تقلیدی ترقی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 15 فروری 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ایک دوست نے اپنے دفتر آنے جانے کے لیے ایک چھوٹی سی سیکنڈ ہینڈ کار خریدلی۔ یہ ایک لوئر مڈل کلاس علاقے میں رہتے تھے، جہاں مکانات بھی کوئی 60 یا 80 گز کے تھے، گلیاں بھی تنگ، راستے بھی کشادہ نہیں تھے۔ خیر جب یہ دوست کار خرید لائے اور گھر کے باہر کھڑی کی تو محلے کے بچے بھی جمع ہوگئے۔ ان کے پڑوس میں ایک اور بھی صاحب تھے جو مالی لحاظ سے صاحب حیثیت تو نہ تھے مگر ہمارے دوست کی گاڑی دیکھ کر خود بھی گاڑی خریدنے کا پروگرام بنانے لگے۔

ہمارے دوست سے جب بھی ملتے کہتے ’’ماشا اللہ آپ نے بڑی ترقی کی ہے، اللہ آپ کو اور ترقی دے۔‘‘ خیر یہ پڑوسی ہمارے دوست کی ترقی سے متاثر ہوکر ایک روز بڑی سی سیکنڈ ہینڈ گاڑی لے آئے۔ اب گاڑی بڑی تھی لہٰذا روز گلی کے اندر لا کر دروازے کے باہر کھڑی کرنے میں ان کی اچھی خاصی مشق ہوجاتی اور اسی مشق کے دوران ان کی سیکنڈ ہینڈ گاڑی پر مزید ڈینٹ پڑ جاتے۔ ہر ہفتے گاڑی میں کوئی نہ کوئی کام نکل آتا اور وہ بے چارے مکینک کے پاس اپنی چھٹی کا دن گزار آتے۔

شروع شروع میں تو وہ اپنے رشتے داروں اور محلے داروں کو بھی اپنی ترقی سے متاثر کرنے کے لیے اپنی گاڑی بطور سواری استعمال کراتے مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے اس گاڑی کا استعمال کم کردیا۔ پھر صرف چھٹی والے دن گاڑی نکالنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب گاڑی مہینے میں بھی بمشکل نکالتے۔ آخر کار ایک روز انھوں نے گاڑی پر ’’برائے فروخت‘‘ لکھ کر لگا دیا۔ یوں ایک سال کی مشق کے بعد انھوں نے گاڑی فروخت کردی اور واپس اپنی پرانی سواری موٹرسائیکل پر آگئے۔

ایک روز جب ہمارے دوست نے ان سے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ ’’انسان کو اپنی حیثیت اور اوقات کے مطابق ہی زندگی بسر کرنی چاہیے، ہم نے سوچا تھا کہ چلو گاڑی خریدنے کے بعد ہم بھی دوسروں کی طرح آرام سے سفر کر سکیں گے مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ روز ایک بڑی گاڑی کو تنگ گلیوں، راستوں سے نکالنا، پھر پٹرول کا خرچہ، مینٹیننس کا خرچہ اور چھٹی والے دن مکینک کی منت سماجت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ بس میں نے سوچا کہ ایسی ’’ترقی‘‘ کا کیا فائدہ کہ جس میں انسان کے مسائل پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائیں، سو میں نے گاڑی فروخت کردی۔‘‘

بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اصل ’’ترقی‘‘ تو وہ ہوتی ہے کہ جس میں مسائل کم ہوں اگر کسی ’’ترقی‘‘ میں مسائل بڑھ جائیں تو وہ ’’ترقی‘‘ کیسے کہلائے گی؟ یہ ایک بڑا اہم مسئلہ ہے خاص کر ہمارے ملک میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس نے بڑے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ آج کے اس کالم میں اس اہم مسئلے کا صرف ایک پہلو پہ توجہ دلانے کی کوشش کروں گا اس کے بعد اور بھی بے شمار پہلو ہیں لیکن ہر پہلو پر کم ازکم ایک کالم لکھا جاسکتا ہے۔

اس نام نہاد ’’ترقی‘‘ کا ایک پہلو ہمارے ہاں مغرب کی تقلید میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنا ہے۔ آپ کسی بھی روز اخبار اٹھا کر دیکھ لیں جتنے بھی فلیٹس کے نئے پروجیکٹس کے اشتہارات ملیں گے ان میں دس منزلہ سے زیادہ اونچی عمارتوں کا منظر نظر آئے گا۔ بظاہر تو یہ بڑی خوبصورت بات ہے کہ نئی نئی اسٹائلش عمارتیں خواہ وہ رہائشی ہوں یا شاپنگ سینٹر وغیرہ کی، شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں۔

خوبصورت رنگ و روغن سے چمکتی ہوئیں یہ عمارتیں نہایت دیدہ زیب معلوم ہوتی ہیں اور اب تو اس قسم کی عمارتوں کے پروجیکٹس بڑی تیزی کے ساتھ منظر عام پہ آرہے ہیں اور لگتا ہے کہ کم ازکم کراچی شہر تو ان عمارتوں کے بعد جدید مغربی ممالک کی سی تصویر بہت جلد پیش کر رہا ہوگا۔

خوبصورت اور بلند و بالا عمارتوں کا جنگل یقیناً کسی ترقی یافتہ ملک کی طرح یہاں بھی ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہاں صرف عمارتوں کی موجودگی کا مظاہرہ جدید ممالک کی طرح ہوگا یا کہ ان عمارتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی ان جدید ممالک کی طرح کا انتظام بھی ہوگا؟

اس قسم کی عمارتوں کے لیے صرف صفائی کا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اصل مسئلہ ایمرجنسی کی صورتحال میں پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے قبل ازوقت تیاری اور بروقت مسائل کو حل کرنا بھی ہوتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں اس قسم کے ایمرجنسی مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی ادارہ ہے؟ کتنے ایسے ادارے ہیں جو اس قسم کے مسائل سے بروقت نمٹ سکتے ہیں؟ آئیے چند مثالیں ماضی قریب سے دیکھیں۔

کراچی شہر میں ایک بلڈنگ کی بالکونی میں نوجوان لٹک رہا ہے، مدد کے لیے پکار رہا ہے، بلڈنگ کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا ہے، ٹی وی کیمرے بھی آجاتے ہیں، چینلز لائیو منظر بھی دکھاتا ہے مگر نوجوان کو بچایا نہیں جاتا اور آخرکار سب کے سامنے نیچے گر کر ہلاک ہوجاتا ہے۔ اب ذرا ان ممالک کی طرف آئیں جن کی ’’ترقی‘‘ کی نقالی میں ہم دن رات لگے ہوئے ہیں۔ ایک پہاڑی چوٹی پر برفانی ریچھ پھنس جاتا ہے۔

پہاڑی کے نیچے ڈھلوان کے بعد سمندر کا کنارا ہے۔ امدادی ہیلی کاپٹر آتا ہے، ریسکیو ٹیمیں ریچھ کی مدد کے لیے آتی ہیں۔ ایک بیلٹ باندھ کر ریچھ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے، کچھ ہی لمحوں بعد ریچھ بیلٹ سے نکل کر نیچے پانی میں گر جاتا ہے۔ پھر نیچے پانی میں پہلے سے موجود امدادی کارکن کشتی آگے بڑھا کر ریچھ کو بحفاظت کشتی میں نکال لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو بلدیہ کی فیکٹری میں سیکڑوں ملازمین جل کر مر جاتے ہیں، کہیں پوری ٹمبر مارکیٹ جل کر کوئلہ بن جاتی ہے، کہیں کوئی پرانی عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے، کہیں زلزلے کے پہلے جھٹکے میں مارگلا ٹاور زمین پر سجدہ کردیتا ہے لیکن ان سب حادثات سے نمٹنے کے لیے جدید آلات اور مستند ٹرینڈ عملہ تو کیا فائر ٹینڈر میں پانی تک نہیں ہوتا، ملبہ ہٹانے کے لیے روایتی گیتی اور بیلچے بھی معقول تعداد میں دستیاب نہیں ہوتے، کہیں امدادی عملہ آتا ہے تو کہتا ہے کہ اور انتظار کرو کیونکہ یہاں تو انسان کنوئیں میں گرا ہے ہم تو عمارت سے نکالنے کی تیاری کرکے آئے تھے۔

ان سب واقعات کے باوجود ہمیں سمجھ نہیں آتا ہے کہ ہمیں ایسی بلند و بالا عمارتوں کی ضرورت نہیں بلکہ پہلے سے جو بلند و بالا عمارتیں قائم ہیں ان کے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس شہر میں ایسی عالی شان مسجدوں کی ضرورت نہیں جہاں بیک وقت ہزاروں، لاکھوں لوگ نماز ادا کرسکیں، ہمیں تو ایسے نمازیوں کی ضرورت ہے کہ جن سے چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں نماز فجر میں کم ازکم ایک صف ہی مکمل ہوسکے۔ ہمیں تو ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو ان مسائل سے ایمرجنسی میں احسن طریقے سے نمٹ سکیں۔

ہمیں تو ایسے وفادار اور اچھے انسانوں کی ضرورت ہے جو ایمرجنسی و حادثات کی صورت میں اپنے ادارے کی ساکھ قائم کرسکیں، ہمیں تو حکومتی سطح پر ایسے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے کہ جن سے اس قسم کے ادارے مضبوط ہوں، اور مغرب کے ترقی یافتہ اداروں کی طرح مستند، تیار و کامران ہوں جو نہ صرف بلدیہ کی کسی فیکٹری میں سیکڑوں مزدوروں کو جلنے سے قبل بچا لیں، جو کسی نوجوان کو بلڈنگ سے گرنے کا منظر فلم بند کرنے کے لیے آنے والے میڈیا کے نمایندوں سے پہلے پہنچ کر محفوظ طریقے سے اتار لیں۔

قارئین! آپ خود فیصلہ کریں اور غور کریں خدانخواستہ کسی 15 یا 20 منزلہ عمارت میں لوگ موجود ہوں اور زلزلے کے جھٹکے شروع ہوں تو اس ملک، اس شہر میں کسی بھی ایسی عمارت سے لوگ کیسے فوری طور پر نکلیں گے کہ جب لفٹ کا استعمال خطرناک بھی ہو، بے وقوفی بھی ہو، جب کہ نیچے اترنے کے لیے سیڑھیاں بھی کم اور تنگ ہوں، نیز ایمرجنسی راستوں کا کوئی ذکر ہی نہ ہو۔

کیا راقم کا موقف غلط ہے کہ ہمیں بلند و بالا عمارتوں کے جنگل میں اضافے نہیں، پہلے سے موجود عمارتوں کو محفوظ بنانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی ’’ترقی یافتہ نقل‘‘ کرنی چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔