کعبے والیا … سن لے دعاواں !!!

شیریں حیدر  اتوار 15 فروری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اپنی دانست میں سال کا وہ وقت چنا تھا کہ جب موسم بھی اچھا تھا اور سوچا تھا کہ رش نہ ہو گا، مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس وقت بھی اتنا رش تھا جتنا کہ اس وقت جب تیرہ سال قبل ہم حج پر گئے تھے، اللہ کی شان ہے، مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور پھر ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جن کے دلوں میں اللہ کا گھر اور اس کے رسولﷺ کے روضے کی زیارت شمع کی طرح روشن ہے۔

ظہر کی نماز کے بعد… عمرہ کر کے مقام ابراہیم پر نوافل ادا کیے اور وہیں ذرا سی جگہ پا کر عربی کے اونٹ کی طرح پسر گئی، نظر کے سامنے دھوپ کی تمازت سے جگ مگ کرتا کعبہ تھا،اس کے نیچے دیوانہ وار گھومتے محبت کی شمعیں جلائے ہوئے پروانے… وہ کونہ بھی میری نظر کی زد میں تھا جس پر حجر اسود تھا، پہنچ سے کوسوں دور!!! چند قدم آگے ’’ملتزم‘‘ جس کے ساتھ لپٹے ہوئے لوگ،جو غالباً کئی گھنٹوں سے لپٹے ہوئے تھے، کوئی ہٹنے کو تیار نہ تھا، جو ایک بار پہنچ گیا تھا اسے ملتزم کو چھو کر اپنی ساری عرضیں اللہ تک پہنچانا تھیں، میری نظر کے عین سامنے، میرے دل میںکتنے ہی لالچ جاگے مگر میں کسی ایسی کوشش کی متحمل نہ ہوسکتی تھی، طواف کے آخری پھیرے میں جو کوشش کر کے کہیں نہ کہیں سے کعبہ کو چھونے میں کامیاب ہو جاتی تو اسی کو غنیمت سمجھتی۔

کعبے پر نظریں جمائے… میرے دل کے نہاں خانوں سے جانے کن کن لوگوں کے لیے دعائیں نکل رہی تھیں، جانے کون لوگ تھے جن کی یاد آئے جا رہی تھی، جن سے زندگی میں کبھی چند لمحوں کا بھی واسطہ رہا تھا، جنھوں نے بالخصوص دعا کے لیے کہا تھا اور وہ بھی جن سے برسوں سے کبھی ملاقات تک نہ ہوئی تھی، وہ بھی جن سے کبھی کوئی خوش گوار یاد وابستہ نہ تھی اور وہ بھی جو دل میں بستے تھے، اپنا ملک، شہر، محلہ، گاؤں، گلیاں، دوست ، رشتہ دار، احباب، ہمسائے جانے کون کون لوگ تھے جو تصور میں قطار بنائے کھڑے تھے اور دل سے ان کی لیے دعائیں نکلے جا رہی تھی، مجھے یقین تھا کہ کعبے کا مالک، اس وقت میری دعاؤں کو بالخصوص سن رہا تھا، یہی یقین ہم میں سے ہر شخص کے دل میںتھا، اس نے اپنے گھر پر مہمان کیا تھا تو اس کی ساری توجہ تو ہماری طرف تھی ہی نا۔

میں بہت سوچ اور سنبھل کر مانگ رہی تھی، اسے یہ بھی نہ لگے کہ میں اتنی لالچی ہوں کہ مانگے جا رہی ہوں، اس کا کروڑوں اربوں شکر بھی بجالانا لازم ہے ، ان لاکھوں نعمتوں پر جو ہمیں حاصل ہیں اور ان کا ہمیں احساس تک نہیں، ہم ایک ایک سانس کے لیے اس کے زیر احسان ہیں ’’ ہمیں اپنا شکر گزار بنا!!‘‘ میں نے دل سے دعا کی، یہ کیا کہ ہم مانگے جاتے ہیں، ’’ اپنا عبادت گزار بنا!!‘‘ جس مقصد سے دنیا میں آئے ہیں کم از کم اس کی توفیق تو ہو۔ سر دھوپ سے تپ گیا تھا مگر جگہ ایسی ملی تھی کہ اٹھ جاتی تو دوبارہ ایسی جگہ نہ ملتی جہاں نظر کی عین سیدھ میں کعبہ اور دماغ میں کعبے کا مالک تھا، عصر کی اذان تک ماحول اور بھی تپ گیا تھا مگر لگن نے بٹھا رکھا تھا۔ غالباً میرے ساتھ بیٹھی عورت کچھ گنگنا رہی تھی ، میں نے غور کیا تو مبہم سی سمجھ آئی۔

’’ باجی آپ کہاں سے آئی ہیں ؟ ‘‘ ایک آواز نے پنجابی میں سوال کیا، میں نے ساتھ بیٹھی خاتون کو دیکھا، ’’ میں ملتان سے آئی ہوں !! ‘‘ اس نے اپنا محل وقوع بتایا۔
’’ میں اسلام آباد سے آئی ہوں ‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’ پہلا عمرہ کیا ہے آپ نے؟ ‘‘
’’ نہیں … میں پہلے بھی کئی بار آ چکی ہوں ! ‘‘
’’ میں نے کافی لوگوں سے پوچھا ہے مگر کسی کو علم نہیں … آپ کو شاید پتا ہو!!‘‘
’’ کیا پوچھنا ہے آپ کو؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
’’ باجی عرضیوں والا ڈبہ کہاں ہے؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ کون سا ڈبہ؟ ‘‘ میں کچھ نہ سمجھی تھی۔

’’ جس میں اللہ کے لیے دعاؤں کی عرضیاں ڈالتے ہیں اور ’وہ‘ اس کے بعد پہنچاتے ہیں؟ ‘‘ وہ سے جانے اس کی کیا مراد تھی، میں اسے تکنے لگی۔

مشقت کی چکی پیستے ہوئے ہاتھ، بے جوتوں چلنے کے باعث پھٹی ہوئی ایڑیاں، سستے لباس میں سے آتی ہوئی ناگوار مہک ’’ میرے چھ بیٹے ہیں ، سب بے روزگارہیں، چار بیٹیاں ہیں… کسی کی شادی نہیں ہوئی ابھی تک، غربت میرے گھر پر مستقل ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے!!‘‘ اس کی آنکھیں تو لبریز ہوئیں ساتھ ہی میری آنکھوں میں جگنو چمکنے لگے، ’’ زمین بیچ کر عمرہ کرنے آئی ہوں ، کسی نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری سننے والا نہیں ہے، اس کے گھر پر جا کر اپنی ساری خواہشات بتا کر آؤ، میں نے ساری طلب پرچیوں پر لکھ رکھی ہے، ایک ایک بچے کے حوالے سے… انھوں نے بھی اپنی اپنی ضرورتوں کو کاغذ کی پرچیوں پر لکھ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس ڈبے میں ڈال کر آؤں جو اللہ کے گھر میں رکھا ہے اور اس میں سے ساری پرچیاں سیدھی اللہ تک پہنچتی ہیں ‘‘ وہ رکی اور حیرت سے میرا چہرہ دیکھا، ’’ رو کیوں رہی ہیں آپ، اگر آپ کو نہیں علم تو کوئی بات نہیں، میں کسی اور سے پوچھ لوں گی!!‘‘

’’ یہاں پر پرچیوں کا کوئی ڈبہ نہیں ہے ‘‘ میں کہتے کہتے رک گئی، اسے مایوس کیسے کر دیتی، اس کے فہم میں جو مان تھا اسے کیسے چکنا چور کر دیتی ’’ سارا اسی کا گھر ہے بی بی!!‘‘ میں نے تھوک نگل کر کہا، ’’ یہاں پر آپ جدھر بھی پرچی رکھو گی،ا سے مل جائے گی، جو ڈبہ نظر آئے اس میں ڈال دو، اور ہاں ، اپنی ساری عرضیں اس سے زبانی کہہ دو، وہ زیادہ بہتر طریقہ ہے!!‘‘

’’ زبانی کیسے؟ ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’ وہ سامنے دیکھ رہی ہیں نا اس کا گھر، وہ اسی کے اندر تو ہے، ہم جتنوں کو اس نے اپنے گھر پر بلایا ہے ہم سب کی طرف اس کی توجہ ہے، آپ اس کے گرد چکر لگائیں اوربے دھڑک اس سے سب کچھ کہہ دیں!!‘‘

’’ اونچی آواز میں؟ ‘‘ اس نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔

’’ ضروری نہیں، آپ دل میں سوچیں گی تو بھی اسے علم ہو جائے گا، مگر آپ اتنی آواز میں بولیں جو صرف آپ کو سنائی دے تو بھی کافی ہے… ‘‘ اس نے قدرے بے یقینی سے میری طرف دیکھا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی، جانے کتنی خواہشوں اور ضرورتوں کے گلے گھونٹ کر وہ یہاں آئی تھی، زمین کے جس ٹکڑے کو بیچ کر وہ یہاں اپنی عرضیں سنانے آئی تھی وہ جانے اس کا کس حد تک اہم ٹکڑا تھا ’’ میرے سوہنے رب!!!‘‘ میں نے ہاتھ اٹھائے، تو بے نیاز ہے، تیری محبت تو ہم سے لا محدود ہے پر تو اس عورت کا یقین دیکھ ، اس کا تجھ پر مان دیکھ، اس جہالت کی بستی سے آئی عورت پر رحم کر میرے مولا، اس نے کبھی کسی اور ضرورت کے لیے زمین بیچنے کا نہیں سوچا ہو گا مگر جب کسی نے اسے بتایا کہ تو صرف یہاں آنے والوں کی سنتا ہے تو وہ اس عقیدے پر، باقی سب کچھ بھول بھال کر یہاں آ گئی ہے۔رب کائنات، دو جہانوں کے مالک و خالق، تیرے خزانے میں کوئی کمی تو نہیں جو تو اس کا پھیلا ہوا دامن بھر دے، اسے اس کی اسی سادگی اور معصومیت پر نواز دے کہ اس ڈبے کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے جو تجھ تک پہنچایا جاتا ہے،مجھے توفیق دے کہ میں اس کے لیے کچھ کر سکوں !!‘‘

میرے دماغ میں خیال آیا کہ میں اس کا اتا پتا پوچھوں ، پلٹ کر دیکھا تو وہ غائب ’’ہاہ‘‘ مجھے شدید تڑپ کا احساس ہوا، غالباً وہ اپنی پرچیاں کسی ڈبے میں ڈالنے چلی گئی تھی۔ میرے آنسو اور بھی تواتر سے بہہ رہے تھے، جانے کتنی ہی ایسی سادہ دل اور ضرورت مند ہوں گی جن کے لیے زندگی مشکل ترین ہو کر رہ گئی ہے اور ان کے دلوںمیں سوائے اللہ کے کسی اور سے امید نہیں رہی۔ میں اس کے لیے بارہا دعائیں کرتی رہی، اللہ اس کی مشکلات آسان کرے۔ میرے کانوں میں اس کی آوازگونجتی ہے، جو وہ گنگنا کر کہہ رہی تھی، ’’ کعبے والیا ، سن لے دعاواں !!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔