ایم کیو ایم پھر اقتدار کے دروازے پر، پی ٹی آئی سے کشیدگی عروج پر پہنچ گئی

عارف عزیز  بدھ 11 فروری 2015
پاکستان تحریک انصاف (لیڈیز ونگ) کے احتجاجی مظاہرے کی ایک جھلک، دوسری تصویر میں متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما حیدر عباس رضوی پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف (لیڈیز ونگ) کے احتجاجی مظاہرے کی ایک جھلک، دوسری تصویر میں متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما حیدر عباس رضوی پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی: بدامنی کی آگ میں جلتے کراچی کے ڈرے سہمے شہری دعاگو تھے کہ محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہو اور منتخب نمائندے ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اور گذشتہ روز جیسے ان کی یہ دعا قبول ہوگئی۔

پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ایک مرتبہ پھر سندھ کے اقتدار میں شراکت کررہی ہیں۔ چند روز قبل تک پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر تھی اور یہ طوفان تھما نہیں تھاکہ تحریکِ انصاف بھی ایم کیو ایم کے سامنے کھڑی نظر آئی، لیکن حالیہ سیاسی پیش رفت حالات کا رخ موڑنے کا باعث بنے گی۔ پچھلے دنوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے بیانات کے بعد دونوں جماعتوں کی مرکزی اور مقامی قیادتوں کی طرف سے اپنی مخالفت اور قائدین پر الزامات کے جواب اور وضاحتیں دینے کا سلسلہ زوروں پر رہا۔

اسی کشیدہ فضا میں سینیٹ کے انتخابات کا شور بھی سنائی دیا، جس کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین رابطوں میں تیزی دیکھی گئی۔ گذشتہ ہفتے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں لفظی جنگ کی ایک وجہ سانحۂ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹ تھی۔ اس رپورٹ میں بھتا نہ دینے پر فیکٹری کو آگ لگانے اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع میں ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو ملوث قرار دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا اس پر بیان سامنے آیاکہ وہ ایسے کسی فورم پر نہیں بیٹھیں گے، جہاں ایم کیو ایم موجود ہوگی۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے اراکین کو تجویز دی کہ وہ الطاف حسین سے الگ ہو جائیں۔

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ الطاف حسین پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق بھتا نہ دینے کی وجہ سے آگ لگائی گئی، جس کا وزیراعظم کو ایکشن لینا چاہیے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کی خواتین ورکرز کے بارے الطاف حسین کے ایک بیان پر انہوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کے خلاف برطانیہ کی عدالت سے رجوع کریں گے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم اپنے لوگوں کو خود مارتی ہے۔ عمران خان کے الزامات اور تنقید کا جواب متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر عباس رضوی نے دیا۔

انہوں کراچی میں کانفرنس میں کہا کہ عمران خان کی الطاف حسین کے خلاف تقریر دھرنے کی طرح طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے، الزامات لگانے کا مقصد کراچی کا امن تباہ کرنا ہے، عمران خان نے بازاری زبان استعمال کی اور پریس کانفرنس میں جس اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا وہ قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاسی گدھ ہیں اور تحریک انصاف طالبان کا سیاسی ونگ ہے، سانحۂ پشاور کا سہارا لے کر دھرنا ختم کرنے والے لاشوں کی سیاست کر رہے ہیں، عمران خان کے الزامات کی تردید اور مذمت کرتے ہیں۔

حیدر عباس رضوی کا کہنا تھاکہ سانحۂ پشاور کے بعد مائیں روتی رہیں، لیکن عمران خان کسی کے گھر نہیں گئے، کراچی میں اپنی جماعت کی راہ نما زہرہ شاہد کی نماز جنازہ میں نہیں گئے، اس قتل کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرائی، خیبرپختون خوا میں جنازوں میں بھی نہیں گئے، وہ صرف اپنی حکومت چاہتے ہیں، چاہے اس کی پاکستان کو کوئی بھی قیمت دینی پڑے، ہم پاکستان سے غیرمشروط محبت کرتے ہیں، ایم کیوایم کو چکی میں پیسا جارہا ہے، الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے الگ کر دیا جائے، یہ ہو نہیں سکتا، دنیا ایم کیو ایم کو صبر کرنے والوں میں پائے گی۔

سانحۂ بلدیہ ٹاؤن کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو ایم کیو ایم مخالف جماعتیں میدان میں نکل آئیں۔ شہری علاقوں کے علاوہ اندرونِ سندھ خصوصاً قوم پرستوں نے اس رپورٹ کی روشنی میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے پر زور دیا اور اس رپورٹ کے مندرجات کو عوام کے سامنے دہرا کر ایم کیو ایم کے خلاف اکساتے نظر آئے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں سخت بیانات دیے جس سے ماحول میں کشیدگی بڑھی اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم اس رپورٹ اور اپنے مخالفین کے جواب میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے بھی ہنگامی پریس کانفرنس کی، جس میں اس رپورٹ کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہاگیاکہ یہ ایک بار پھر ایم کیو ایم پر شب خون مارنے کی سازش ہے، جسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ گذشتہ دنوں رینجرز نے رفیق راجپوت کو سانحۂ 12 مئی کا ملزم ظاہر کیا تھا، جو ایم کیو ایم کے ذمہ دار بتائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں رابطہ کمیٹی کے جوائنٹ انچارج عامر خان نے کہا کہ یہ گرفتاری اور جھوٹا الزام ایم کیو ایم کے خلاف منفی پروپیگنڈا ہے۔ اس سے قبل راہ نما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سانحۂ بلدیہ ٹاؤن کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے اور سازش کے تحت ایم کیو ایم کا امیج خراب کیا جارہا ہے، جس کی مذمت کرتے ہیں۔

حیدر عباس رضوی نے کہا کہ اس سے قبل بھی ہزاروں من گھڑت رپورٹس قائد الطاف حسین اور کارکنان کے خلاف بنائی گئیں، جو تمام ناکام ثابت ہوئیں اور اب بھی ہوں گی۔ ایم کیو ایم پر میجر کلیم کیس بنایا گیا، جب کہ حکیم سعید کے قتل کا معاملہ بھی سب جانتے ہیں، قانونی ماہرین تمام صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ہم خود معاملے پر عدالت سے رجوع کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ سنی سنائی بات کو جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل کیا گیا، جس کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں، اس رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔

گذشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر رحمٰن ملک نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ملاقات کی اور کہا گیاکہ دونوں جماعتوں کے مابین سیاسی تلخیاں ختم کرنے اور مل کر چلنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ پی پی پی کی طرف سے حکومت سندھ میں ایم کیو ایم کو شمولیت کی باضابطہ دعوت بھی دی گئی تھی، جس پر ایم کیو ایم فیصلہ اب سامنے آچکا ہے۔ اس ملاقات کے بعد اطلاعات آئیں کہ وزارتیں دینے کے علاوہ کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص کے بلدیاتی امور پر ایم کیو ایم سے مشاورت کی جائے گی اور تمام پالیسیوں میں ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

اس کے ساتھ کراچی آپریشن سے متعلق ایم کیو ایم کی شکایات کا قانونی ازالہ کیا جائے گا، ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات میں بھی صوبائی حکومت نے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ پچھلے دنوں الطاف حسین اور آصف علی زرداری کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا تھا، جس کے بعد گذشتہ روز سیاسی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے اعلامیے کے مطابق اس مرتبہ دونوں جماعتوں کا تحریری معاہدہ ہو گا، جس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین حالیہ ملاقاتوں اور بات چیت میں ایم کیو ایم کو حکومت میں شمولیت کی صورت میں تین وزارتیں، دو مشیر اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزرا، مشیر اور معاون خصوصی مکمل طور پر با اختیار ہوں گے اور یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ایم کیو ایم سے تحریری معاہدہ ہونے کے بعد تمام معاملات کی نگرانی آصف علی زرداری خود کریں گے۔

دونوں جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اب حکومت سازی کا کوئی بھی معاہدہ دیرپا اور مضبوط ہوگا اور ہر معاملے میں ہر سطح پر مکمل مشاورت کی جائے گی۔ اس بار بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سمیت شہری علاقوں کے کوٹے پر عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق ان جماعتوں کے مابین سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے بعد ایک مرتبہ پھر اتحاد سے صوبے بھر میں امن و امان کے قیام، ترقی اور عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

پچھلے ہفتے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف سے متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار، سینیٹر بابر غوری، سینیٹر فروغ نسیم نے ملاقات کی، جس میں ملک کی مجموعی صورت حال، سندھ میں امن و امان، سینیٹ کے انتخابات سے متعلق بات چیت کی گئی۔

باخبر ذرایع کے مطابق پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے مبینہ ماورائے عدالت قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور ایم کیو ایم کو سندھ میں نئے سیاسی اتحاد میں شامل ہو کر عوام کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے کی دعوت بھی دی۔ تاہم متحدہ کی طرف سے کسی بھی سیاسی اتحاد میں شمولیت کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ اس موقع پر پرویز مشرف نے ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے پر الطاف حسین کا شکریہ ادا کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔