نفرت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

ضمیر آفاقی  جمعـء 13 فروری 2015
 ہم نے ابھی تک کوئی ایسا کچرا گھر نہیں بنایا جہاں ہم اپنی نفرتیں ، عداوتیں ،تعصب اور جہالت کو پھینک سکیں۔

ہم نے ابھی تک کوئی ایسا کچرا گھر نہیں بنایا جہاں ہم اپنی نفرتیں ، عداوتیں ،تعصب اور جہالت کو پھینک سکیں۔

نفرت، تعصب اور جہالت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا. یہ اُن روئیوں کا نام ہے جو جہاں بھی پائے جائیں ان کی کوکھ سے سڑانڈ اور تعفن ہی پیدا ہوتا ہے اور انسانی معاشرے اس کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تینوں عناصر انسانی سوچ، عقل اور فکر کو سلب کرکے انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دیتے ہیں۔

تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو دنیا بھر میں جرائم کی شرح میں اضافے اور قتل و غارت کے پیچھے انہی عوامل کا ہاتھ نظر آئے گا۔ جس طرح گھروں کا کچرا پھینکنے کے لئے ہم کچرا گھر بناتے ہیں اسی طرح کیا ہم کوئی ایسا کچرا گھر نہیں بناسکتے جہاں ہم اپنی نفرتیں، عداوتیں، تعصب اور جہالت کو پھینک سکیں۔ کیا ہم ایسے کچرا گھر نہیں بناسکتے جہاں ہم اپنے ذہنوں میں بھری غلاضتں، نفرتیں، تعصب پھنیک کر معاشرے میں باہمی محبت، ایثار، برداشت، تحمل اور بھائی چارے کو فروغ دے کر انسانوں کے رہنے کے قابل بنا سکیں۔

گذشتہ روز امریکہ جیسے ’’مہذب‘‘ ملک جہاں انسانی آزادی، حقوق، سوچ اور احترامِ آدمیت جیسے اصولوں کی پاسداری نظرآتی ہے۔ وہیں کی ایک ریاست شمالی کیرولینا کے علاقے چیپل ہل میں نفرت اور تعصب سے بھرے ذہن کے حامل ایک شخص کریگ اسٹیون نے تین انسانوں (دو خواتین اور ایک مرد) کو قتل کردیا جو مذہباً مسلمان تھے۔ قتل کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی لیکن حالات و واقعات اور دستیاب شواہد یہ بتاتے ہیں کہ اس قتل کے پیچھے نفرت کا جذبہ حاوی تھا ۔ ابھی تک اِس حادثے کا معمہ تو حل نہیں ہوسکا مگر قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کریگ اسٹیون کو عدالت میں پیش کیا گیا جس نے عدالت کے سامنے صحت جرم سے انکار کردیا، جبکہ گرفتار ملزم کی اہلیہ نے کریگ سے طلاق لینے کا اعلان کردیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ کسی ایسے ذہنی مریض کے ساتھ  نہیں رہ سکتی جو انسانیت کا قاتل ہو۔

دوسری جانب مقتول خواتین کے والد محمد ابوصالحہ نے اسے نفرت پر مبنی قتل کی واردات قرار دیا ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق محمد ابو صلحہ نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی بیٹیوں اور داماد کو مذہب سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے امریکی شہریوں پر بار بار اسلامی دہشت گردی کے لفظ کی یلغار کرکے انہیں ہم سے خوفزدہ کردیا ہے، وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں اور ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب تینوں طلبہ کی یاد میں امریکی ریاست کیرولینا میں یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ اکٹھے ہوئے اور مقتولین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے شمعیں روشن کیں جبکہ ان تینوں نوجوان مسلمانوں کے قتل کی اطلاع منظرعام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ان تینوں کی یاد میں فیس بْک پر ’ہمارے تین فاتح‘ کے نام سے ایک صفحہ بنا دیا گیا ہے۔ اس صفحے پر پوسٹ کی گئی ایک تحریرمیں لکھا ہے؛

’’مہربانی فرما کر ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ ان تینوں خوبصورت روحوں کو اپنے نیک جذبات اور دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان کا عقیدہ ان کے لیے بہت کچھ تھا‘‘

ساتھ ہی ٹویٹر پر ’مسلم لائیوزمیٹر‘ کے نام سے ہیش ٹیگ بنایا گیا ہے۔

کسی بھی معاشرے کا حسن توازن دیکھنا ہو تو وہاں کے نظامِ انصاف و قا نون کو دیکھنا چاہیے۔ تین مسلمان طلباء کے قتل کے بعد اس قاتل کو کسی نے ہیرو نہیں بنایا اور نہ ہی قانون نے امریکی ہونے کے ناطے اس کے ساتھ کوئی رعایت کی۔ اُس کی بیوی نے بھی اسے انسانیت کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی کا اظہار کردیا جبکہ عدالت اسے اُس کے جرم کے مطابق قرار واقعی سزا دے گی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نہ ہی اسے مذہبی رنگ دے کرسڑکیں بلاک کی گئیں اور نہ قاتل کی حمایت میں جلوس نکالے گئے بلکہ پورا امریکی معاشرہ اس کے اس مکروہ فعل پر اس سے نفرت کا اظہار کرتا نظرآرہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔