محبت ہو تو سچی ہو

سالار سلیمان  منگل 10 فروری 2015
اگر آپ اس محبت کے جذبے کی خاطر مجبور ہوکر اپنی محبوبہ سے مل سکتے ہیں تو پھر شادی بھی کرسکتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اگر آپ اس محبت کے جذبے کی خاطر مجبور ہوکر اپنی محبوبہ سے مل سکتے ہیں تو پھر شادی بھی کرسکتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

محبت صرف افسانوی بات نہیں بلکہ یہ ایک مکمل حقیقت اور احساس کا نام ہے۔ جب زمین سوکھ جاتی ہے تو آسمان سے نازل ہونے والی محبت، جس کو ہم بارش کہتے ہیں، اس سوکھی زمین کو سیراب کرتی ہے۔ اسی طرح ہر انسان فطرت سے ہی اپنے اندر محبت اور نفرت کے جذبات لے کر پیدا ہوتا ہے۔ میری ناقص رائے میں تو اس کائنات کی بنیاد بھی محبت ہی ہے۔

میری نظر میں محبت کو ایک دن تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے لیکن مغرب نے محبت کو ایک دن تک محدود کردیا ہے۔ جی ہاں 14 فروری، یعنی ویلن ٹائن ڈے منا کر محبت کے اظہار کو صرف ایک دن تک محدود کردیا گیا ہے۔ مغرب کے لئے یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے کیونکہ بیچارے ڈالرز اور پاونڈ کمانے میں مصروف ہوتے ہیں کہ اُنہیں اس جذبے کے احساس اور اظہار کیلئے بھی ایک دن درکار ہے۔ خیر ویلن ٹائن ڈے پر وہ اپنی شریک حیات، گرل فرینڈ اور دوست احباب سے اظہار محبت کرتے ہیں اور ہر سال کی طرح یہ بیچارے ایک دفعہ پھر اپنے والدین کو بھول جاتے ہیں۔ اگر غلطی سے والدین کی یاد آجائے تو شام گئے اُن کو پیغام اور پھول بھجوا کر اپنا فرض پورا کردیا جاتا ہے۔

اب ذرا اپنے ملک کی بات کرلی جائے، پاکستانی قوم کی اکثریت بھی ’’کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ کی مکمل تشریح ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ہم پر بھی ویلن ٹائن ڈے کا بھوت سوار ہے۔ ذرائع ابلاغ تک آسان رسائی کے بعد اس بھوت کے جادو کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔

جن نوجوان لڑکیوں نے اس دن کو ’مقدس دن‘ کی مانند منانا ہوتا ہے وہ 14 فروری کو گھروں سے بن سنور کراپنے محبوب سے ملاقات کرنے آتی ہیں۔ اس دن چند آوارہ لڑکوں کی ٹولیاں بھی اپنے مقاصد کے ساتھ پارکوں وغیرہ میں موجود ہوتی ہیں۔ نہ جانے اس دن کتنی لڑکیاں اپنے روپے پیسے اور متاع حیات لٹا کر گھروں کو واپس آتی ہیں۔ ان کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ معاشرہ یا مرد؟

ابھی پچھلے دنوں ایک خبر آئی کہ بھارت میں جو بھی غیر شادی شدہ جوڑے ویلن ٹائن ڈے پر عشق لڑاتے پکڑے گئے تو اُن کی شادیاں کروادی جائیں گی۔ ہندو انتہا پسند تنظیم ہند مہاسبھا کے سربراہ چندر پرکاش کوشک نے کہا ہے اُن کے رضاکار ویلٹائن ڈے کے موقع پر تفریحی مقامات، شاپنگ مالز اور ہوٹلز میں ساتھ دیکھے جانے والے کنوارے جوڑوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اگر وہ ہندو ہوں گے تو ان کی شادی کرادی جائے گی اور اگر انہوں نے شادی جیسے بندھن میں بندھنے میں تعامل کا مظاہرہ کیا تو وہ ان کی سرگرمیوں کے بارے میں ان کے والدین کو آگاہ کردیا جائے گا۔

میری رائے میں یہ بہت اچھا اقدام ہے۔ آپ کو اگر کسی سے محبت ہے اور آپ اس محبت کے جذبے کی خاطر مجبور ہوکر اپنی محبوبہ سے مل سکتے ہیں تو پھر شادی بھی کرسکتے ہیں۔ اس طرح باآسانی یہ بھی پتا چل جائے گا کہ کون سچی محبت کرتا ہے اور کون دھوکا دے رہا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ جوڑا پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آجائے تو اُن کی فی الفور شادی کرادی جائے۔ فضول خرچے سے بھی بچت ہوجائے گی اور دنیا بھی میں محبت کی نئی مثال بھی قائم ہوجائے گی۔

دراصل محبت ایک پاکیزہ جذبے کا نام ہے۔ فلمیں دیکھ ہمارا دماغ بند ہوچکا ہے اور ہم نے اس پاکیزہ جذبے کو ہوس کا نام دے دیا ہے۔ پاکیزہ محبت کی اجازت تو ہمارا مذہب بھی ہمیں دیتا ہے۔ کیا شریعت نہیں کہتی کہ شادی کیلئے جوڑے کا رضامند ہونا ضروری ہے؟ ہم کب تک مغرب کا منہ دیکھ کر اپنا منہ لال کریںگے؟ ہم کب تک اپنے کلچر کو گروی رکھوا کر غیروں کا کلچر مستعار لیں گے؟ اگر کسی کی روایت کی پیروی بہت ضروری بھی ہے تو اُس میں اپنا کلچر گندھیں۔

کیا محبت صرف محبوبہ کیلئے ہے؟ کیا ویلن ٹائن ڈے پر ماں باپ کو گلے لگا کر اُن کی خدمت میں پھول پیش کرنا، اُن کے پاؤں دبانا، اُن کے لئے مزے دار کھانا بنانا، اُن کو باہر گھمانے لے جانا، اُن کو تحفے دینا منع ہے؟ کیا ویلن ٹائنز ڈے کے موقع پر اپنے بھائی بہن کو یہ احساس دلانا کہ وہ آپ کیلئے بہت ضروری ہیں اور آپ اُن کی عزت اور محبت کرتے ہیں، کیا یہ منع ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس طرف بھی دھیان دیں۔ ہر دن کو منانے کا طریقہ ہوتا ہے۔ اگر بندوق آپ کی حفاظت کیلئے ہے تو پھر یہ مفید ہے، لیکن اگر یہی بندوق کسی کا حق مارنے اور کرہ ارض پر فساد مچانے کیلئے استعمال کی جائے تو یہ فتنہ ہے۔

آخر میں میری نوجوانوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ خدارا جاگ جاؤ، اب بھی وقت ہے دوسروں کی اندھی تقلید کرنا چھوڑ دو، لیکن اگر اب بھی ہم مغرب کی پیروی کرتے رہیںگے تو پھر ہمارا واقعی اللہ ہی حافظ ہے ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔