وقت میرے حصے کا

رفیع الزمان زبیری  اتوار 15 فروری 2015

1993 میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور یوسف گیلانی قومی اسمبلی کے اسپیکر مقرر ہوئے۔ وہ اپنا پرسنل اسٹاف ساتھ لے کر آئے۔ ان میں گیلانی  کے پرائیویٹ سیکریٹری ادریس اور اسٹاف آفیسر خاکوانی تھے۔ بعد میں وہ اور بھی افسران باہر سے لائے۔ یہ نیشنل اسمبلی سیکریٹریٹ کو کنٹرول کرتے تھے۔ جسٹس ایس اے ربانی جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ ایک دن جب سیکریٹری صاحب باہرگئے ہوئے تھے، ایک شامی صاحب جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے اپنے تقرر کا لیٹر لے کر جسٹس ربانی کے جو جوائنٹ سیکریٹری تھے، پاس آئے جسٹس ربانی نے کہا کہ جوائنٹ سیکریٹری کی تو کوئی پوسٹ خالی نہیں ہے۔ شامی صاحب یوسف گیلانی کے گھر چلے گئے۔

گیلانی صاحب نے جسٹس ربانی کو فون کیا کہ انھیں تو ہم نے مقررکیا ہے۔ ربانی نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ جوائنٹ سیکریٹری کی تو کوئی پوسٹ خالی نہیں ہے۔ گیلانی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ لیٹر لے کر رکھ لیں میں آکر کچھ کروں گا۔ دوسرے دن وہ آئے تھے انھوں نے شامی صاحب کو جوائنٹ سیکریٹری بنانے کے لیے جسٹس ربانی کو ایڈیشنل سیکریٹری بنا دیا۔

جسٹس ایس اے ربانی کو حکومت کے تینوں شعبوں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کو قریب سے دیکھنے اور ان میں کام کرنے کا موقع ملا اور اس قسم کے بہت سے واقعات سے ان کا واسطہ پڑا۔ اپنی سوانح حیات ’’وقت میرے حصے کا‘‘ میں انھوں نے ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔جسٹس ربانی کا بچپن بڑی پریشانیوں میں گزرا۔ وہ چھ برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ وہ ضلع سہارنپور کے ایک چھوٹے سے شہر رڑکی میں حکمت کرتے تھے۔ ربانی سے بڑی ایک بہن اورایک بھائی تھا۔ اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔ ’’ہماری والدہ دیہات کی ایک سیدھی سادی خاتون تھیں۔ وہ نہ محرومی کے حالات کا مقابلہ کرسکتی تھیں اور نہ ہماری پرورش کے ذرائع تلاش کرسکتی تھیں نتیجتاً ہم در بدر ہوگئے۔‘‘

اسی دربدری کے زمانے میں وہ 1951میں پاکستان آگئے۔ اس وقت ان کی عمر بارہ سال تھی۔ دہلی سے لاہور پہنچے، پھر پشاور اور چند ماہ بعد کراچی۔ یہاں بہت کوششوں کے بعد انھیں ایک سرکاری اسکول میں پانچویں کلاس میں داخلہ مل گیا۔ ان دنوں سینٹرل گورنمنٹ کے قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ اسی اسکول سے انھوں نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔میٹرک پاس کرکے وہ ڈی جی سائنس کالج میں داخل ہوگئے۔ لکھتے ہیں ’’وقت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ گزر جاتا ہے۔ مختلف ادوار اور آزمائشوں پر محیط اسکول کا دور بالآخر گزر گیا۔ میٹرک کے بعد ملازمت کرنا ناگزیر ہوگیا تھا، تعلیم کا سلسلہ روکنے پر بھی دل نہ مانتا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ تعلیم کے ساتھ ملازمت کیسے چل سکے گی۔‘‘

ملازمت ملنا بھی آسان نہ تھی۔ ایک عزیز شام کے ایک اخبارکو فنانس کرتے تھے۔ اس اخبار میں کچھ عرصہ کام کیا، پھر پورٹ ٹرسٹ میں کلرک ہوگئے۔ ان ہی دنوں ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ لکھتے ہیں ’’یہ ملک میں پہلا مارشل لا تھا اس لیے لوگ کچھ حیرانی کے عالم میں تھے لیکن عام طور سے اس کا استقبال کیا گیا۔ جن معاشروں میں اخلاقی قوت کمزور ہوتی ہے ان میں طبعی یا جسمانی قوت کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔‘‘

کالج میں تعلیم اور نوکری کا ایک ساتھ چلنا مشکل تھا۔ بہرحال وقت گزرگیا اور ربانی نے NED سائنس کالج سے بی ایس سی کرلیا۔ ایک اسکول میں سائنس ٹیچر کی ملازمت بھی مل گئی۔ اس اسکول کا ماحول بہت اچھا تھا لیکن پھر کچھ ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اسکول کی ملازمت کے دوران انھوں نے ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا تھا اور پہلے سال کا امتحان بھی پاس کرلیا تھا۔ اسکول سے نکلنے کے ایک ماہ کے اندر ہی انھیں ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ میں سپروائزر کی نوکری مل گئی۔ اس ادارے میں انھیں کئی اچھے لوگ ملے۔

سید احمد ربانی نے پانچ سال سے کچھ زیادہ ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ میں گزارے اور پھر پی سی ایس (جوڈیشل) کا امتحان پاس کر کے جوڈیشری میں چلے گئے۔ ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ کی ملازمت کے دوران انھوں نے ایل ایل بی کیا، کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے اور پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔

سول جج کی حیثیت سے ربانی کی پہلی تقرری حیدر آباد میں ہوئی۔ لکھتے ہیں ’’یہ میری خوش قسمتی تھی کہ وہاں کی بار بہترین تھی جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ میں اس شعبے میں اتنا نیا تھا کہ زندگی میں پہلی دفعہ جو کورٹ میں نے دیکھی وہ اپنی کورٹ تھی۔‘‘

جسٹس ربانی ساڑھے تین سال کے قریب حیدرآباد میں رہے۔ اسی دوران ان کی شادی بھی ہوئی۔ حیدر آباد سے ان کا ضلع لاڑکانہ میں وارہ اور پھر دس مہینے میں کوٹری تبادلہ ہوگیا۔ کوٹری میں وہ ایک سال رہے تھے کہ سینئر سول جج کی حیثیت سے انھیں سانگھڑ بھیج دیا گیا۔ یہاں ڈھائی سال گزار کر وہ لاڑکانہ پہنچے۔ لاڑکانہ سے خیرپور، پھر سکھر، جیکب آباد اور بالآخر ربانی کی پوسٹنگ کراچی میں ہوئی۔

جسٹس ربانی جب جیکب آباد میں تھے تو ہائی کورٹ کے رجسٹرار کا ایک دن فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ نیشنل اسمبلی سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکریٹری کی پوسٹ کے لیے ریکوزیشن آئی ہے کیا تم وہاں جانے کے لیے تیار ہو۔ ربانی نے جواب دیا ’’جیکب آباد پر سندھ تو ختم ہوجاتا ہے، اب اسلام آباد ہی بھجوا دیں۔‘‘

انھیں کراچی آئے ہوئے پندرہ دن ہی ہوئے تھے کہ نیشنل اسمبلی میں تقرری کا خط آگیا۔ 5 فروری 1985 کو انھوں نے چارج چھوڑ دیا اور اسلام آباد چلے گئے۔

جسٹس ربانی کے اسلام آباد جانے کے تھوڑے عرصے بعد نیشنل اسمبلی کے الیکشن ہوگئے۔ فخر امام اسپیکر بنے اور بلوچستان کے جوگیزئی صاحب ڈپٹی اسپیکر۔ جوگیزئی ذہین اور خوش طبع آدمی تھے۔ جب وہ اجلاس کی صدارت کرتے تو ماحول شگفتہ رہتا۔ ایک مرتبہ جب وہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ جاوید ہاشمی نے کھڑے ہوکر شکایتی لہجے میں کہا ’’اسپیکر صاحب! شاید آپ کو میری صورت اچھی نہیں لگتی ہے۔ اس لیے آپ مجھے بولنے کے لیے وقت نہیں دیتے۔‘‘ جوگیزئی صاحب نے فوراً جواب دیا ’’صورت تو ماشا اللہ بہت اچھی ہے، اعمال ٹھیک کرو۔‘‘

جسٹس ربانی جوڈیشری کے شریعہ کورس کے لیے سعودی عرب اور مصر گئے، اس سے پہلے وہ برٹش پارلیمنٹ میں ٹریننگ کے لیے لندن گئے تھے۔ وہ جرمنی بھی گئے پھر اسمبلی کی ایک کمیٹی کے ساتھ دوبارہ جرمنی گئے۔ اس دورے میں انھوں نے جرمنی کے چھ سات شہر دیکھے۔ جرمنوں کے نظم وضبط کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’لندن کے قول کے مطابق جرمن ایسی قوم ہے کہ اگر ان کے ہجوم سے کہا جائے کہ ریلوے انجن پر پتھراؤ کرنا ہے تو وہ پہلے لائن بناکر پلیٹ فارم سے ٹکٹ خریدیں گے اور پھر اندرجاکر پتھراؤ کریں گے۔‘‘

نیشنل اسمبلی میں دس سال سے زیادہ عرصے تک کام کرنے کے بعد جسٹس ربانی ستمبر 1995 میں کراچی واپس آگئے اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لگ گئے۔ دو سال بعد وہ پھر نیشنل اسمبلی میں ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے پر دوبارہ مقررہوگئے۔ اس وقت اسمبلی کے اسپیکر الٰہی بخش سومرو تھے۔ نیشنل اسمبلی میں جسٹس ربانی کا دوسرا دور انیس ماہ پر مشتمل تھا، اپریل 1999 میں ان کو سندھ ہائی کورٹ کا جج بنادیا گیا اور وہ پھر سے کراچی واپس آگئے۔ تین سال بعد وہ ریٹائر ہوگئے۔ اس کے ایک سال بعد جسٹس ربانی نے فیڈرل شریعت کورٹ کے جج کی حیثیت سے پھر حلف اٹھایا۔ شریعت کورٹ میں ان کی تقرری تین سال کے لیے ہوئی تھی جو جون 2006 میں ختم ہوگئی۔

جسٹس ربانی نے اپنی کتاب حیات میں اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے کہ ہمارے ہاں Imagination اور Initiative کا فقدان ہے جب کہ ترقی کا انحصار ان ہی دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’تخیل دور اندیشی کی بنیاد ہوتا ہے اور یہی ایجاد وترقی کی راہ دکھاتا ہے۔ تخیل ذہنی جدوجہد کی ہی شکل ہے اور ذہنی جدوجہد اجتہاد ہے۔ مسلمانوں نے ذہنی جدوجہد چھوڑ کر ساری تگ و دو کتابی علم کی تلاش میں لگا دی اور رفتہ رفتہ مسلمانوں کے لیے تخیل غیر ضروری بن کر ختم ہوگیا اور ان کی صلاحیت فکر ختم ہوگئی۔ یہی ہماری پس ماندگی کی وجہ ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔