کچھ دیکھے، کچھ سنے

رئیس فاطمہ  اتوار 15 فروری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

اس وقت جو کتاب میرے سامنے ہے اس کا نام ہے ’’کچھ دیکھے کچھ سنے‘‘۔ یہ مختلف شخصیات پہ لکھے گئے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جس کے مصنف ہیں، بھارت کے جانے مانے لکھاری، افسانہ نگار اور صحافی  نند کشور وکرم۔ یوں تو ان کا ہر کام لائق تحسین ہے لیکن 1985ء سے اردو کا واحد حوالہ جاتی مجلہ ’’عالمی اردو ادب‘‘ باقاعدگی سے نکال رہے ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی ناول اور افسانے لکھے ہیں۔

ان کے ادبی کام کا ایک بہت بڑا حصہ تراجم پہ مشتمل ہے۔ جن میں ہندی سے اردو، پنجابی سے اردو اور اردو سے ہندی زبان میں تراجم بڑے کمال کے ہیں۔ وکرم جی نے قرۃ العین حیدر کے معرکۃالآرا اور کسی حد تک متنازعہ ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کا ہندی میں ترجمہ کیا اور سعادت حسن منٹو کے تحریر کردہ خاکوں پہ مبنی کتاب کا ترجمہ بھی 2001ء میں کیا۔ انھیں ان کے ادبی کاموں پر بہت سے اعزازات اور انعامات بھی مل چکے ہیں، جو بلاشبہ صرف اور صرف ان کے ادبی مرتبے اور کام کو مدنظر رکھ کر دیے گئے ہیں۔

نند کشور وکرم 17 ستمبر 1929ء کو راولپنڈی (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ یہ آج بھی اپنے محلے بھابھڑا بازار اور صرافہ بازار کے عقب میں واقع محلہ نہال سنگھ کو نہیں بھولے۔ میٹرک تک انھوں نے اپنی تعلیم راولپنڈی ہی میں مکمل کی۔ نند کشور وکرم صرف انسانیت پہ یقین رکھتے ہیں۔

پاکستان سے کوئی بھی ادیب دہلی جائے اور وکرم جی سے ملے بغیر واپس آ جائے یہ ممکن ہی نہیں۔ اور جو ایک بار مل گیا ان کا ایسا گرویدہ ہوا کہ ’’ایک بار ملا ہوں اور دوبارہ ملنا چاہتا ہوں، بلکہ بار بار ملنا چاہوں گا۔‘‘ والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ انسانیت اور انسانوں سے پیار ہے۔ پانی تو پانی ہی رہے گا بس شکلیں بدل جاتی ہیں، کبھی برف بن کر اور کبھی اولوں کی شکل میں۔ پانی گلاس میں پیا جائے یا اوک سے۔ مقصد تو پیاس بجھانا ہی ہے۔ خواہ مٹی کا پیالہ ہو یا بلوریں جام۔

’’کچھ دیکھے کچھ سنے‘‘ میں کل 22 خاکے ہیں جن میں سب سے پہلا خاکہ  احمد ندیم قاسمی کا ہے۔ ان کے علاوہ حبیب جالب، استاد دامن، شورش کاشمیری، محمد طفیل اور منیر نیازی کے خاکے بھی شامل ہیں یوں تو تمام خاکے انتہائی دلچسپ اور سادہ زبان میں تحریر کیے گئے ہیں لیکن ایک خاکہ ایسا بھی ہے جو قاری کو رُلا دیتا ہے۔ پڑھنے والا اگر وہ صاحبِ دل ہے تو بار بار آبدیدہ ہوتا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ کوئی انسان اتنا بھی بدقسمت ہو سکتا ہے کہ جتنے ممتاز نام اور نقاد اور فکشن رائٹر دیوندر اسّر۔ ان کا جو حشر ان کے سگے بیٹوں نے کیا، ویسا تو کوئی دشمن بھی شاید نہ کرے۔

دیوندر اِسّر کی پیدائش بھی حسن ابدال پاکستان کی تھی۔ وہ وکرم جی سے ایک سال بڑے تھے۔ ان دونوں نے زندگی کا زیادہ تر وقت اکٹھے گزارا۔ وکرم جی اپنے دوست کو ہمزاد کہا کرتے تھے۔ لیکن انھیں اپنے اس ہمزاد کی موت کی خبر تک نہ ہوئی۔ انتقال کے کئی دن بعد جب وہ ان کی خیریت پوچھنے ان کے گھر گئے تو بیٹوں کا رویہ بہت مشکوک اور جارحانہ تھا۔ جب وہ ان کے بڑے بیٹے سے شکوہ کرتے ہیں کہ ان کی موت کی خبر انھیں کیوں نہ دی۔ تو بیٹا نہایت رکھائی سے جواب دیتا ہے کہ:

’’کیوں اطلاع دیتا آپ کیا ہمارے رشتے دار ہیں؟‘‘

اِسّر صاحب کی وفات 6 نومبر 2012ء کو ہوئی۔ لیکن نہایت پراسرار عالم میں۔ کسی کو اطلاع نہیں دی گئی۔ حتیٰ کہ ان کی سگی اکلوتی بہن تک کو ان کی وفات سے بے خبر رکھا گیا۔ پورے دس دن بعد بہن کملیش کو 15 نومبر کو معلوم ہوا کہ بھائی مر چکا ہے۔ ان کی چتا کو کہاں آگ دی گئی، کون سے شمشان گھاٹ میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں، کسی کو کچھ نہیں معلوم، اور نہ ہی دونوں بیٹے بتانے پہ آمادہ تھے۔ پورا خاکہ پڑھ کر انسانیت اور اولاد پہ سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ خاکہ آج کا نوحہ ہے۔

اسّر صاحب نے غیر برادری کی لڑکی سے خاندان کی مخالفت سے شادی کی تھی۔ لیکن وہ بدنصیب ان کی قدر نہ کر سکی۔ آئے دن کے جھگڑے یہاں تک پہنچے کہ طلاق تک نوبت آ گئی۔ وہ بدبخت اِسّر صاحب کو مارا بھی کرتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے پریشر ککر اٹھا کر ان پہ پھینک دیا جس سے ان کی کلائی کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا تھا۔

اسّر صاحب کی ناگفتہ بہ حالت سے ان کے قریبی دوست بہت پریشان تھے، تقریباً دو سو گز کے مکان پہ بیٹے قابض تھے نہ صرف ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں ان کا پلنگ پڑا تھا، بیٹے ہر آنے جانے والے پہ نظر رکھتے تھے۔ ان کی حالت بہت ابتر تھی۔ ایک بار کسی دوست نے ہمت کر کے پوچھا ’’آپ کو ایسے تشویش ناک حالات کے کارن آخری وقت میں بڑی پریشانی ہو گی۔‘‘ تو انھوں نے جواب دیا ’’آخری وقت۔۔۔۔ میرے مرنے کے بعد میرا کوئی مسئلہ نہیں۔ اول تو میرے رشتے دار مجھے ٹھکانے لگا دیں گے۔ اگر وہ نہیں لگائیں گے تو جب میرے کمرے میں سڑاند پیدا ہو گی تو محلے والے میرا انتم سنسکار کر دیں گے اور اگر بالفرض محال وہ بھی تیار نہ ہوئے تو میونسپل کارپوریشن والے اس کام کو سر انجام دے دیں گے۔‘‘

سچ کہا ہے کسی نے کہ نیک اور وفادار عورت ایک تحفہ ہے لیکن بدقسمتی سے بے شمار بدنصیب اور قابل رحم اس سماج میں ایسے بھی ہیں جو بدبخت اور چالاک عورتوں کے ہاتھوں زندگی سے عاجز ہیں۔ بچے ہو جائیں تو ایسی عورتیں اور شیر ہو جاتی ہیں۔ اور شریف مرد بچوں کی زنجیر گلے میں ڈالے ساری زندگی ایسی عورتوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتا رہتا ہے۔

اس مجموعے میں سردار جعفری، ساحر ہوشیار پوری، دیوندر ستیارتھی، صابر دت، کیلاش ماہر، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، مجاز، اور دیگر لوگوں کے شخصی خاکے موجود ہیں۔ دیوندر ستیارتھی کا خاکہ بھی بڑی سچائی سے لکھا گیا ہے، بڑا ہی دلچسپ خاکہ ہے۔ جس میں ستیارتھی کا جنون کی حد تک ملک کے کونے کونے میں جاکر لوگ گیت جمع کرنے کی کاوش نظر آتی ہے۔ ان کے اس غیر معمولی کام کو گاندھی جی نے بھی سراہا تھا۔ انھوں نے بیس سال تک پورے ہندوستان میں گھوم کر پرانے لوک گیت جمع کیے اتنا بڑا ذخیرہ کسی اور نے نہیں اکٹھا کیا۔ ایک بار ان پر اداسی اور مایوسی کا ایسا دورہ پڑا کہ خودکشی کی طرف مائل ہو گئے۔

تب علامہ اقبال نے انھیں سمجھایا اور مایوسی کی دلدل سے نکالا۔ وکرم جی لکھتے ہیں۔ ’’اس مایوسی کے دور میں اگر علامہ اقبال نے سمجھا بجھا کر راہ راست پہ لانے کی کوشش نہ کی ہوتی تو ممکن تھا کہ انھوں نے لاہور کے نیلے گنبد کے چوک میں خودکشی کر لی ہوتی۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ ستیارتھی جی کو اپنے بے مثال کام کی وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی انھیں توقع تھی۔ اسی لیے شدید مایوس ہو کر زندگی ختم کرنے کی ٹھان لی تھی۔ سچ ہے انسان کی محنت کی پذیرائی نہ ہو تو وہ اندر سے مر جاتا ہے۔ لیکن کچھ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ زندگی ہی سے چھٹکارا پانے کی سوچنے لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔