تاریخ کا سب سے بڑا جرم

اقبال خورشید  اتوار 15 فروری 2015
iqbal.khursheed@express.com.pk

[email protected]

یہ آسان تو نہیں ہے، مگر میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔

ہاں، میں نے آپ کو معاف کیا۔ اس کے باوجود کہ آپ کی پالیسیوں کے باعث انتہاپسندی کے عفریت نے جنم لیا۔ انتہاپسندی، جس نے ہمیں خون میں نہلا دیا۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوگئیں، بوڑھے اپنے بیٹوں سے محروم ہوئے، اور شہر ویران ہوگئے۔

ہاں، میں آپ کو معاف کرتا ہوں، اس کے باوجود کہ آپ کی غفلت کے باعث شدت پسند میری دہلیز تک آن پہنچے۔ ہمارے بچے قتل ہوئے، درس گاہیں تباہ ہوگئیں، فوجی شہید ہوئے، اور عبادت گاہیں ڈھتی گئیں۔ ہاں، میں نے معاف کیا، اس کے باوجود کہ میرے معاشرے کو فرقہ واریت کو گھن لگا۔ لاؤڈ اسپیکروں سے قہر برسا۔ ایک دوسرے کو کھلے عام کافر قرار دیا جانے لگا، عدم برداشت ختم ہوئی، اور قتل معمول بن گئے۔

جی جناب، میں نے معاف کیا، اگرچہ میری ثقافت ٹھٹھر گئی، فنون لطیفہ کے سر خاموش ہوئے، صحت مند تفریح جرم قرار پائی، بنیاد پرستی نے غلبہ پایا۔ آزادی اظہار پر قدغن لگی، اور سوچنا ممنوع ٹھہرا۔اے اہل اقتدار، صرف مذہبی انتہاپسندی کا سہرا آپ کے سر نہیں، لسانی تقسیم کے پیچھے بھی آپ کی مصلحت پسندی، طبقاتی تفریق کا سبب آپ کی موقع پرستی۔ مگر جناب، میری وسیع القلبی کی داد دیجیے۔ جائیں، میں نے آپ کو بخش دیا۔آج جدوجہد کے دروازے پر رشوت کا پہرا ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں۔ ڈگریاں بے وقعت ہوئیں۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملتی۔

نااہل اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ میرٹ ذبح کر دیا گیا ۔ ہمارے باصلاحیت نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ کل کے معمار اپنے مستقبل کی بابت متذبذب ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بے چینی بڑھ رہی ہے۔ فاقوں کے خطرے نے بہت سوں کو جرائم کی راہ پر ڈال دیا ہے، سسٹم تباہ ہورہا ہے۔ اور قصوروار اہل حکم ہیں، فیصلہ ساز، مسند پر فائز لوگ۔ مگر اس ہولناک معاشرتی بگاڑ کے باوجود میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔

پاکستان کے مسائل کی فہرست دہشت گردی اور بے روزگاری پر تمام نہیں ہوتی۔ یہاں عورت بے توقیر ہے۔ اسے پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ناک کان کاٹ دیے جاتے ہیں، آنکھیں نکال لی جاتی ہیں۔ آبروریزی کے واقعات عام۔ ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل رواج بن گیا۔ کبھی پھندا لگا کر درخت سے لٹکا دیا جاتا ہے، کبھی زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینا عام ہے۔ اسے تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ بے گھری عورت کا نصیب۔ نہ تو باپ کا گھر اس کا، نہ ہی شوہر کے درودیوار اس سے منسوب۔ جیون بھر جدوجہد کرتی ہے، مگر آخر میں بے کار ٹھہرائی جاتی ہے۔ ناقص العقل کہلاتی ہے۔

دھتکاری جاتی ہے۔ اور ان فرسودہ روایات کے لیے، مضر رویوں، ہولناک رجحانات کے لیے ہمارے سردار، جاگیردار اور مذہبی رہنما ذمے دار ہیں کہ ہماری تقدیر ان کے ہاتھوں میں۔ یہ ہمارے مجرم ہیں۔ مگر آج مجھے ان سے شکوہ نہیں۔ میں انھیں معاف کرنے کو تیار ہوں۔جی ہاں، میں اپنے حکمرنوں، رہزنوں، سپاہ گروں، انتہاپسندوں، مفادات پرستوں کی ہر خطا معاف کرنے کو تیار ہوں، چاہے ان خطاؤں کے باعث معاشرہ تباہ ہوا ہو، ریاست کو گھن لگ گیا ہو، اور انسانیت کی تذلیل معمول بن گئی ہو۔ آج ہر خطا معاف ہے۔ البتہ ایک گناہ ایسا ہے، جسے معاف کرنے کی مجھ میں سکت نہیں۔ ایک ایسی خطا، جو امن و امان قائم رکھنے میں ناکامی سے بڑی ناکامی ہے۔

ناقص معاشی پالیسیوں سے زیادہ ناقص، بے روزگاری سے زیادہ گھاتک، اور انتہاپسندی سے زیادہ مہلک۔ خطا، جو ہماری 68 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا جرم ہے!اور یہ گناہ ہے۔۔۔ نصاب کو تباہ کرنا۔ اسے بے توقیر کردینا۔ نگل لینا۔ نصاب سازی میں برتی جانے والی غفلتوں کی کہانی ہولناک ہے۔ ذاتی مفادات کے لیے اس پر نئے نئے رنگ چڑھائے گئے۔ اسے بے چہرہ کر دیا گیا۔ہمارا نصاب، ایک بدحال نصاب ہے، جس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ سکیں، درس گاہیں اپنی اہمیت کھو بیٹھیں، ڈگریاں بے وقعت ہوئیں، اور سماج کھوکھلا ہوتا گیا۔

قومیں اداروں اور معیشت سے نہیں، لیڈروں کے طفیل نہیں، سورماؤں کے سہارے نہیں، صرف اور صرف نصاب کے وسیلے ترقی کرتی ہیں۔ نصاب ہی اساس ہے۔ یہی پہلی اینٹ ہے۔ یہی اولین نقشہ ہے۔ کسی بھی قوم کی تعمیر، کسی بھی ریاست کی ترقی، کسی بھی نظام کی پختگی کے لیے نصاب ہی بنیادی آلہ ہے۔ جرات مند قومیں، حوصلوں کو مہمیز کرتے نصاب سے جنم لیتی ہیں، باشعور معاشروں کے پس پردہ شعورکو جلا بخشنے والا نصاب ہوتا ہے۔ فلاح کی جانب مائل کرنے والا نصاب ہی انسان میں ترقی کی خواہش پھونکتا ہے۔ متوازن نصاب اعتدال پیدا کرتا ہے۔

اگر آج ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے، اخلاقی طور پر ہم پست ہوتے جارہے ہیں، منزل کھو چکی ہے، بے مقصدی عام ہے، اگر آج ہر سوں مایوسی اور کرب ہے، تو اس کا ذمے دار فقط کمزور نصاب ہے، جو سات عشروں سے ہم پر مسلط ہے، جس نے ہم میں قنوطیت بھر دی، مریض بنا دیا، اور ہمیں ترقی سے دور لے جا پھینکا۔کیسا المیہ ہے، ہم چودہ برس تک درس گاہوں میں اردو پڑھتے ہیں، مگر مطالعے کی عادت اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔

گریجویشن تک انگریزی سے سرکھپانے کے باوجود ایک درخواست لکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اتنے برس مطالعۂ پاکستان سے الجھتے ہیں، مگر ریاست کے جغرافیے سے لاعلم ہی رہتے ہیں۔ ہر جماعت میں اسلامیات کا مضمون لازمی، مگر اسلام کی بنیادی تعلیمات آج بھی ہمارے لیے معمہ۔ جو چاہتا ہے، ہانکتا ہوا اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اور ہم ’’اسلام زندہ باد‘‘ کہتے ہوئے اس مرد مومن مرد حق کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ہماری زوال پزیری اور بدبختی اسی نصاب کا عکس، جس پر ہمارامعاشرہ پروان چڑھا۔ اور یہ خستہ حال نصاب ان طبقات کی دَین ہے، جو سات عشروں سے ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔

چہرے بدلتے رہے، لہجوں میں بھی کچھ تبدیلی آئی، لباس کبھی چست، کبھی کھلا؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ ایک ہی گروہ برسراقتدار رہا۔ مفاد پرست گروہ، جس نے کبھی نصاب سازی کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔ بلکہ اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے اسے سبوتاژ کرتا رہا۔ اگر کسی نے قبلہ درست کرنے کی کوشش بھی کی، تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اور یوں ایک بے تاثیر نصاب ہمارا نصیب بن گیا۔یہ ایک ہولناک غلطی ہے۔ ایک ناقابل معافی جرم۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ذمے داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ ان کی جائیدادیں ضبط ہوں، انھیں قیدخانوں میں ڈال دیا جائے۔ سولی پر چڑھا دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔