آہ ! میرے معصوم لوگ

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 10 فروری 2015

دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے جیسی ہمیں۔ ایک طرف ہمیں مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہم بے اختیاری، غربت، مہنگائی، کرپشن، لوٹ مار، توانائی کے بحران کی آگ میں جھلس رہے ہیں اس وقت ہماری حیثیت صرف تماشائی کی ہو کے رہ گئی ہے۔

ہم فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے ہیں کہ ان مسائل سے کیسے نمٹیں ہم ان الجھے ہوئے مسائل پر گفتگو تو بار بار کرتے ہیں لیکن بار بار غور و فکر کرنے کے باوجود کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے جب آپ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے تو مسائل اور زیادہ الجھتے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا غور و فکر کرنے کے بعد ہم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے۔ موجودہ مسائل کے صرف دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں۔ ایک تو یہ اسی طرح جس طرح ہم چپ چاپ خاموشی کے ساتھ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

اسی خاموشی اور بے حسی کو برقرار رکھا جائے اور یہ سب کچھ اسی طرح ہوتے دیکھا جاتا رہے اور اپنی باری کا انتظار کیا جاتا رہے اور دوسرا یہ کہ اپنی خاموشی کو توڑ کر ہمت و جرأت و مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہاپسندوں، دہشت گردوں، لٹیروں، قاتلوں، بدعنوانوں کو للکارا جائے کہ بس بہت ہو گیا اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کہ انھیں مار بھگایا جائے۔ شاید ہم اپنی کم ہمتی و بزدلی کی وجہ سے پہلے نتیجے میں اپنی بقاء سمجھے بیٹھے ہیں۔ اسی لیے سارے ظلم و ستم و عذاب کے خلاف چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ہماری اسی چپ کی وجہ سے انتہاپسندوں، دہشت گردوں، لٹیروں کی ہمت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

ہمیں آج 3 قسم کے گروپوں کے عذاب کا سامنا ہے جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے ہیں۔ پہلا گروہ مذہبی جماعتوں کا ہے جنہوں نے پاکستان کو اپنے نظریات کی جاگیر سمجھ رکھا ہے وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ملک میں سب کچھ ان کے خیالات، تصورات، احساسات، جذبات اور سوچوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک ان سے اختلاف کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون ہے اسلام کے تمام جملہ حقوق اسی گروہ نے اپنے نام کر رکھے ہیں اور وہ بضد ہیں کہ پاکستان کے لوگ ان ہی کے تصورات، خیالات کے مطابق اپنی طرز زندگی کو ڈھال لیں۔ وہ اس سلسلے میں تشدد کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔

1947ء سے 1977ء تک ان کی حیثیت سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے تماشائیوں کی تھی البتہ وہ ان 30 برسوں میں پاکستان کی سیاسی قیادت کی بدعنوانیوں اور بدانتظامیوں اور جمہوری نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دستوری، سیاسی اور معاشرتی نظام میں متعدد بارودی سرنگیں نصب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء مذہبی سیاست کے لیے جنت ثابت ہوا، مذہبی سیاست دانوں نے اس آمر کی موجودگی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جو جھوٹ، جبر اور ڈھٹائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہ ضمیر کی معمولی سی کسک محسوس کیے بغیر مذہب کا نام اس لیے استعمال کرتا تھا کیونکہ مسلم اکثریتی معاشرے میں مذہب کا نام لیتے ہی کھلے اجتماعی مکالمے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

1977ء میں جنر ل ضیاء الحق کے اقتدار کے قبضے کے بعد مذہبی عناصر نے تعلیم اور ذرایع ابلاغ پر قبضہ کر لیا۔ آج پاکستان کی 15 کروڑ آبادی وہ ہے جو 1977ء میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی یہ وہ نسل ہے جسے مسخ شدہ اور تعصب سے بھری تاریخ پڑھائی گئی اور اسے جغرافیہ سر ے سے ہی نہیں پڑھایا گیا کیونکہ جغرافیہ مسخ نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل ضیاء الحق کی نظر میں اسلامی نظام کے تین پہلو تھے (1) جمہوری سیاسی عمل کا قلع قمع کرنا (2) وحشیانہ سزاؤں کے ذریعے معاشرے کو انسانی مصائب سے لا تعلق کر کے اجتماعی شعور میں بے حسی کو فروغ دینا (3) اسلام کے نام پر عورتوں، اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کو قومی دھارے سے الگ تھلگ کرنا شامل تھا۔ افغان جہاد کے نام پر پاکستان کی مذہبی قوتوں کو اسلحے کی فراوانی حاصل ہو گئی۔

فوجی تربیت میسر آئی ملاؤں کے گھروں میں روپے پیسے کی ریل پیل ہوئی اور روشن خیال پاکستانی معاشرہ مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنتا چلا گیا اور مذہبی انتہاپسند ریاست پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے جو آج تک دیکھے جا رہے ہیں۔ دوسرا گروپ پاکستان کے سیاست دانوں کا ہے جنہوں نے پاکستان کو اپنی وراثتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ یہ سب حضرات اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں ان سب کا اس بات پر مکمل اتفا ق و اتحاد ہے کہ ملکی وسائل پر صرف ان کا حق ہے اور وہ صرف حکمرانی، لوٹ مار، کر پشن کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ صرف دکھاوے کے لیے ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ سب اندر سے ایک ہیں ان سب کی ایک دوسرے سے رشتے داریاں ہیں۔

اگر آپ ان کی نجی محفلوں اور ڈرائنگ روموں میں جھانک کر دیکھیں تو یہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے عوام کا مذاق اڑاتے نظر آئیں گے ان سب حضرات کا علم و عقل اور فکر و دانش سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے یہ جمہوریت کا نام لے کر اپنے اپنے الو سیدھا کرتے رہتے ہیں، نہ یہ خود جمہوری ہیں اور نہ ہی ان کی سو چ جمہوری ہے بلکہ انھیں بھی جمہوریت سے اتنی ہی چڑ ہے جتنی ضیا الحق کو تھی۔ تیسرا گروپ پاکستان کی بیوروکریسی اور اشرافیہ پر مشتمل ہے جنہوں نے پاکستان کو مال غنیمت جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ یہ گروپ انتہائی شاطر، دوراندیش اور سمجھدار لوگوں پر مشتمل ہے یہ اپنے آپ کے علاوہ باقی سب پاکستانیوں کو بے وقوف، جاہل اور گنوار سمجھے بیٹھے ہیں۔ ان کی پاکستان پر پہلے روز سے ہی حکمرانی قائم ہے۔ یہ تاحیات حکمران پیدا ہوتے ہیں ۔

ان کی حکمرانی کو آج تک چیلنج نہیں کیا جا سکا ہے۔ ان کی کرپشن اور لوٹ مار کے آگے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے اور آخر میں ذکر کرتے ہیں عوام کا جو تعداد کے لحاظ سے 18 کروڑ ہیں جو 67 سال سے اپنی خوشحالی، اختیار اور حکمرانی کا انتظار کر رہے ہیں یہ انتہائی معصوم اور سیدھے سادے واقع ہوئے ہیں۔ اسی لیے تینوں گروپوں کو ان سے کوئی خطرہ یا فکر نہیں ہے ان کا کام صرف محنت کرنا، فاقے کرنا، خواب دیکھنا اور ٹیکس دینا رہ گیا ہے اور ہر پانچ سال بعد ووٹ دے کر پھر امیدیں لگا بیٹھتے ہیں۔ اور ایک بار پھر منہ کی کھاتے ہیں۔ آہ میرے معصوم لوگ ان کے لیے صرف دعائیں ہی کی جا سکتی ہیں۔ لگے رہو منا بھائی ایک نہ ایک دن تو نصیب بدل ہی جائیں گے۔ اگر نہیں بدلے تو تمہارے نصیب ہی خراب ہیں کوئی کیا کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔