براعظم افریقا، البائنو افراد کی قتل گاہ

ندیم سبحان  اتوار 15 فروری 2015
ان کے جسمانی اعضا کی خریدوفروخت منافع بخش کاروبار بن چکی ہے ۔ فوٹو : فائل

ان کے جسمانی اعضا کی خریدوفروخت منافع بخش کاروبار بن چکی ہے ۔ فوٹو : فائل

براعظم افریقا کو اسرار بھری سرزمین کہا جاتا ہے۔ گھنے جنگلات، ان دیکھے جانور، قدیم اور خوںخوار قبائل اور عجیب و غریب رسومات کے علاوہ یہ براعظم اپنے ساحروں اور وچ ڈاکٹروں کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ افریقی معاشرے میں وچ ڈاکٹر وہی اہمیت رکھتے ہیں، جو دنیا کے دوسرے حصوں میں مذہبی پیشواؤں کو حاصل ہوتی ہے۔

ان کے کہے کو حرف آخر مان کر اس پر من و عن عمل کیا جاتا ہے۔ غیرافریقی ممالک میں بسنے والے وچ ڈاکٹروں ہی کو جادوگر سمجھتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت افریقی معاشرے میں وچ ڈاکٹر کا رُتبہ جادو کا توڑ کرنے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یوں ’خیر کا نمائندہ‘ ہونے کے باعث وچ ڈاکٹر افریقیوں کے لیے انتہائی قابل احترام ٹھیرتے ہیں۔ مگر ان ’خیر کے نمائندوں‘ پر حال ہی میں تنزانیہ کی حکومت نے پابندی عاید کردی ہے۔ اس کی وجہ ملک میں البائنو افراد کے اغوا اور قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں!

آپ کو کبھی نہ کبھی کوئی ایسا بچہ یا بڑا ضرور نظر آیا ہوگا جس کے سَر کے بال، بھویں، پلکیں اور ہاتھوں پاؤں پر موجود بال سفید یا بھورے رنگ کے ہوں گے، اور اس کی جلد بھی اسی رنگت کی ہوگی۔ ان افراد کے لیے ’’البائنو‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ان کی بھوری یا گلابی مائل رنگت کا سبب دراصل جینیاتی خرابی یا مرض ہے، جس کی وجہ سے ان کے جسم میں جلد اور بالوں کو رنگت دینے والا مادّہ (میلانن) مفقود ہوتا ہے۔ یہ مرض موروثی اور لاعلاج ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وچ ڈاکٹروں کا البائنو افراد کے قتل سے کیا تعلق ہے؟ وچ ڈاکٹروں کا عقیدہ ہے کہ البائنو افراد کے جسمانی اعضا میں جادوئی طاقتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنھیں ’خاص عمل‘ کے ذریعے فعال کیا جاتا ہے۔ پھر یہ اعضا جس کے پاس ہوں گے خوش قسمتی اس پر سایہ فگن ہوجائے گی۔ یہ عقیدہ یوں تو پورے براعظم افریقا میں پایا جاتا ہے مگر تنزانیہ، برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگنڈا میں خاص طور سے عام ہے۔ ان ممالک میں بھی تنزانیہ میں خصوصیت سے اس عقیدے کا پرچار اور اس پر عمل کیا جارہا ہے۔

یہ عقیدہ صدیوں سے افریقا میں البائنو افراد کی ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے۔ البائنو افراد کو قتل کرکے ان کے اعضا کاٹ لیے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی قبریں تک کھود ڈالی جاتی ہیں اور لاشوں کی قطع و برید کی جاتی ہے۔ زمبابوے میں البائنو افراد کو sope کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں آسیب زدہ۔ تنزانیہ میں انھیں nguruwe ( سور ) اور zeru (بدروح) جیسے ناموں سے پُکارا جاتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ البائنو افراد کے جسمانی اعضا کو تو دوسروں کے لیے خوش حالی کا موجب سمجھاتا ہے مگر خود انھیں نحوست کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ عام افریقی سمجھتے ہیں رنگت مختلف ہونے کی وجہ سے یہ لوگ منحوس ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرے پر آفات و مصائب نازل ہوں گے۔ یہ عقیدہ بھی البائنو افراد کی ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے۔ البائنو افراد کے نحوست زدہ ہونے کا عقیدہ یا تصور مشرقی افریقا کے ممالک میں عام ہے۔

اس کے علاوہ بھی کئی عقائد کی بنیاد پر ان مظلوموں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا ہے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ البائنو لڑکی یا عورت کے ساتھ جنسی فعل کرنے سے مرد کو لاحق ایڈز کا مرض ختم ہوجاتا ہے۔ جب کسی آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کا خطرہ ہو تو ’پہاڑوں کے دیوتا‘ کو خوش کرنے کے لیے کسی بدقسمت البائنو کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں البائنو کے سَر کے بال کھینچنے سے قسمت کی دیوی (بال کھینچنے والے پر) ’مہربان‘ ہوجاتی ہے۔ سونے کی کانوں میں ڈرلنگ کرنے سے پہلے کان کن البائنو کی ہڈیوں کو خوش قسمتی کے تعویذ کے طور پر گلے میں ڈالتے ہیں یا بازو پر باندھ لیتے ہیں۔

البائنو افراد کے جسمانی اعضا سے وابستہ ’خوش قسمتی‘ کے نام نہاد عقیدے کی وجہ سے افریقی معاشرے میں ان کے اعضا کی ’مانگ ‘ بڑھتی جارہی ہے۔ اسی مناسبت سے ان کے قتل اور جسم سے اعضا کاٹ لیے جانے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ البائنو افراد کے اعضا کی فروخت ایک باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرگئی ہے، کیوں کہ بلیک مارکیٹ میں بدقسمت افراد کے اعضا ہزاروں ڈالرز میں فروخت ہوتے ہیں، اور پورا جسم یعنی لاش کی قیمت 100000 امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہروں اور دیہات میں چلتے پھرتے یہ ’سفید فام‘ اپنے شکاریوں کے لیے کس قدر ’قیمتی‘ ہوتے ہیں۔

مذہبی عقائد، ناخواندگی، غربت اور جہالت نے مل کر اس معاشرے کو البائنو افراد کے لیے خوںخوار درندوں سے بھرے ہوئے جنگل میں بدل دیا ہے، جہاں وہ خوف۔۔۔۔۔۔ موت کے خوف میں مبتلا خرگوشوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پیدائش سے لے کر موت تک کا درمیانی عرصہ ان کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ انھیں غیروں کے علاوہ اپنوں کی نفرت کا بھی نشانہ بننا پڑتا ہے۔

سیاہ فام جوڑوں کے ہاں البائنو بچے کی پیدائش پر اکثروبیشتر شوہر اپنی بیویوں کے کردار پر شک کرتے ہوئے اسے کسی سفید فام کے ساتھ ناجائز تعلقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں یا پھر نومولود کو کسی انگریز کا بھوت سمجھا جاتا ہے (تنزانیہ دراصل دو ریاستوں ٹانگا نیکا اور زنجبار کے ادغام کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ ان ریاستوں نے بالترتیب 1961ء اور 1963ء میں تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ بہت سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ تنزانیہ کی سرزمین میں مدفون انگریزوں کے بھوت البائنو بچوں کی صورت میں نیا جنم لیتے ہیں)۔ البائنو بچے کی پیدائش کو بُراشگون اور نومولود کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔

بعض اوقات سیاہ فام والدین توہم پرستی کے غلبے کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کا خون کردیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے واقعات بھی پیش آچکے ہیں کہ جب خود باپ ہی نے رقم کے لالچ میں اپنے البائنو بچے کو فروخت کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ تنزانیہ کی حکومت نے البائنو بچوں کی حفاظت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے ہیں۔ البائنو بچے کی پیدائش کی اطلاع ملتے ہی سرکاری اہل کار نومولود کو ان مراکز میں لے آتے ہیں۔ یوں یہ بدقسمت ماں کے دودھ کے علاوہ اس کی مامتا سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ بچوں کو ان مراکز میں رکھنے کا سبب انھیں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جو والدین خود کو روشن خیال ظاہر کریں انھیں بھی البائنو بچے کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی وجہ شیرخوار کے اغوا کا خطرہ ہے۔

ایسے کئی واقعات وقوع پذیر ہوچکے ہیں جب گھروں میں گُھس کر البائنو اغوا کرلیے گئے۔ کچھ دنوں پہلے ایک چار سالہ البائنو بچی کو نامعلوم مسلح افراد گھر میں سے اغوا کرکے لے گئے۔ اغوا کے شبہے میں پولیس نے بچی کے والد اور دو چچاؤں کو حراست میں لے رکھا ہے، مگر بچی ہنوز لاپتا ہے۔ پولیس کو شبہہ ہے کہ رقم کے لالچ میں بچی کے والد اور چچا نے خود اسے اغوا کروادیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اغواکار مغوی کو قتل کرکے اس کے اعضا فروخت کردیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق فروری 2013 ء میں اپنے گھر میں سوئی ہوئی ایک البائنو عورت پر چُھرے سے حملہ کرکے کہنی کے پاس سے اس کا بازو کاٹ لیا گیا۔ حملہ کرنے والا کوئی اور نہیں اس کا شوہر تھا! بدقسمت عورت کی آٹھ سالہ بیٹی نے اپنے باپ کو خواب گاہ میں سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھُرا اور دوسرے میں اپنی بیوی کا کٹا ہوا بازو تھا۔

فروری 2014ء میں دس سالہ طالب علم Mwigulu Matonange پر دو افراد نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے دوست کے ساتھ اسکول سے گھر واپس آرہا تھا۔ انھوں نے معصوم طالب علم کا بایاں بازو کاٹا اور دوڑتے ہوئے قریبی جنگل میں غائب ہوگئے۔ مظلوم طالب علم نے بعدازاں ذرائع ابلاغ کو بتایا،’’انھوں نے مجھے اس طرح دبوچ لیا تھا جیسے بکری کو ذبح کیا جاتا ہے۔

میری چیخ پکار، بہتے آنسوؤں اور فریادوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ایک آدمی نے مجھے دبوچ رکھا تھا۔ دوسرے نے بڑا خنجر نکالا اور میرا بازو کاٹ لیا۔ تکلیف اور خوف کی شدت سے میں بے ہوش ہوگیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم میں کیسے اسپتال پہنچا۔‘‘ اگرچہ دونوں افراد Mwigulu  کے لیے اجنبی تھے، مگر پولیس نے شبہے میں اس کے باپ کو حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس کا خیال تھا کہ اس واقعے کے پس پردہ بچے کے باپ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔

افریقا، البائنوازم میں مبتلا لوگوں کے لیے قتل گاہ بن چکا ہے مگر ان کی سب سے زیادہ تعداد بھی یہیں پائی جاتی ہے۔ بالخصوص تنزانیہ میں اس جینیاتی خرابی کے حامل بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے بلند ہے۔ تنزانیہ میں ہر 1400 میں سے ایک فرد البائنو پیدا ہوتا ہے، جب کہ مغربی ممالک میں یہ شرح 20000 میں سے ایک ہے۔ البائنوازم کی بلند شرح کا سبب موروثیت ہے۔ تنزانیہ میں پیدا ہونے والے 50 فی صد البائنو بچوں کے خاندان میں کوئی نہ کوئی فرد اس جینیاتی بگاڑ میں مبتلا ہے۔ ضروری نہیں کہ البائنو بچوں کے والدین میں سے کوئی اس خرابی کا شکار ہوں، البتہ ان میں اس کے جینز ضرور موجود ہوتے ہیں جو ان کی اولاد میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

تنزانیہ میں البائنوازم کو خدا کی طرف سے سزا یا بدبختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسے ایک متعدی مرض بھی خیال کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور دانش وروں کی برادری کے بہت سے ارکان بھی ان ہی خیالات کے حامل ہیں۔ یوں یہ خطہ البائنو میں مبتلا افراد کے لیے ایک جنگل کی سی حیثیت رکھتا ہے جہاں وہ کسی بھی لمحے کسی خوںخوار شکاری کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔

تنزانیہ میں البائنو افراد کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ ان کی تنظیمیں بھی موجود ہے۔ الشیما کوئے غِیر،ملکی قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ وہ خود بھی البائنو ہیں۔ الشیما کے مطابق تنزانیہ میں رجسٹرڈ شدہ البائنو افراد کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے۔ تاہم ان کی حتمی تعداد کے بارے میں حتمی طور پر اندازہ لگانا مشکل ہے۔ حکومت نے ملک میں البائنو افراد کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے ایک سروے کیا تھا مگر اس کے نتائج جاری نہیں کیے گئے۔ البائنو افراد کے حقوق اور ان کی حفاظت کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پونے پانچ کروڑ کی آبادی والے ملک میں ان کی تعداد ایک لاکھ سے زاید ہے۔

تنزانیہ کے سب سے بڑے شہر دارالسلام میں قائم کینیڈین تنظیم ’’انڈر دی سیم سَن‘‘ البائنو افراد کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مذکورہ تنظیم کی اپریل 2014ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے میں 23 افریقی ممالک میں 129البائنو افراد کو قتل کیا گیا، جب کہ اعضا کی قطع و برید، تشدد اور قبروں کی بے حرمتی کے 181 واقعات پیش آئے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000 ء سے لے کر اب تک تنزانیہ میں 74 البائنو افراد قتل کیے گئے ہیں۔ بیشتر ہلاکتیں Shinyanga اور Mwanza کے علاقوں میں ہوئیں، جہاں وچ ڈاکٹروں کا اثرورسوخ زیادہ ہے۔ ایسے واقعات بھی پیش آچکے ہیں کہ راہ چلتے البائنو شخص پر حملہ کیا گیا، حملہ آور اس کا ہاتھ یا بازو کاٹ کر ساتھ لے گئے اور اسے خون میں لت پت تڑپتا چھوڑگئے۔

البائنو افراد کی ہلاکتوں اور انھیں جسمانی اعضا سے محروم کردینے کے واقعات کو ذرائع ابلاغ نے پہلی بار 2006ء میں شہ سرخیوں میں شائع و نشر کیا۔ بالخصوص ایک 34سالہ البائنو عورت، اریتھی کے قتل کو ملک گیر شہرت ملی تھی، جسے سرعام ہلاک کرنے کے بعد اس کی ٹانگیں اور بازو کاٹ لیے گئے تھے۔ بدقسمت عورت کے اعضا، بعدازاں فروخت کیے گئے تھے۔ اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے واقعات مسلسل رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ 2008ء میں ایک سیاہ فام مرد نے اپنی البائنو بیوی کو 3000 امریکی ڈالر کے عوض کانگو کے کاروباری افراد کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔ کسی طرح یہ پورا معاملہ طشت از بام ہوگیا۔ البائنو عورت کے خریدار تنزانیہ سے فرار ہوگئے جس کے بعد حکومت نے ان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کی مدد حاصل کی مگر اس میں کام یاب نہیں ہوئی۔

البائنو بچوں کی اکثریت گھر میں اپنوں اور باہر غیروں کی نفرت کا سامنا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں گھر سے باہر قد رکھتے ہی انھیں موت کا خوف بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ افریقی ممالک میں ناخواندگی کی شرح بلند ہے۔ تنزانیہ جیسے پس ماندہ ممالک میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔ ان ممالک میں ’عام ‘ بچوں کی اکثریت تعلیمی اداروں کا منہ نہیں دیکھ پاتی، لہٰذا البائنو بچوں کے لیے تعلیم کا حصول قریب قریب ناممکن ہوجاتا ہے۔ جو البائنو اسکول میں زیرتعلیم ہوتے ہیں۔ انھیں بھی اپنے ساتھیوں کی جانب سے انتہائی نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنوں اور غیروں کا نفرت انگیز سلوک، موت کا خوف، تعلیم سے محرومی۔۔۔۔۔یہ صورت حال البائنو بچوں کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ شدید عدم تحفظ اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 98فی صد البائنو زیادہ سے زیادہ 40 برس تک جی پاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ان کے مختصر عرصۂ حیات کی وجہ سماج کا ظالمانہ رویہ ہے۔

البائنو افراد کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر سطحوں پر اٹھنے والی آوازوں نے حکومت تنزانیہ کو مجبور کیا کہ وہ ان بدقسمتوں کی حفاظت کے لیے اقدا مات کرے۔ تنزانیہ کے صدر Jakaya Kikwete کئی بار وچ ڈاکٹرز، ان کے مددگاروں، البائنو افراد کے جسمانی اعضا کی فراہمی کے آرڈر لینے والے مڈل مینوں، اور گاہکوں پر تنقید کرچکے ہیں۔ البائنو افراد کے تحفظ کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ 2008ء میں صدر کے حکم پر وچ ڈاکٹروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک البائنو خاتون Al-Shymaa Kway-Geer, پارلیمان کی رکن بنایا گیا، جو اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ علاوہ ازیں پولیس کو البائنو کی فہرستیں مر تب کرنے اور انھیں تحفظ فراہم کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔

البائنو افراد کی لاشوں کو بے حُرمتی سے بچانے کے لیے ان کی قبروں کو کنکریٹ کے ذریعے مضبوط بنانے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ جنوری 2009ء میں تنزانیہ کے وزیراعظم Pinda نے البائنو افراد کے ’شکاریوں‘ کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔ البائنو افراد کے جسمانی اعضا کی تجارت کے خاتمے کے لیے اقدام کرتے ہوئے انھوں نے تمام وچ ڈاکٹروں کے لائسنس منسوخ کردیے تھے جو کالے عمل کے لیے ان اعضا کا استعمال کرتے تھے۔ گذشتہ دنوں تنزانیہ میں وچ ڈاکٹروں پر پابندی لگادی گئی ہے۔ تاہم البائنو افراد کی ہلاکتوں اور ان پر حملوں کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی۔

پیٹر ایش تنزانیہ میں البائنو افراد کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل این جی او ’’انڈر دی سیم سَن‘‘ کا بانی اور خود بھی البائن ازم میں مبتلا ہے۔ گذشتہ برس جون میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس میں اس نے افریقا میں البائنو افراد کی حالت زار کی منظرکشی ان الفاظ میں کی،’’آج میں آپ کو البائن ازم کا شکار لوگوں کے انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو بیشتر افریقی ممالک میں روا رکھی جارہی ہیں اور جن سے اقوام عالم بے خبر ہیں۔ میری این جی او کے پاس سولہ افریقی ممالک میں 207 البائنو افراد کے قتل کے بارے میں شواہد موجود ہیں کہ انھیں کالا جادو سے جُڑے تصورات کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔

ہلاک شدگان میں اکثریت بچوں کی ہے۔ مشرق میں تنزانیہ سے لے کر برونڈی، مغرب میں نائجیریا اور اور آئیوری کوسٹ، اور جنوب میں جنوبی افریقا اور سوازی لینڈ تک اس جینیاتی خرابی کے ساتھ پیدا ہونے والے لوگ خوف و دہشت کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ افریقا میں البائنو افراد کے جسمانی اعضا کی خریدوفروخت کی بلیک مارکیٹ موجود ہے۔ جہاں بازو، ہاتھ، بال، جلد، آنکھوں سمیت تمام اعضا ہزاروں ڈالرز میں بیچے جارہے ہیں: ہاتھ 3000ڈالر میں اور پورا جسم ایک لاکھ ڈالر تک میں دست یاب ہے ۔ یہ اعضا ایک سے دوسرے ملک میں اسمگل بھی ہوتے ہیں۔‘‘ اپنے خطاب کے اختتام پر پیٹر نے انسانی حقوق کی کونسل سے البائن ازم میں مبتلا لوگوں کی ہلاکتوں اور ان پر ہونے والے حملوں اور ان کے ساتھ برتے جانے والے رنگ و نسل کے امتیاز کے خلاف قرارداد مذمت منظور کرے۔

تنزانیہ میں کسی البائنو فرد کے قاتل کو پہلی بار سزا ستمبر 2009ء میں ہوئی تھی۔ ڈسٹرکٹ کہاما کی ہائی کورٹ نے ایک چودہ سالہ لڑکے Matatizo Dunia کے قاتل کو سزائے موت سنائی تھی۔ عدالت کا یہ فیصلہ تاریخی تھا، کیوں کہ اس سے قبل پچاس سے زاید معلوم قتل ہوچکے تھے مگر ان کے ذمے داران قانون کی گرفت میں نہیں آئے تھے۔ ضلع بوکومبے کے رہائشی Matatizo کو تین افراد نے دسمبر 2008ء میں قتل کردیا تھا۔ یہ افراد نوعمر لڑکے کو رات کے وقت اس کے گھر سے اغوا کر کے لے گئے تھے۔

انھوں نے مقتول کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے تھے۔ چند روز کے بعد پولیس نے ایک قاتل کو گرفتار کرلیا۔ اس کے قبضے سے مقتول کی ایک ٹانگ برآمد ہوئی تھی۔ اس کی نشان دہی پر پولیس نے لاش کے دیگر ٹکڑے بھی برآمد کرلیے جو جھاڑیوں میں چھپا ئے گئے تھے۔ قاتل نے اعتراف کیا کہ وہ مقتول کے جسمانی اعضا وچ ڈاکٹر کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

تنزانیہ سمیت افریقی ممالک میں البائنو افراد کے تحفظ کے لیے ’’انڈر دی سیم سَن ‘‘ کے علاوہ کئی این جی اوز اور عالمی ادارے سرگرم عمل ہیں۔ ان میں نیشنل آرگنائزیشن فار البائن ازم اینڈ ہائپوپگمنٹیشن ( NOAH )، تنزانیہ البائنو سینٹر، اسسٹنگ چلڈرن اِن نیڈ ( ACN )، انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس (IFRC ) ، اسانتے مریمو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ادارے البائنو افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ ان کے حوالے سے معاشرتی سوچ تبدیل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں ادارے البائن ازم سے جُڑے نفرت انگیز تصورات کے خاتمے کے لیے مہمات چلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دستاویزی اور فیچر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں حکومتوں پر بھی البائنو افراد کا تحفظ کرنے اور ان کے قاتلوں اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

نومولود بچوں کے لیے کیئر ہومز قائم کرنے کے علاوہ تنزانیہ کی حکومت نے البائنو بچوں کے لیے خصوصی اسکول بھی کھولے ہیں۔ چوں کہ تمام البائنو ضعف بصارت میں بھی مبتلا ہوتے ہیںِ، لہٰذا ان اسکولوں میں انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ان اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی اکثریت کا تعلق کیئرہومز ہی سے ہوتا ہے۔ یہ بچے اپنے گھروں میں لوٹنے سے خوف کھاتے ہیں۔ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ گھر واپسی کی صورت میں قریب ترین رشتے ہی ان کے قاتل ثابت ہوں گے۔ چناں چہ یہ سرکاری حفاظت ہی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر البائنو بچوں کی ایک بڑی تعداد کو کیئرہومز یا ان خصوصی اسکولوں جیسی نعمت میسر نہیں آتی۔

ان تمام کوششوں کے باوجود البائنو افراد کے اغوا، قتل اور جسمانی اعضا کاٹ لیے جانے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ اس کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ مذہبی عقائد، جہالت، غربت اور تعلیمی پس ماندگی کے علاوہ افریقی معاشرے میں پھیلی کرپشن بھی اس کا اہم سبب ہے۔ البائنو افراد کے اعضا کی فروخت انتہائی نفع بخش کاروبار کی حیثیت رکھتی ہے۔ این جی اوز کے مطابق یہ کاروبار باقاعدہ ایک زنجیری شکل رکھتا ہے۔ یہ زنجیر شکار (البائنو)، ان کے قاتل یا حملہ آوروں، وچ ڈاکٹروں، ان کے گُرگوں، دلال یا مڈل مین اور گاہکوں پر مشتمل ہے۔ اس زنجیر میں ’گاہک‘ سے مراد بااثر، دولت مندوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور سیاست دان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود البائنو افراد کے اغوا، قتل اور اور ان پر ہونے والے حملوں میں خاطرخواہ کمی نہیں آسکی۔

گذشتہ چند ماہ سے تنزانیہ میں البائنو افراد کے اغوا اور قتل کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ رواں سال ہونے الے انتخابات ہیں! گذشتہ بر س اگست میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے تنزانیہ کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ملک میں البائنو افراد کے اغوا اور قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ممکنہ طور پر اس کی وجہ اکتوبر 2015ء کے عام انتخابات ہیں، کیوں کہ سیاست داں عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کی غرض سے وچ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، اور وچ ڈاکٹر ان سے ساحرانہ عمل کرنے کے لیے البائنو فرد کے جسمانی اعضا لانے کا مطالبہ کرتے ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔