اپنا گھر اپنی سرزمین…
وہ یہ سب کچھ ہماری بھلائی کی خاطر یا محبت میں نہیں بلکہ خود کو اپنے ضمیر کی ملامت سے بچانے کے لیے کر رہے تھے۔
ہمارا جہاز بادلوں کے اوپر پرواز کررہا تھا۔ مسافروں کے سامنے لگے مانیٹر کی اسکرین پر موجود نقشے میں ہمارا جہاز پرواز کرتے ہوئے پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے کو تھا۔ جوں جوں پاکستان قریب آرہا تھا میرے دل کی دھڑکن تیز اور خوشی کے جذبات بڑھتے جا رہے تھے۔ فجر سے پہلے کا وقت تھا۔ ہم دونوں بھائی تقریباً ساڑھے تین سال بعد امریکا سے واپس پاکستان لوٹ رہے تھے۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہم پاکستان واپس آنے پر بھی کبھی اتنا خوش ہوسکتے تھے۔ ہماری ایسی کیفیت تو امریکا جاتے وقت بھی نہ ہوئی تھی۔
ہم محبت کے احساس میں گھرے اسکرین میں آگے بڑھتے جہاز کو دیکھ رہے تھے۔ جو پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد اپنی منزل کراچی کے روشن نشان کی سمت بڑھتے ہوئے سمندر کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ اسکرین میں اب پاکستان کا معیاری وقت اور باہر کا درجہ حرارت بھی دکھائی دینے لگا تھا۔
کراچی... جہاں ہماری پوری زندگی گزری تھی، جہاں ہم نے ہوش سنبھالا تھا، جہاں کی سڑکوں، بازاروں کو دیکھتے ہوئے ہم بڑے ہوئے تھے، جہاں کے موسموں، ہواؤں اور سمندر نے ہمیں پالا تھا۔ میرے دل کی ایسی حالت کبھی نہ ہوئی تھی۔ مجھے پاکستان کی سرزمین شدت سے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ اپنے وطن، اپنی مٹی کی کشش کیا ہوتی ہے اس کا احساس مجھے امریکا میں گزارے اپنے ان ساڑھے تین سال میں اچھی طرح ہوچکا تھا۔
ہم دونوں بھائی امریکا کے پنجرے کو توڑ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ڈالر، خوبصورت سڑکوں، عمارتوں اور گوری چمڑی کی کشش بالآخر پاکستان کی کشش کے آگے شکست کھا گئی تھی۔ ہم نے اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے گوروں کی غلامی کرنے سے انکار کردیا تھا، اپنے وطن کی خاطر امریکا کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنے سے بغاوت کردی تھی۔ ہم نے اپنی توانائیاں اور زندگیاں اب پاکستان کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
لیکن امریکا میں موجود پاکستانی اور دیگر غیر ملکیوں کی اکثریت ہم جیسی خوش نصیب نہ تھی۔ وہ لوگ پچیس پچیس سال سے اس پنجرے کو توڑ نکلنے کی خواہش کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ ان کے چہرے، ان کے وجود، سوکھے پتوں کی طرح اپنی تروتازگی کھو چکے تھے۔ وہ وہاں فقط چلتی ہواؤں کے رحم و کرم پر ادھر سے ادھر سرکتے پھر رہے تھے۔ ان کی زندگیاں بارہ، سولہ گھنٹے دہاڑی، ساتوں دن کام کرنے والے مزدور کے سوا کچھ نہ تھی۔ وہ تیسرے درجے کے شہری ہونے کے داغ سے خود کو چھٹکارا نہ دلا پائے تھے۔ ان کے دل بھی پاکستان واپس آنے کو ترستے تھے۔
امریکا میں موجود ہمارے دوستوں نے ہم دونوں بھائیوں کی پاکستان واپسی روکنے کی بہت کوشش کی، ہمیں پاکستان کے برے معاشی حالت، امن و امان اور بجلی، پانی، گیس، مہنگائی، لاقانونیت جیسی بلاؤں کے ہمیں دبوچ لینے کے خطرات سے آگاہ کیا۔ ہمیں بے روزگاری کے جن سے ڈرایا۔ پیش گوئی کردی کہ ہم اس غلطی پر بہت پچھتائیں گے۔ لہٰذا ہم پاکستان جانے کی ضد چھوڑ دیں۔ یعنی باقی زندگی وہیں گوروں کی دی ہوئی چھوٹی موٹی حقارتوں اور تعصب کو نظر انداز کرکے اپنی عزت نفس مجروح کرواتے ہوئے ہی گزار دیں۔ ہمارے دوست ،حتیٰ کہ معمولی جاننے والوں کی بھی یہی کوشش ہوتی۔
وہ یہ سب کچھ ہماری بھلائی کی خاطر یا محبت میں نہیں بلکہ خود کو اپنے ضمیر کی ملامت سے بچانے کے لیے کر رہے تھے۔ ہماری واپسی کی صورت میں انھیں اپنے وجود میں دراڑیں پڑتی محسوس ہورہی تھیں۔ وہ ہمیں روکنے کے لیے اتنا زور اس لیے لگارہے تھے کہ ہمارے امریکا کو ٹھکرا دینے کے اعلان نے انھیں شش و پنج میں مبتلا کرکے ان کے ضمیر کے سامنے جواب دہ کردیا تھا۔
ان کے دل کی آواز جو ہمارے امریکا کو Reject کردینے کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے دل و دماغ میں بھی سر اٹھا کر انھیں ملامت کرنے لگی تھی، کہ اگر ہم گوروں کے سامنے جھکنے کے بجائے برابری کی سطح پر رہتے ہوئے عزت سے وطن لوٹ سکتے تھے تو وہ کیوں نہیں۔ وہ خود کو جواب نہیں دے پا رہے تھے۔ چنانچہ ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ کسی بھی طرح ہمیں واپس جانے سے روکیں تاکہ اپنے ضمیر کے اندر ہوتی بغاوت کو روک سکیں۔
ہمارا جہاز کراچی پہنچ گیا۔ ائیرپورٹ کے رن وے پر لینڈ کرنے کے لیے اس کا رخ نیچے کی جانب ہوا۔ رن وے ہمیں دکھائی دینے لگا۔ جہاز تیزی سے نیچے کی جانب جھکنے لگا۔ میرے جذبات مجھ پر غلبہ پانے لگے، میں کھڑکی سے باہر پھیلے فجر کے اجالے کو دیکھ رہا تھا، چند ہی لمحوں بعد جہاز کے ٹائروں نے رن وے کو چھو لیا، ہلکی سی گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی۔ اپنے وجود کو ایک بار پھر پاکستان کی سر زمین پر محسوس کرنے کے احساس سے بے ساختہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم با لآخر پاکستان پہنچ چکے تھے۔
ائیرپورٹ سے باہر آئے تو فجر کا دھندلکا ابھی باقی تھا۔ ہوا میں روحانیت، پاکیزگی اور نم مٹی کی مہک تھی۔ کتنی اہم، کتنی انمول تھی یہ نعمتیں جن کے لیے میں ساڑھے تین سال تک ترستا رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ان خوشبوؤں، ان محبت بھری ہواؤں نے ماں کی طرح مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں سجدے میں گرکر اس زمین کو چوم لوں۔
میں نے آنکھیں بند کرلیں اور گہری، لمبی سانس لے کر اس پاکیزہ ہوا، اس مہک کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارنے لگا۔ اس روز مجھے احساس ہوا کہ پاکستان کو ولیوں کی سر زمین کیوں کہا جاتا ہے، یہاں کی تو ہواؤں میں ہی اللہ کے ولیوں کی عبادتوں کی خوشبو اور روحانی اثرات موجود ہیں۔ میں پاکستان کے علاوہ دبئی، امریکا اور ایران کی سرزمینوں پر بھی اترا مگر میں قسم کھا کر کہتا ہوں، میں نے ایسی زندہ، اللہ کی محبت دل میں جگانے والی، پاکیزہ ہوائیں کہیں اور محسوس نہ کیں۔
میں اسی کیفیت میں آنکھیں بند کیے کھلے آسمان تلے کھڑا ان چند لمحوں میں بہت سی لطیف و جذباتی کیفیات سے گزر رہا تھا۔ اللہ کی محبت میں ڈوبی، مسرور ہوائیں مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھیں۔ میں ان ہواؤں کے زندہ ہونے کو باقاعدہ محسوس کررہا تھا، کیونکہ میں امریکا کی مردہ، اداس ہواؤں میں سانس لے چکا تھا۔ میں مردہ اور زندہ ہواؤں کے فرق کو جانتا تھا۔ امریکا کی اداس ہوائیں یہاں کی طرح خوش نصیب نہ تھیں۔ کیونکہ ان میں دن میں پانچ مرتبہ اللہ و محمدؐ کے ناموں کی صدائیں نہیں گونجتی تھیں۔
ائیرپورٹ پر میری والدہ اور گھر والوں کے خوشی سے دمکتے چہرے ہمارے منتظر تھے۔ تعریف اس پاک پروردگار کی جو بچھڑے ہوؤں کو ملانے اور بے وطنوں کو وطن واپس لانے والا ہے۔
ہماری گاڑی فجر کے اس پرسکون، خاموش اندھیرے میں، سنسان شاہراہ فیصل پر گھر کی طرف رواں دواں تھی۔ کھلی کھڑکی سے اندر آتے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے چہرے اور بالوںکو سہلا رہے تھے۔ میں سر کو ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے خاموشی سے بیٹھا تھا۔ تھک کر ماں کی آغوش میں لوٹ آنے کے گہرے سکون نے مجھے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میرے دل میں اب کوئی خواہش، کوئی آرزو باقی نہ رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اللہ نے مجھے اس زندگی میں ہی جنت کا مزہ چکھا دیا ہو۔