگ کو لیجیے، یہ بھی مختلف درجوں میں تقسیم ہے۔

بالکل نمایاں، اس سے کم نمایاں، تاآنکہ گھٹتے گھٹتے برائے نام ہالۂ نور میں سنہرا پن اور زردی باقی رہ جاتی ہے۔ درحقیقت رنگ کی شوخی، تیزی اور تابناکی کا انحصار اس پر ہے کہ خود وہ شخص ذہنی، دماغی اور روحانی ترقی کے کس درجے میں ہے۔ انسان کے ذہنی اور روحانی رجحانات اور سرگرمیوں کے بنا پر بھی ایک ہی ذوق رکھنے والے لوگوں میں اس رنگ کے روپ مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر موسیقاروں، فنکاروں کے ہالے پر نیلا رنگ غالب ہوتا ہے، فرق یہ ہوتا ہے کہ اکثر موسیقاروں کا ہالہ کبودی INDIGO ہوتا ہے اور لکھنے والوں کے جسمانی ہالے میں آسمانی رنگ کی جھلک پائی جاتی ہے، اس قسم کے لوگ اگر نیلم کی انگشتری پہنیں تو اپنی ذہانت میں نمایاں اضافہ محسوس کریں گے۔ نیلا رنگ وحدت کائنات اور عشق کائنات کے گہرے جذبے کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ رنگ بے حد سکون پہنچانے والا، جذبات کو ٹھنڈا کرنے والا، تشویش کو رفع کرنے والا اور ذہنی عمل کو تیز کرنے والا شمار ہوتا ہے۔ نیلا رنگ رکھنے والے بے پناہ قوت تخیل کے مالک ہوتے ہیں۔ جس شخص کے ہالے کے رنگوں میں گہرا نیلا رنگ نمایاں ہو اس میں پرجوش مذہبی لگن اور گہرا روحانی عقیدہ پایا جاتا ہے۔ نیلاہٹ پر سیاہی غالب آجائے تو سرد مہری، افسردگی اور اضمحلال کی نشانی بن جاتی ہے۔ زرد رنگ کے ساتھ نیلمی روپ ہو تو یہ روحانی ادراک و شعور کی علامت ہے۔

نیلاہٹ کے ساتھ خاکستری جھلک پیدا ہوجائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس شخص کی سچی محبت پر خودغرضی غالب آتی چلی جاتی ہے۔ جب ہلکی نیلاہٹ رکھنے والوں پر خوف و دہشت کا دورہ پڑتا ہے تو ان کے ہالے میں خاکستری رنگت جھلملانے لگتی ہے۔ اسی طرح نیلگوں ہالۂ نور پر مختلف جذبات کے زیر اثر اور بھی رنگ چڑھتے اترتے رہتے ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ ہر جذبے کا رنگ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ سنہری اور نیلگوں رنگوں کے علاوہ مزید رنگ بھی ہالۂ نور میں پائے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ اگلے کالم میں کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔