آخر کیوں؟

مقتدا منصور  اتوار 8 فروری 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ اظہاریے میں ایک نئی جماعت کی تشکیل کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ احباب نے ٹیلی فون، ای میل اور فیس بک پر تبصروں اور سوالات کے ذریعے استفسار کیا کہ جب وطن عزیز میں درجنوں کے حساب سے چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں، تو پھر ایک نئی سیاسی جماعت کی خواہش کیوں؟ یہ سوالات اپنی جگہ بجا ہیں، لیکن سیاست اور سیاسی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے موجودہ سیاسی منظرنامہ خاصا تشویشناک ہو چکا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ  68 برس کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں آج کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ نئی سیاسی جماعت کی خواہش محض  ایک تصور ہے یا حقیقتاً ایسا ممکن ہے۔ جدید دنیا میں سیاسی جماعتیں عوامی جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہیں۔ آج جب کہ معاملات و مسائل انتہائی پیچیدہ ہو چکے ہیں۔

مختلف سماجی تنظیمیں، پروفیشنل باڈیز اور تھنک ٹینکس قومی اور عوامی سطح پر جنم لینے والے مسائل  کو اجاگر کرتی ہیں، تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں ان مسائل کے حل کے لیے عوام کو متحرک (Mobilize) کر کے ان کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرتی ہیں اور پھر ان اہداف کو ترجیحی بنیادوں پر حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جن کا انھوں نے اپنے ووٹرز سے وعدہ کیا تھا۔ ساتھ ہی وہ اپنی حکمرانی کو مثالی بنانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔

مگر پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت ان اصولوں کے مطابق کارکردگی ظاہر کرتی نظر نہیں آتی۔ آج 1972-77ء کے دوران قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے علاوہ اقتدار میں آنے والی کسی بھی جماعت نے اپنے منشور کی کسی ایک بھی شق پر عمل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ گویا منتخب اور غیر منتخب حکومتوں کے درمیان خط امتیاز کھینچنا مشکل ہو گیا ہے۔ بلکہ بعض مراحل پر سیاسی جماعتوں کا طرز حکمرانی آمریت سے مختلف نظر نہیںآتا۔

اب پاکستان میں سیاسی عمل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ 1964 میں جب آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، سینے پر لالٹین سجا کر پہلی مرتبہ جمہوری سیاست کا حصہ بنا۔ 1967 میں NSF  کی رکنیت حاصل کر کے طلبہ سیاست کے ذریعے عملاً سیاسی عمل میں شریک ہوا۔ اس وقت سے آج تک سیاست اور سیاسی عمل کا انتہائی قریبی شاہد ہوں۔ اس زمانے میں عالمی سطح پر سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور دنیا شدید ترین نظریاتی آویزش کا شکار تھی۔

پاکستان متحدہ تھا، مگر اس کی سیاست میں مشرقی اور مغربی حصے کی سیاسی تقسیم واضح تھی۔ گو آزادی اظہار پابہ سلاسل تھی اور سیاسی عمل بھی آزاد نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود مختلف سوچ اور نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں اپنا وجود بھی رکھتی تھیں اور سیاسی طور پر سرگرم بھی تھیں۔ اس وقت جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (درخواستی اور ہزاروی)، جمعیت علمائے پاکستان، نظام اسلام پارٹی سمیت کئی جماعتیں انتہائی دائیں بازو کی نمایندگی کرتی تھیں۔

مسلم لیگ کے تینوں دھڑے (یعنی کنونشن، کونسل اور قیوم گروپ) Right to centre کی جماعتیں تھے، جب کہ نیشنل عوامی پارٹی (ولی اور بھاشانی گروپ) Left to centre قسم کی جماعتیں تھیں۔ کمیونسٹ پارٹی سمیت بائیں بازو کی سیاست پر چونکہ پابندی تھی، اس لیے کمیونسٹ پارٹی ان دونوں پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتی تھی۔ حکومت کے معاندانہ رویوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود بایاں بازو جاندار آواز کے ساتھ عوامی مسائل کو جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا کرتا تھا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نظریاتی انتہاپسندی پر مبنی سیاست کو کبھی قبول نہیں ان کا یہ طرز عمل برٹش انڈیا کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ کیونکہ یہی وہ طرز عمل تھا، جس کے نتیجے میں انھوں نے جید علما کی زیر قیادت قائم جماعتوں کے بجائے عصری تعلیم سے آراستہ جدید طرز حیات کے حامل وکیل کو اپنے قائد کے طور پر قبول کیا۔ یہی روش اور انداز قیام پاکستان کے قیام کے بعد بھی برقرار رہا۔ حالانکہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے متعدد بار مذہبی جماعتوں کو ریاستی اقتدار پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔

مگر عوام نے ہمیشہ ان کوششوں کو ناکامی سے دوچار کیا۔ یہی سبب تھا کہ 1967ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر جب مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اربن مڈل کلاس کے سیاسی دانشوروں نے ایوب خان کی کابینہ چھوڑ کر آنے والے وزیر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت جماعت قائم کی تو اس نے پنجاب اور سندھ کی اربن مڈل کلاس بالخصوص نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

یہی وجہ تھی کہ دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی نے فقیدالمثال کامیابی حاصل کی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی، تو اس نے ان گنت ترقی دوست اقدامات بھی کیے۔ لیکن کچھ فیوڈل سیاستدانوں کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ اور کچھ غلط سیاسی فیصلوں کے باعث اس جماعت کے بیشتر اقدامات مڈل اور ورکنگ کلاس کے مفادات سے متصادم ہوتے چلے گئے۔

وسطی پنجاب جہاں اربنائزیشن کا عمل 1980ء کے عشرے میں خاصا تیز ہو گیا تھا۔ ایک ایسی جماعت کی ضرورت خاصی شدومد کے ساتھ محسوس کی جانے لگی تھی، جو پنجاب کی صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کے پھیلائو اور تحفظ کو یقینی بنا سکے۔ جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی جانب سے صنعتوں کے قومیائے جانے اور سرکاری ملازمتوں کے لیے شہری اور دیہی کوٹا الگ کرنے سے شہری اور دیہی تقسیم گہری ہو گئی تھی۔

یوں اپنے بنیادی نظریات سے دوری اور اربن معاملات و مسائل پر عدم توجہی کی وجہ سے پیپلز پارٹی دیہی ووٹرز کی جماعت بنتی چلی گئی اور بالآخر دیہی سندھ تک محدود ہو گئی۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) اربن پنجاب اور ایم کیو ایم اربن سندھ کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔ حالانکہ اپنے اربن مزاج اور اربن ووٹرز میں مقبولیت کے باعث ان دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے تھا، مگر مختلف فروعی اختلافات کے باعث ان کے درمیان کسی قسم کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہ  ہو سکی۔ جو اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان میں سیاست نظریات اور طبقاتی مفادات کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے پس پشت اور بھی معاملات ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا المیہ یہ ہے کہ اس نے نہ تو کبھی خود کو قومی سیاسی جماعت سمجھا اور نہ پیش کرنے کی زحمت گوارا کی۔ اب اسے تیسری مرتبہ اقتدار ملا ہے۔ مگر فکری انتشار، سیاسی عزم کے فقدان اور غیر ذمے دارانہ رویے کے باعث وہ ماضی کی طرح ایک بار پھر ملک کو درپیش مسائل کا ادراک کرنے اور ان کی ترجیحات کا تعین کرنے میں ناکام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اہم قومی پالیسی سازی اس کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے اور مایوس نوجوانوں نے 2011ء کے بعد سے تحریک انصاف کی جانب راغب ہونا شروع کیا۔ لیکن تحریک انصاف فکری پختگی اور سیاسی بلوغت کے فقدان اور قومی، علاقائی اور عالمی معاملات کے بارے میں غیر واضح اور مبہم سوچ کی وجہ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لیے کوئی ٹھوس، دیرپا اور قابل عمل پالیسی دیتی نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے اس سے بہتر مستقبل کے لیے پالیسی سازی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اب جہاں تک بائیں بازو کی جماعتوں کا تعلق ہے تو اس وقت دو جماعتیں سیاسی منظرنامہ میں کسی حد تک فعال نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک نیشنل پارٹی ہے، جو کسی حد تک بلوچستان میں عوامی قبولیت رکھتی ہے اور کیچ و مکران سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی حاصل کر لیتی ہے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ بلوچستان کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ جب کہ دوسری جماعت عوامی ورکرز پارٹی ہے۔

یہ ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اپنے یونٹ ضرور رکھتی ہے، مگر عملاً غیر فعال ہے۔ یہ دونوں جماعتیں مختلف قومی، علاقائی اور عالمی معاملات پر واضح نقطہ نظر پیش کرنے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے جیسے اقدامات سے گریز کی وجہ سے عوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں میں پائی جانے والی انا بھی ان کے درمیان کسی مثبت ورکنگ ریلیشن شپ کے قائم ہونے میں رکاوٹ ہے۔

ضروری نہیں کہ یہ دونوں جماعتیں باہم انضمام کریں۔ اس کے علاوہ بھی ساتھ کام کرنے کے دیگر طریقے موجود ہیں۔ مگر چونکہ ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ وقت، حالات اور معاشرہ کن اقدامات کا متقاضی ہے، اس لیے یہ اپنے دائروں میں مقید اپنی دلی تسکین کی سیاست میں مشغول ہیں۔

جب ملک میں موجود سیاسی جماعتیں وقت، حالات اور عصری تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہوں یا دانستہ اس سے دامن بچانا چاہتی ہوں، تو آمریت کو دعوت دینے کے مقابلے میں ایک نئی سیاست جماعت کی خواہش کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی طے ہے کہ جب خلا پیدا ہوتا کوئی نہ کوئی اس جگہ (Space) کو ضرور بھرتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامہ میں ایک ایسی جماعت کے لیے گنجائش پیدا ہو چکی ہے، جو سرد جنگ کے نفسیاتی سحر سے پاک ہو اور عالمی اور علاقائی سیاست کی تبدیل ہوتی حقیقتوں کو سمجھتی ہو۔

جو حقیقی معنی میں معاشرے سے مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی و لسانی اور صنفی امتیازات کو ختم کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتی ہو۔ پاکستانی ریاست میں گورننس کی خامیوں، کمزوریوں اور خرابیوں کا واضح ادراک رکھتی ہو اور انھیں دور کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو۔ جو اپنے منشور پر عمل کرنے میں دیانت دار ہو۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ ملک کسی نئے ایڈونچر کا شکار ہو، اگر ایک سیاسی جماعت وجود میں آ کر عوامی قبولیت حاصل کر لیتی ہے، تو بہت سے ممکنہ خطرات وخدشات سے بچنے کی سبیل ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔