صوفیائے کرام کی زمین لہو رنگ

نسیم انجم  اتوار 15 فروری 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج صوبہ سندھ کا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کا دل کراچی لہو لہو ہے، چپہ چپہ خون سے سرخ ہے،کوئی نہیں جانتا کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت محمد بن قاسم کے فتح کردہ سندھ کا یہ حال ہوگا کہ اس سرزمین کے مکین سکھ کے لیے ترسیں گے، حفظ و امان کے متلاشی ہوں گے، گھروں سے نکلتے ہی خوف و ہراس ان کا مقدر بنے گا یہ صوفیائے کرام اور ولیوں کی سرزمین ہے، ان بزرگان دین کی تعلیمات نے بستیوں بستیوں ایمان کی روشنی کو پہنچایا اور کفر و باطل کی قوتوں کو پسپا کیا۔

یہ وہ ہی سندھ ہے جس کی تہذیب تقریباً پانچ ہزارسال قبل بے حد عروج پر تھی، وادی سندھ میں ہزاروں بستیاں آباد تھیں اورایک ہزار میل سے زیادہ وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھیں، ان بستیوں میں باقیات کی دریافت کے اعتبار سے موئن جو دڑو، ہڑپہ، چھنودارو، علی مراد، کوٹ ڈیجی اور دوسری کئی جگہیں بہت اہم تھیں لیکن کھدائی کے بعد وادی سندھ کی تہذیب کو تشکیل کیا گیا، یہاں کے باشندے بے حد مہذب تھے اور انھوں نے اپنی گزر بسر کے لیے تمام آسائشیں مہیا کر رکھی تھیں، حمام، گھر، محلات، کنوئیں، سڑکیں، عبادت گاہیں اور مکتب وغیرہ، ان کا ایجاد کیا ہوا رسم الخط آج تک پڑھا نہیں جاسکا ہے۔

کہ کون سی زبان بولتے تھے، یہ ماتا دیوی کی پوجا کرنے والے لوگ تھے، ان لوگوں کا صناعی میں بھی کوئی جواب نہیں تھا، لیکن تاریخ نے جب کروٹ بدلی تو جنگجو آریوں نے برصغیر کے تہذیب یافتہ حصے پر قبضہ جمالیا اور پرامن باشندوں کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ آریوں کے دو دور بے حد مشہور رہے ایک ویدک دور تو دوسرا دور شجاعت، جیسا کہ ان کے ناموں سے ظاہر ہے کہ ویدک دور امن و سکون کا تھا۔ اسی میں چاروں ویدوں کی تصنیف ہوئی ترتیب یہ ہے رگ وید، ہیجر وید، اتھروید اور سام وید کی تصنیف عمل میں آئی دوسرے میں جنگیں لڑی گئیں، ان میں ’’مہا بھارت‘‘ جنگ کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔

رامائن اور مہابھارت کی تصانیف اسی دور میں انجام کو پہنچیں، ستّی اور سوئمبر کی رسوم بھی اسی زمانے میں شروع ہوئیں ان دونوں رسموں کا انڈین فلموں میں آج بھی عمل دخل ہے اور حقیقی زندگی میں گاؤں دیہات میں ان رسوم پر عمل کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہب کی بنیاد بھی اسی دور کی ہے۔ جین اور بدھ مذہب، موریا خاندان ’’اشوک‘‘ گپتا خاندان بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ خاندان مذہب اور مذہب کے حوالے سے اپنے ساتھ عدل و انصاف اور سیاسی نظم وضبط لے کر آئے۔ موریا خاندان پاک و ہند کا پہلا خاندان تھا جس نے ملک میں سیاسی استحکام قائم کیا ۔اشوک بھی اسی خاندان کا مہاراجہ تھا، اس کا نظریہ بادشاہت ملک کی رعایا کے لیے خوشحالی اور اطمینان کا باعث تھا اس کا کہنا تھا کہ جس طرح گھرانہ خوش ہے اسی طرح میری رعایا کو بھی ضروریات زندگی کی ہر چیز میسر ہونی چاہیے۔ گپتا خاندان نے عدل اور فتوحات کے ذریعے نام کمایا اور ہندو نشاۃ ثانیہ کا وجود عمل میں آگیا، اسی وجہ سے گپتا خاندان کے کمزور حکمرانوں کو بیرونی حملہ آورہوں نے اپنا نشانہ بنایا اور انھیں تباہ و برباد کردیا۔

اسلام سے قبل ہی عرب دور دراز کے ملکوں سے تجارت کیا کرتے تھے، پاک وہند کے ساحلی علاقوں میں عرب رہائش پذیر ہوتے، پاک وہند کے راجا و ماہراجاؤں کے لیے گھوڑوں کی فراہمی ان کی سب سے بڑی تجارت تھی، مسلمان تاجروں نے اپنی دیانت داری کے باعث غیر مسلموں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ  کی رحلت کے بعد حضرت عمرؓ نے ایک لشکر پاک و ہند کے ساحلی علاقے کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا تھا، لیکن اخراجات کے مدنظر اسے پیش قدمی سے روک دیا دوسرا لشکر خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بھیجا گیا۔

اس کی قیادت عبداللہ بن عمر ربیع نے کی انھوں نے کرمان اور سیستان کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد مکران اور سندھ کے راجاؤں کی متحدہ افواج کو شکست فاش سے ہمکنارکیا، حضرت عثمانؓ کے ہی عہد میں ایک جماعت حاکم بن جبالہ کی قیادت میں روانہ ہوئی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ تسخیر ہند ممکن ہے؟ لیکن اس جماعت نے بتایا کہ وہاں پانی کی قلت پھل بدذائقہ اور قزاق دلیر اور بکثرت ہیں اگر وہاں مختصر فوج بھیجی گئی تو فتح ممکن نہیں اور اگر زیادہ فوج جاتی ہے تو پیاسی مر جائے گی، چونکہ اللہ کا حکم نہیں تھا لہٰذا تسخیر ہند کا ارادہ اور منصوبہ ملتوی کردیا گیا۔

سندھ کی فتح تو اللہ تعالیٰ نے محمد بن قاسم کی قسمت میں لکھ دی تھی جس وقت محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا اس وقت اس کی عمر سترہ سال تھی اور وہ فارس کا حاکم تھا۔ دیبل کے محاصرے کے وقت مقامی لوگوں کو ملاکر تقریباً 18 ہزارسپاہی تھے منجنیقوں کی مدد سے پتھر برسائے گئے جونہی مندر کا کلس ٹوٹا اور ساتھ ہی جھنڈا بھی نیچے آگرا تو ان حالات میں اہل شہر ہمت ہار بیٹھے اور مسلمان بہت سی رکاوٹوں اور مخالفت کے باوجود قلعے کی فصیل تک پہنچے اور قبضہ کرلیا، سندھ کے دارالحکومت راور کے مقام پر دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا، راجہ داہر ایک بڑے لشکر کے ساتھ سفید ہاتھی پر سوار ہوکر آیا تھا لیکن اسے مسلمانوں کی دلیری اور حکمت عملی کی وجہ سے بری شکست کا سامنا کرنا پڑا، حالات محمد بن قاسم اور ان کی افواج کے حق میں ہوگئے۔ راجہ داہر کے وزیر سی ساکر کو اطاعت کرنی پڑی اور وہ عرب عورتیں بھی واپس کردیں جنھیں سندھ کے قزاقوں نے جہاز سے گرفتار کیا تھا۔ اس طرح مسلمان فتح یاب ہوئے ۔

اسی سندھ کی سرزمین پرحضرت لال شہباز قلندرؓ نے اپنے علم وتقویٰ کی بدولت  لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی  اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان بستیوں جو شرک والحاد  کے جنگل میں گم تھیں وہ اللہ کی واحدانیت اور حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئیں اور ایمان کا اجالا دور دور تک پھیل گیا،حضرت بابا فریدگنج شکرؒ، حضرت جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشتؒ اور حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ نے آپؒ کی جس کرامت سے متاثر ہوکر ’’شہباز‘‘ کا لقب دیا تھا اس کا مختصر ذکر یہ ہے کہ ان کے کسی مرید کو ناحق پھانسی دی جا رہی تھی، حضرت لال شہباز قلندر سفر میں تھے اچانک انھیں اپنا مرید یاد آگیا۔ انھوں نے حالت استغراق میں اسے دیکھا کہ سپاہی اسے کھینچے لیے جا رہے ہیں ۔ پھانسی گھاٹ کی طرف، اسی دوران یکایک مغرب سے سیاہ آندھی اٹھی اور تاریکی پھیل گئی، گرد و غبار صاف ہونے کے بعد سپاہیوں نے دیکھا کہ قیدی غائب ہے۔ قلندر کے اس روحانی تصرف کو جاننے کے بعد ان کے ساتھیوں نے انھیں اس لقب سے نوازا۔

سندھ وہ دھرتی ہے جہاں حضرت سچل سرمستؒ کا جنم ہوتا ہے حضرت سچل سرمستؒ کا شمار سندھ کے مشہورصوفیائے کرام میں ہوتا ہے اسی مقام پر عبداللہ شاہ غازی، شاہ عبداللطیف بھٹائی نے دین کے پیغام کو عام کیا۔ نفرت اور تعصب کی فضا کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حضرت سچل سرمست کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا آپؒ سندھی زبان میں مرثیہ کے بانی تھے۔ آپؒ کے اشعار کی تعداد مرزا قلیچ بیگ کے مطابق 9 لاکھ 36 ہزار 6 سو کے قریب ہے۔

سندھ پر بے شمار حکمرانوں کی حکومت رہی، عوام خوشحال بھی رہے اور بد حال بھی، اس کی وجہ پاکستان کی بدقسمتی ہی ہے کہ ایسے حکمران میسر نہیں آئے جو پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرتے۔

اگر سندھ کا حال برا اور زوال یافتہ ہے تو بلوچستان کے حالات بھی بے حد بگڑچکے ہیں، پنجاب کے مکین بھی، زندگی کی سہولتوں کو ترس گئے ہیں، ظلم وجبر کی چکی میں صبح و شام پس رہے تھے، حاکم وقت کو تعیشات زندگی سے فرصت نہیں، مقتدر حضرات اپنی کرسی سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں، آج تھر میں بھوک و افلاس کا رقص ہے، سیکڑوں معصوم پھول مرجھا چکے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

یہ محمد بن قاسم کا فتح کردہ وہی سندھ ہے، جس نے تھوڑے ہی عرصے میں سندھ کا نقشہ بدل دیا تھا کہ تاریخ اس کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ بلاذری جیسے مورخ نے تحریر کیا ہے جب محمد بن قاسم سندھ سے رخصت ہوا تو ہندو رو دیے اور اہل کیرچ نے تو اس کا بت بناکر پرستش شروع کردی۔ موجودہ حالات میں اکثریت بھی نوحہ کناں ہے اور اقلیت بھی غمزدہ ہے کہ کسی کی داد رسی کرنے والا نہیں؟ہزاروں لوگوں کے گھر اجڑگئے قتل وغارت اور افلاس نے لوگوں کو مقتولین کے لواحقین کو جیتے جی مار دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔