اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

اوریا مقبول جان  پير 16 فروری 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اسلام کا المیہ یہ ہے کہ جس کسی نے اس پر انگلی اٹھائی،اس میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی،فرقہ بندی اور گروہی اختلافات کا آغاز کیا،اس نے کبھی اسلام کے عقائد پر طعن زنی نہیں کی،کبھی قرآن و سنت کے اصولوں پر بحث کو نہیں چھیڑا بلکہ اسلام کو رسوا کرنے کے لیے ہمیشہ تاریخ کا سہارا لیا۔ اس امت کے سب سے بڑے اختلاف شیعہ سنی مسالک کو لے لیجیے،اس کی بنیاد عقائد نہیں،تاریخ ہے۔ آج بھی اسلام کو بدنام کرنا ہو تو مسلمانوں کی تاریخ اور کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔

ڈاکٹروں کی اکثریت اگر ناکام اور بددیانت ہو تو کوئی میڈیسن کے علم کو بے کار نہیں کہتا،یہاں تک کہ جمہوریت کی کوکھ سے بدترین آمر اور بددیانت وزراء بھی جنم لے لیں پھر بھی کوئی جمہوری نظام کو برا نہیں کہتا بلکہ افراد پر الزام رکھتا ہے۔ لیکن یہ سلوک صرف اسلام کے ساتھ ہے کہ کوئی مسلمان اگر ناپسندیدہ عمل کر دے تو بڑے سے بڑا دانشور بھی پکار اٹھتا ہے، ’’یہ ہے ان کا اسلام‘‘۔

مغرب نے جہاں دین کو پرکھنے کے لیے ہمیں بددیانت اور متعصب تاریخ دانوں کی تاریخ پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالی ہے،وہیں انھوں نے ہمیں اپنی اصطلاحات سے دور کر کے اپنے جدید مغربی سیکولر تہذیب کے اداروں،قومی ریاست،سیکولر جمہوریت اور عالمی اداروں یعنی اقوام متحدہ جیسے تصورات کو اسلام کے ماضی سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس کے لیے صرف اور صرف تاریخ کا سہارا لیا ہے۔

ایسی ہی ایک تازہ ترین کوشش ایک ایسے صاحب علم کی جانب سے کی گئی جن کا مجھے ایک سال کے لیے جبراً شاگرد ہونا پڑا۔ میں نے ’’جبراً‘،کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ جب اکتوبر 1984ء میں سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں ٹریننگ کے لیے سول سروس اکیڈمی میں آیا تویہ صاحب ہمیں اسلامیات، جسے انگریزی میں اسلامک اسٹڈیز کہتے ہیں، پڑھاتے تھے۔ ان کی جوانی ادھیڑ عمر میں داخل ہو رہی تھی اور میں عنفوان شباب میں تھا۔ ان صاحب نے اپنے تازہ مضمون ’’اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ‘،میں قرآن و سنت سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ سے قومی ریاست کے موجودہ تصور کو اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور مغربی جمہوریت کی اساس،عالمی اقوام متحدہ جیسی اسلامی اقوام متحدہ کا تصور پیش کیا ہے۔

موصوف لکھتے ہیں ’’جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے،وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں‘‘، پھر کہتے ہیں ’’نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا حکم ہے‘،اور آخر میں تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے دین کی تشریح یوں پیش کی ہے،’’پہلی صدی ہجری کے بعد ہی جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا ان کے درمیان موجود تھے،ان کی دو سلطنتیں،دولت عباسیہ اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہو چکی تھیں،اور کئی صدیاں قائم رہیں،مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا‘‘۔

ان صاحب نے جس طرح پوری امت مسلمہ کی تاریخ کو اپنے اس فقرے میں سمو کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ  نسلی جانشینی کے ساتھ قائم ہونے والی ملوکیت جو بعد میں عباسی اور اموی،ان کے علم کے مصداق،’’قومی ریاستوں‘‘کی صورت وجود میں آ گئی تھیں وہ شرعی تھیں۔ لیکن اپنے اس تصور کے ساتھ ہی انھوں نے چودہ سو سال کے مسلم فقہا کو بھی شریک کر لیا ہے۔ انھیں تاریخ کی کتابوں سے سیدنا امام حسینؓ کی کربلا سے لے کر امام احمد بن حنبل تک کی قربانیوں،زید بن علی، امام نفس ذکیہ کی شہادتوں کو اپنے اس فقرے سے رد کرنے کا کوئی حق نہیں۔

کاش وہ فقہہ کی وہ کتابیں اٹھا کر دیکھ لیتے تو انھیں سنیوں میں خلافت اور شیعوں کی امامت کی مرکزیت ضرور نظر آتی۔ ان تمام فقہی کتابوں کا ماخذ دونوں مسالک نے قرآن و سنت سے لیا ہے۔ مسلمانوں نے چودہ سو سال میں ایک دن کے لیے بھی ’’سلطان متغلب‘،یعنی جو طاقت کے زور سے حکمران بن جائے،اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ اس کے خلاف اٹھتے رہے،آواز بلند کرتے رہے۔ پوری مسلم تاریخ ہے ان قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے۔ فقہہ تو میرے ’’استاد مکرم‘،ان صاحب کا میدان ہے لیکن میں جسارت کر رہا ہوں انھیں چند اشارے دینے کی جو ہمارے فقہا ایک امارت،ایک خلافت اور ایک مسلم امت کے حق میں شرعی حیثیت میں آغاز سے ہی دیتے چلے آئے ہیں۔

میں جناب حامد کمال الدین مدیر ایقاظ کا ممنون ہوں،جنہوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی کی۔ سیاست شرعیہ پر سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں الماوردی نے قلم اٹھایا جو اپنے وقت کے قاضی القضاۃ تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’جمہور کا مذہب رہا ہے کہ ایک زمانے میں دو اماموں کو مقرر کرنا شرعاً جائز نہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’جب دو امیروں کی بیعت ہو جائے تو ان میں ایک کو قتل کر دو (ادب الدنیاوالدین) ماوردی آگے چل کر تفصیل سے لکھتے ہیں ’’اگر دو مختلف ملکوں میں دو امیروں کو امامت سونپی جائے تو ان دونوں کی امامت منعقد نہ ہو گی کیونکہ ایک وقت میں امت کے دو امام جائز نہیں (احکام السلطانیہ)۔

ذرا اس تصور خلافت کے مآخذ یعنی رسول اللہﷺ کے ارشاد کو دیکھئے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کے معاملات سیاست انبیاء چلاتے تھے،جیسے ہی کوئی نبی دنیا سے جاتا اس کا جانشین نبی ہوتا۔ اب ’’یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے،ہاں خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے‘‘۔ امام نووی نے اس کی شرح میں اجماعِ امت کا مذہب بیان کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔ ’’علماء کا اتفاق ہے کہ ایک زمانے میں دو خلیفے نہیں ہو سکتے خواہ دارالاسلام کا رقبہ بہت زیادہ وسیع ہو یا نہ ہو (شرح مسلم)۔

ابن حزم پانچویں صدی ہجری کے فقیہہ ہیں۔ ان کے نزدیک ’’مسلمانوں پر ایک وقت میں پوری دنیا کے اندر دو امام ناجائز ہیں،خواہ وہ امام اکٹھے ہوں یا متفرق۔ یہ نہ دو الگ الگ جگہوں پر جائز ہیں اور نہ ایک جگہ میں‘،(مراتب الاجماع۔ ابن حزم)۔ حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی تمام مستند فقہی کتابوں میں ایک امت،ایک امیر اور ایک خلیفہ پر ہی اتفاق ہے۔ حنفی فقہ کی کتب (الاشباہ و النظائر لا بن نجیم) اور (غمز عیون البصائر،للحموی) کے مطابق امام ایک زمانے میں متعدد ہونا جائز نہیں جب کہ قاضی متعدد ہونا جائز ہے۔ مالکی فقہہ کی کتاب (حاشیۃ الدسوقی) کے مطابق امام کا متعدد ہونا منع ہے‘‘۔ شافعی مسلک کی کتاب (اسنی المطالب فی شرح روض الطالب) نے تو بات اور واضح کر دی ’’دو یا دو سے زیادہ اماموں کی امارت کا انعقاد جائز نہیں،چاہے خطے میں الگ کیوں نہ ہوں،چاہے خطے دور دور کیوں نہ ہوں۔

حنبلی مسلک کی کتاب  (مطالب اولی النھی) کے مطابق ’’متعدد امام ہونا جائز نہیں‘‘۔ یہ تمام کتب ان مسالک کی بنیادی کتب ہیں اور چودہ سو سالہ فقہی اجماع پر بنیاد رکھتی ہیں۔ لیکن کیا کریں وحدت ملت اسلامی نہ دنیا بھر کے کفر کو اچھی لگتی ہے اور نہ ہی ان مسلمانوں کو جو اس امت کو ایک دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ قومی ریاستیں جو جنگ عظیم اول کے بعد عالمی طاقتوں نے بزور بنائیں،پھر لیگ آف نیشنز کا انھیں ممبر بنا کر 1920ء میں پاسپورٹ کے ڈیزائن کو منظور کیا۔

1924ء میں ویزا ریگویشن بنائے اور پوری دنیا خصوصاً مسلم امہ کو رنگ،نسل و زبان اور علاقے میں تقسیم کر دیا،اس امت کو اگر کوئی متحد دیکھنے کا خواب دیکھتا ہے تو جارج بش اور ٹونی بلیئر جیسے پکار اٹھتے ہیں یہ تو خلافت واپس لانا چاہتے ہیں (The want khalafa Back) یہ تھے وہ الفاظ جو دونوں نے اپنی پارلیمنٹ یا کانگریس میں ادا کیے۔ ملت کفر کو احساس ہے کہ مسلمانوں کو صرف خلافت متحد کر سکتی ہے لیکن میرے’’استاد مکرم‘‘کے نزدیک نہ یہ اسلامی اصطلاح ہے اور نہ مسلمانوں کی تاریخی علامت۔ شاید مسلمان علماء فقہا اور ظالم بادشاہوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے مسلم امہ کے شہیدوں کی تاریخ سے اسقدر لا علمی کسی اور نے برتی ہو گی۔ صاحب بصیرت اقبال یاد آتے ہیں،جب یہ قومی ریاستیں بن رہی تھیں تو اقبال پکار اٹھے تھے  ؎

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کا شانہ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔