آؤ پڑھاؤ ؛ بینک ملازم سے اسکول ٹیچر بھلا

امیر ایاز  اتوار 15 فروری 2015
آج مجھے اپنے چھوٹے بھائی پر رشک آتا ہے کیونکہ اس نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسکول ٹیچر بننے کو ترجیح دی۔ فوٹو اے ایف پی

آج مجھے اپنے چھوٹے بھائی پر رشک آتا ہے کیونکہ اس نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسکول ٹیچر بننے کو ترجیح دی۔ فوٹو اے ایف پی

اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ جس بینک کا میں ملازم ہوں وہاں گزشتہ دنوں ایک جونیئر کو محض آٹھ ہزار ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھا گیا ہے تو آپ میری بات کو ہنسی میں اڑا دیں گے۔ یقیناً آپ کا طرز عمل درست ہوگا کیونکہ یہ تنخواہ تو ایک مزدور کی مزدوری سے بھی کم ہے پھر بھلا ایک بی کام، ایم کام نوجوان اتنی کم تنخواہ میں کسی بینک میں جاب کرنا کیوں گوارا کرے گا؟ لیکن حقیقت حال کچھ ایسی ہی ہے۔

میں گزشتہ پچیس سال سے ایک پرائیوٹ بینک میں خدمات انجام دے رہا ہوں۔ عموماً دوست احباب کا تاثر یہی ہوتا ہے کہ بینک میں جاب کرنے والے حضرات بہت خوشحال ہوتے ہیں، اگر آپ نوعمر طلباء سے کیریئر کے حوالے سے سوال کریں تو ڈاکٹر یا انجینئر کے بعد سب سے زیادہ خواہشمند آپ کو بینک اور بزنس کی فیلڈ اپنانے والے ملیں گے۔ ہمارا بھی عمومی تاثر بینک سے متعلق یہی تھا، یہی وجہ ہے کہ بی کام اور پھر بعد ازاں ایم کام کرنے کے ساتھ ہم نے بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ حالانکہ والد کی اشد خواہش تھی کہ میں بطور اسکول ٹیچر گورنمنٹ جاب کروں لیکن اُس دور میں اساتذہ کو جو تنخواہ دی جاتی تھی اور برائے نام سہولیات تھیں، وہ بالکل بھی پرکشش نہیں تھیں۔ اُس معمولی تنخواہ میں گھر کا خرچہ چلانا ہی ممکن نہیں تھا تو میں بھلا کیسے اس فیلڈ کو اپنانے کا سوچ سکتا تھا۔

اپنی اُسی کاروباری سوچ کی وجہ سے میں نے اس دور میں اسکول ٹیچر بننے کے بجائے بینک میں ملازمت کرنے کو ترجیح دی جہاں بہ نسبت اسکول ٹیچر زیادہ تنخواہ دی جارہی تھی۔ لیکن عمر کے اس حصے میں جب کہ میں ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں مجھے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ قارئین یقیناً یہی سوچیں گے کہ غلطی کیسی؟ بھلا ایک بینک ملازم کو کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے، مالی طور پر حالت مستحکم ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ فارمولا شاید گورنمنٹ بینک ملازمین کے لیے تو مناسب ہو لیکن پرائیوٹ بینک میں نوکری کرنے والے اس قدر آسودہ حال نہیں ہوتے۔ پرائیوٹ ملازمین کو نہ تو گریجویٹی کی سہولیات ہیں اور نہ بعد از ریٹائرمنٹ پُرکشش پنشن، جو بڑھاپے کا سہارا بن سکے۔

جس دور میں ہم نے بینک کی راہ اپنائی تھی تب پھر بھی حالات کچھ بہتر تھے لیکن وقت کے ساتھ جہاں مارکیٹ میں کئی نئے بینکوں نے اپنی انٹری دی وہیں مسابقت کا رجحان بھی بڑھ گیا اور ساتھ ہی بینکنگ کا شعبہ اپنانے کے خواہشمندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ نئے پڑھے لکھے نوجوانوں کی شمولیت سے یقیناً بینکوں کو تو فائدہ پہنچا لیکن جیسے جیسے امیدواروں کی تعداد بڑھتی رہی مسابقتاً بینکوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے روزگاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم تنخواہوں پر ملازم رکھنے شروع کردیے۔ جو نوجوان بینک کا شعبہ اپنانے کے لحاظ سے اپنی ذہن سازی کرچکے تھے وہ اب کسی اور فیلڈ کی جانب جانا نہیں چاہتے تھے، مجبوراً اسی کم تنخواہ کے ساتھ وہ بینک ملازمت اختیار کرتے گئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ بی کام، ایم کام کیے ہزاروں نوجوان مختلف پرائیوٹ کمپنیوں میں معمولی اکائونٹنٹ کی جاب کررہے ہیں یا پھر اپنی ڈگری کو ایک جانب رکھ کر اپنا کوئی کاروبار یا دیگر ملازمت کررہے ہیں۔

ابتداء میں جس نوجوان کا میں نے تذکرہ کیا، ہوسکتا ہے آج سے پندرہ بیس سال بعد اس کی تنخواہ میں قدرے اضافہ ہوچکا ہو لیکن اس کے بعد کیا حاصل ہوگا؟ ریٹائرمنٹ کے بعد یقیناً وہ بھی گریجویٹی سے محروم ہوگا اور معمولی پنشن جو ای او بی آئی جیسے ادارے کی جانب سے دی جاتی ہے اس پر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر مقابلتاً ایک اسکول ٹیچر کا جائزہ لیا جائے تو آج حالات کافی بہتر نظر آتے ہیں۔ اسکول ٹیچر کی نہ صرف تنخواہ قابل رشک ہے بلکہ جو سہولیات حاصل ہیں وہ بھی اطمینان بخش ہیں۔ اور یقیناً اسکول ٹیچر جسے قابل عزت پیشے کے لیے یہ سہولتیں ہونا بھی چاہئیں کیونکہ وہ مستقبل کے معماروں کی ذہن سازی اور تربیت کا عظیم تر کام سر انجام دے رہے ہیں۔ میں نے اپنی تعلیم ان ہی گورنمنٹ اسکولوں سے حاصل کی، جن کے بارے میں آج کل یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہاں پڑھنے والے طالب علم زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے لیکن اس دور میں حقیقت اس کے برعکس تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت میرے ذہن میں بینک ملازمت بسی ہوئی تھی لیکن اب میں فخریہ کہہ سکتا ہوں کہ میری تعلیم و تربیت اور بینکنگ جیسے شعبے تک پہنچنے میں ان ہی اسکولوں کے عظیم اساتذہ کی محنت کارفرما ہے۔

میں آج کی نئی پود کو یہی مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ بے شک انجینئر، ڈاکٹر یا دیگر فیلڈ اپنانے کا خواب رکھتے ہوں، ایک بار اسکول ٹیچر بننے کے بارے میں بھی سوچیں۔ یہ پیشہ نہ صرف قابل عزت ہے بلکہ ایک پرائیوٹ بینک ملازم کے مقابلے میں برتر ہے۔ آج جب میں اپنے چھوٹے بھائی کی جانب دیکھتا ہوں تو مجھے رشک آتا ہے کیونکہ اس نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسکول ٹیچر بننے کو ترجیح دی اور آج وہ نہ صرف مجھ سے کہیں زیادہ خوشحال ہے بلکہ اس سے پڑھے ہوئے طالب علم آج ملک کی بڑی پوسٹوں پر فائز اس کے ممنون ہیں۔ آپ بھی علم کی اس جوت کو آگے بڑھائیں اور جو سیکھا ہے وہ دوسروں کو بھی سکھائیں۔

یہ بلاگ ’علم آئیڈیاز‘ کے اشتراک سے ایکسپریس کی شروع کردہ مہم (آو پڑھاو، جو سیکھا ہے وہ سیکھاو) کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔

تو آئیے ہماری اِس مہم میں ہمارا حصہ بنیے۔ اور ہر لمحہ باخبر رہنے کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھیے،  فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایکسپریس کے پیجز کے ذریعے آگاہ رہیے۔ پڑھانے کے بہترین طریقے سیکھیں اور ہم سے اپنے اساتذہ کی متاثر کن کہانیاں شئیر کیجیے۔


ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔