خوابوں کے ساتھ برا سلوک

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 14 فروری 2015

برگ کہتا ہے ’’سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے کوئی کام اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک پہلے اس کا خواب نہ دیکھا جائے۔‘‘ میں اورآپ ہم سب جب چھوٹے بچے تھے ہمارے کچھ خواب تھے ارمان تھے ہم ایک خیالی دنیا میں رہتے تھے۔ لیکن پھر سب کچھ جیسے وقت نے بدل کر رکھ دیا ہم ایک الگ دنیا میں آگئے۔ یہ دنیا تھی مسائل کی آزمائشوں کی نت نئی تکالیف کی ۔ وہ خواب جو ہم سب نے دیکھے تھے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے لیکن وہ خواب آج بھی ہم سب نہیں بھولے ہیں۔

ذرا ذہن پر زور دیں یہ ذہن کے کسی کونے کھدرے سے فوراً نمودار ہوجائیں گے۔ ابتداء میں آپ کو یہ سب خواب مضحکہ خیز اور بے معنی نظر آئیں گے کوئی بعید نہیں کہ آپ اپنے آپ پر ہنسنے لگیں مگر یقین جانیے آپ کے یہ خواب ابھی بھی پور ے ہوسکتے ہیں ایک بچے کی طرح سے آپ دوبارہ خیالی دنیا میں چلے جائیں۔ سوچیں کہ آپ ان دنوں میں کیا چاہتے تھے یہ ترقی جو آج آپ کو نظرآرہی ہے کیا ہمارے آباؤاجداد کا خواب نہیں تھی کیا وہ فضا میں خلا میں پروازکرنا نہیں چاہتے تھے کیا وہ قدرت کے سر بستہ راز نہیں جاننا چاہتے تھے ۔

کیا آج وہ خواب حقیقت کا روپ دھار نہیں چکے ہیں ۔اگر یہ سچ ہے تو پھر ہم اپنے خوابوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کررہے ہیں اور وہ بھی تواتر اورتسلسل کے ساتھ کرتے جا رہے ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے بالآخر کیا ہم یہ طے کرپاتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی سے آخر کیا چاہتے ہیں۔ اس کو کس انداز میں بسر کرسکتے ہیں اور ہم کہاں پہنچنا چاہتے ہیں اس سوال کا بڑا سیدھا سادہ سا جواب ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے فیصلوں پر منحصر ہے ہمارے فیصلے وہ لمحے ہوتے ہیں کہ جب ہماری تقدیر کی صورت گہر ی ہو رہی ہوتی ہے اور اس سب سے بالاتر یہ کہ اپنے فیصلوں پر ہمارا یقین ہمارا بھروسہ ہماری زندگیوں کے حالات پر منحصر نہیں ہم اپنی تقدیر خود بناتے ہیں ۔

ہم میں سے ہر ایک کو پیدائشی طور پر ایسے وسائل اور ذرایع مرحمت کیے جاتے ہیں جو ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم ان کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکیں بلکہ اس بھی کہیں زیادہ حاصل کرسکتے ہیں ۔خوشیاں یا غم دکھ وسکھ خوشحالی یا غربت کامیابی یا ناکامی یہ سب کچھ ہمارے فیصلوں کے مرہون منت ہیں ۔ایک آدمی اپنی پوری زندگی اس تلاش میں رہا کہ دنیا کا بہترین جنرل کون ہے وہ اپنی تلاش میں ناکام رہا اور آخرکار دنیا سے چل بسا۔ روز قیامت اس نے فرشتوں سے دریافت کیا کہ دنیا کا بہترین جنرل کون ہے اسے جواب دیاگیا کہ اگر تم اپنے دائیں جانب دیکھو تو تمہیں وہ عظیم جنرل نظر آئے گا جب اس نے بڑے اشتیاق سے اس طرف دیکھا تو بہت مایوس ہوا۔

اس نے فرشتوں سے کہا یہ شخص تو میرے شہر کی فلاں گلی کا موچی تھا اس کو جواب ملا اگر یہ شخص جنرل بننے کا فیصلہ کرتاتو دنیا کا سب سے بڑا جنرل ہوتا ۔ عظیم مصنف مارک ٹوئن کی یہ حکایت ہماری توجہ اس طرف دلاتی ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی حقیقی صلاحیتوں سے بے خبر رہتے ہیں ۔ 29 مئی1953 کو انسانی عزم اور ہمت کی داستان میں ایک اہم دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس دن 29 ہزار فٹ بلند دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سرکرلی گئی اسے سرکرنے والے شخص کا نام سرایڈمنڈ ہیلیری تھا۔ اس نے اپنی جدوجہد کے بارے میں ایک تاریخی جملہ کہا ’’ اصل میںہم پہاڑ سر نہیں کرتے بلکہ خود اپنا آپ سرکرتے ہیں۔‘‘

اپنی کتاب میں سرایڈمنڈ لکھتا ہے کہ یہ کامیابی میرے لیے آسان نہیں تھی اس کے لیے مجھے خود پر بہت محنت کرنا پڑی۔ ایڈمنڈ نے 1952 میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سرکر نے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہا۔ برطانیہ میں اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی تاکہ اس کی اس کوشش کو سراہا جائے جب تالیوں کی گونج میں وہ اسٹیج پر خطاب کرنے کے لیے پہنچا تو اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ابھی وہ ایک ناکام شخص ہے لیکن اسے ہار نہیں ماننی چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ بغیر خطاب کیے اسٹیج سے دور چلا گیا اس نے دیوار پر لگی ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور بلند آواز میں کہا تم نے پہلی دفعہ مجھے شکست دی لیکن اگلی دفعہ میں تمہیں شکست دوں گا تم نے جتنا بلند ہونا تھا ہو لیا تم اس سے زیادہ بلند نہیں ہوسکتے لیکن میرا بڑھنا ابھی جاری ہے ‘‘۔کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملاکرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں چنانچہ کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں ۔

دنیاکی ہر عظیم کامیابی سے پہلے آپ کو اس کے اندر عظیم ناکامی ملے گی ارادے ، ہمت، رویے، جدوجہد ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرتے ہیں آج جو دنیا ہمیں نظر آتی ہے وہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی، آج ماضی کے مقابلے میں بالکل تبدیل شدہ دنیا ہے اس تبدیلی میں لاتعداد شخصیات نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے یاد رہے کہ دنیا میںتبدیلی کی خواہش پہلے پہل صرف انفرادی انسانوں میں جاگی تھی نہ کہ اجتماعی انسانوں میں ۔ یہ ساری تبدیلیاں انفرادی انسانوں کا کارنامہ ہیں اور وہ تمام انسان شروع میں انتہائی بدترین حالات سے دوچار رہے اور اپنے بدترین حالات کو انھوں نے اپنے رویے ارادے اور خواہش سے شکست سے دوچار کیا ۔ یاد رہے ان سب کے حالات ہمارے موجودہ حالات سے کہیں زیادہ خراب تھے ۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہم 18 کروڑ ہیں ہم سب کے خواب ایک جیسے ہی ہیں، ارمان بھی ایک ہی ہیں بس ہمیں ارادہ کرنے کی دیر ہے ہمارے خواب سچ ہونے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ دیر تو ہماری جانب سے ہو رہی ہے ہم سب کو ایک روز چلے ہی جانا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ فرشتے ہمارے لیے دوسروں سے کہہ رہے ہوں کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے جنرل ، سائنس دان ، سیاست دان ، بزنس مین ، ڈاکٹر ، انجینئر ہیں اور وہ ہماری طرف دیکھ کر مایوسی سے فرشتوں سے کہہ رہے ہوں کہ یہ لوگ تو میرے شہر کی فلاں گلی میں فلاں تھے اور انھیں یہ جواب دیا جائے کہ اگر یہ اشخاص عظیم بننے کا فیصلہ کرتے تو دنیا کے سب سے بڑے عظیم یہ ہی ہوتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔