بھیس بدل کر

عبدالقادر حسن  منگل 10 فروری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم مسلمانوں کی یہ بہت پرانی عادت ہے کہ ہم اچھے حکمرانوں کی مثال اپنے ان پرانے زمانوں میں تلاش کرتے ہیں جب ہمارے حکمران ہماری حالت جاننے کے لیے بذات خود بھیس بدل کر گلی کوچوں اور بازاروں میں نکل جاتے تھے اور صرف اپنے عمال پر اعتبار نہیں کرتے تھے کیونکہ حکمرانی کی ذمے داریاں ان کی ہوتی تھیں نہ کہ ان کے اہلکاروں کی اور ان کی بازپرس ان کی ذات سے ہوتی تھی۔ ہم آج کے مسلمان بھی اپنے حکمرانوں سے یہی چاہتے ہیں کہ وہ بذات خود براہ راست ہمارے حال سے باخبر رہیں۔

ہماری اس قومی خواہش کا علم ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوتا ہے چنانچہ گزشتہ روز جب ہمارے حکمران وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھیس بدل کر یعنی پروٹوکول اور ہٹو بچو کے بغیر اپنے سرکاری گھر سے باہر نکل گئے تو انھوں نے گویا اپنے پرانے پیشروؤں کی پیروی کی وہ سیدھے اسلام آباد کی دو مارکیٹوں میں گئے جہاں انھوں نے ضروری اشیاء کی قیمتوں کا پتہ کیا اس موقع پر ان کی رعایا بھی وہاں جمع تھی جو ان کے حق میں نعرے لگا رہی تھی اور حیران تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور عوام اور حکمران ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور بلا تکلف گفتگو کر رہے ہیں۔

اس مارکیٹ کے خریدار اپنا حال بیان کر رہے ہیں اور حکمران یہ سب براہ راست سن رہا ہے۔ دکاندار بھی اپنی اشیاء کی قیمتوں کا بتا رہے ہیں وزیراعظم یہ دیکھتے رہے کہ انھوں نے پٹرول کی قیمتیں کم کی ہیں تو مارکیٹ پر اس کا کیا اثر ہوا ہے۔ کوئی تین ساڑھے تین گھنٹے وزیراعظم یہ فرض ادا کرتے رہے اور پھر اسی بھیس میں یعنی پروٹوکول کے بغیر واپس لوٹ گئے۔ ان کے جانے کے بعد اخباری خبر تراشوں نے جو حال بیان کیا ہے وہ کچھ ایسا خوشگوار نہیں ہے۔

ان کے بیان کے مطابق دکانداروں نے وزیراعظم کو اپنی اشیاء کی غلط قیمتیں بتائی تھیں اور ان کے جانے کے بعد وہ اپنی پسند کی زیادہ قیمتوں پر اشیاء فروخت کرنے لگے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ حکومت نے اپنا اختیار اور دبدبہ کمزور کر دیا ہے کہ ایک کمزور طبقہ بھی اس کی بات نہیں مانتا اور بلا تامل سے غلط معلومات فراہم کرتا ہے اس سے بہتر تھا کہ وزیراعظم وہاں نہ جاتے اور گھر پر ہی اپنا یہ وقت گزار لیتے۔ دکاندار اور ان کا بازار تو ہر حال میں چلتا ہی رہتا ہے۔

وزیراعظم سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایک کاروباری کا مزاج کیا ہوتا ہے وہ خود تاجر خاندان کے فرد اور اسی خاندان کے جم پل ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نفع خوری اہل تجارت کی فطرت ثانیہ ہے۔ جائز نفع خوری صرف تحریروں میں ملتی ہے بازاروں میں نہیں۔ تاجر خاندان کے فرد کبھی تاجروں کو ڈرا نہیں سکتے۔ بازار کی اپنی نفسیات ہیں اور بازار والے صرف غیر بازاری یعنی غیر تاجروں یا سرکاری حکام سے ڈرتے ہیں اور کسی سے نہیں۔

ایک عجیب بات دیکھی ہے کہ جو دکاندار آپ کا جاننے والا ہوا اسی نے سب سے زیادہ لوٹا۔ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا ایک کاروباری کا اصل مقصد ہوتا ہے اور اس کی عادت ہے اور مجبوری بھی۔ 1965کی جنگ میں یہاں کے حکمران کو پتہ تھا کہ قیمتیں بڑھیں گی چنانچہ نواب آف کالا باغ نے کاروباری لوگوں کو بلایا اور ان سے اپنے خاص انداز میں قیمتیں نہ صرف قائم رکھنے بلکہ کم کرنے کی بات بھی کی اور ساتھ ہی مختصر سے الفاظ میں یہ توقع کی کہ ایسا ہی ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا وجہ صرف یہ کہ دکانداروں کو خوب معلوم تھا کہ اگر گورنر کی توقع پوری نہ ہوتی تو پھر کیا ہو گا چنانچہ گورنر مطمئن رہا۔ ہمارے پرانے زمانے میں لوگ حکمرانوں کی بات اس لیے مانتے تھے کہ حکمران ان سے بھی زیادہ ایثار پیشہ تھے۔

مشہور ہے کہ جب ہمارا پہلا خلیفہ راشد حضرت صدیقؓ اس منصب پر فائز ہوئے تو وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جو انھوں نے چھوڑ دیا اور سوال پیدا ہوا کہ اب ان کی تنخواہ کیا ہو۔ خلیفہ نے کہا کہ مدینہ کا مزدور جو تنخواہ اور مزدوری لیتا ہے میری بھی اتنی ہی کر دو۔ اس پر اس کو بتایا گیا کہ اس میں ان کا گزارا نہیں ہو گا اس کا جواب اس شخص نے ایسا حیران کن دیا کہ تاریخ حیران رہ گئی فرمایا کہ پھر مدینہ کے مزدور کی تنخواہ بڑھا دو میری خود بخود بڑھ جائے گی یعنی وقت کا بادشاہ اپنی رعایا کے ایک مزدور سے زیادہ مزدوری لینے پر تیار نہ تھا۔

یہی حال ان کے جانشینوں کا تھا جن کی حیران کن مثالیں کوئی کتنی پیش کرے۔ حکمرانی میں یہی ہمارے پیشوا ہیں اور یہی نمونہ ہیں۔ ان کے انداز حکمرانی کے نمونے ان کے بعد بھی کبھی کبھار دیکھے گئے ہیں جب کسی حکمران کا ضمیر جاگا تو اس نے ان کی پیروی کرنے کی کوشش کی۔ بھیس بدل کر شہروں اور بازاروں کی گشت کے واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً خلیفہ ہارون الرشید کی راتوں کی گشت بہت مشہور ہے۔ ہمارے ہاں اس ملک پاکستان میں جو خلفائے راشدین کی پیروی میں اللہ و رسولؐ کے نام پر بننے والا پہلا ملک ہے ہمارے مسلمان عوام کے لیے ایسے ہی حکمرانوں کا حقدار تھا اگر محمد علی جناحؒ اس ملک کے بانی زندہ رہتے اور بیماری ہمیں ان سے جدا نہ کر دیتی تو وہ سیاسی انداز حکمرانی کو سمجھتے تھے اور اس کے لیے عمل کا جذبہ اور ہمت و حوصلہ بھی رکھتے تھے۔

ان کی معلوم زندگی بلا شبہ دیانت و امانت کی مثال تھی اگر تین مہمانوں کے لیے چار سیب میز پر رکھے جاتے تو ان کی بہن اس کی باز پرس کرتی اور بیماری کی حالت میں جب قائد کی پسند کا کھانا تیار کرنے کے لیے باہر سے باورچی بلایا جاتا تو قائد اس کے تیار کردہ کھانے سے خوش ہوتے اور پوچھتے تو بتایا جاتا کہ آپ کا پرانا باورچی فیصل آباد سے بلوایا گیا ہے تو وہ اس کی آمد و رفت کے اخراجات خود ادا کرتے کہ سرکاری خزانہ میری پسند کے باورچی کے لیے نہیں ہے۔ ماضی کے یہ کوئی غیر معمولی انسان نہیں تھے ہماری آپ کی طرح کے جسمانی اعضاء کے مالک تھے لیکن ان کے دلوں میں ایمان بھر گیا تھا۔

قرآن و سنت اب تک زندہ سلامت موجود ہے جو اس ایمان کا منبع ہے اور آج بھی ایسے انسانوں کی تعمیر کر سکتی ہے۔ آج تو ان روایات پر عمل بہت آسان ہے ہمیں اونٹ پر سفر کرنے کی ضرورت نہیں نہ ہی صحرا کی خاک چھاننے کی ضرورت ہے اب تو ہم زیادہ آسانی اور زیادہ کامیابی کے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں مگر سوال پیٹ کی پرورش کا نہیں دل کی روشنی کا ہے۔ کیا ہمیں پروٹوکول کے بغیر کہیں جانے کا کمال کرنے اور دکھانے والے حکمران ہی نصیب ہوں گے۔ اصل سوال عدل و انصاف کا ہے اور اسی کے مضبوط اور حتمی نفاذ سے سب کچھ ہو سکتا ہے کوئی بھیس بدلنے کا ڈراما کرے یا نہ کرے۔ انصاف ہو تو نہ ناجائز گردی ہو گی اور نہ بازاروں کا چکر لگانے کی زحمت کرنی پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔