والدین کا مقام و مرتبہ

فراز احمد  جمعـء 13 فروری 2015
کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ فوٹو: فائل

کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ والدین ہی کائنات میں ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں اﷲ نے اپنی عبادت کا حکم دیا تو والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور آپ کے رب نے حکم دیا کہ اس کی ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)

جس طرح اﷲ رب العزت کو تمام جہانوں کا مالک مان کر اس کی عبادت اور حکم کی تابعداری ضروری ہے اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عزت و احترام سے پیش آنا بھی ضروری ہے۔

محسن انسانیت ﷺ نے والدین کی عظمت و اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بیان کیا ہے۔ چناںچہ والدین کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اﷲ پاک ہر نظر محبت پر اس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ’’اگر یہ شخص سو مرتبہ بھی نظر محبت سے دیکھے تو کیا تب بھی اتنا ثواب ملے گا؟ اس پر رحمۃ للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ تمہاری نظر محبت سے دیکھنے سے زیادہ شان رحمت رکھتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح باب البر والصلوٰۃ)

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔

’’جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ’’اف‘‘ تک مت کہو (سورۃ بنی اسرائیل) اس آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصاً اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمر میں انسان عموماً چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے۔ چناںچہ اﷲتعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی ترجمہ: ’’اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)

یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ جو شخص والدین پر خرچ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے رزق میں مزید وسعت و برکت پیدا فرما دیتے ہیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں بقدر استطاعت ضرور خرچ کرنا چاہیے اور ان کے نان و نفقے کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تمہیں اپنے ضعفاء کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے ضعفاء کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (ترمذی شریف)

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کا ادب و احترام ہر صورت میں ضروری ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کی کسی حال میں اجازت نہیں۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن کا عذاب حکم الٰہی سے آخرت تک موخر کردیا جاتا ہے لیکن والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا اور بدتمیزی سے پیش آنا ایسا سنگین گناہ ہے جس کا عذاب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے دنیا ہی میں دیا جاتا ہے اور جب تک انسان اپنے اس سنگین جرم کی سزا نہ بھگت لے اس کو موت بھی نہیں آتی۔ احادیث مبارکہ میں اس سنگین گناہ کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ’’گناہوں میں سے اﷲ تعالیٰ جن گناہوں کو چاہے گا بخش دے گا لیکن والدین کی ایذا رسانی اور نافرمانی کو معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ مرنے سے پہلے اس شخص پر اس کا عذاب نازل کرے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

والدین کا نافرمان اور ان کے لیے تکالیف اور ایذا کا سبب بننے والا شخص چین سے زندگی نہیں گزار سکتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مصیبت و پریشانی میں گرفتار رہتا ہے۔

آپ ﷺ کے زمانے میں ایک صحابیؓ کا انتقال ہونے لگا تو آپ ﷺ ان کو کلمے کی تلقین کرنے لگے، لیکن صحابیؓ کے منہ سے کلمہ نہیں نکل رہا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کی والدہ کو بلاؤ، جب ان کی والدہ حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم اپنے بیٹے سے ناراض ہو؟ والدہ نے عرض کیا جی! میں اپنے بیٹے سے ناراض ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم پسند کرتی ہو کہ تمہارا بیٹا آگ میں جلے؟ والدہ نے عرض کیا نہیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بس پھر جلدی سے اسے معاف کردو۔ والدہ نے معاف کردیا تو اس صحابی نے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور روح پرواز کرگئی۔

اگر کسی نے بے خیالی میں والدین کی نافرمانی کی اور ان کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سبب بنا اور اسی حالت میں والدین اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس کو معافی تلافی کا موقع نہ مل سکا تو اﷲ تعالیٰ نے ایسی اولاد کو نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہے تو ان کو والدین کے فرماںبرداروں میں لکھ دیا جائے گا اور انشاء اﷲ قیامت کے دن اس گناہ کے بارے میں مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ والدین اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے اور ان کی بے ادبی اور نافرمانی سے ہرحال میں پرہیز کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔