مڑہ یہ پاکستان ہے

فرمان نواز  بدھ 18 فروری 2015

پچھلے دنوں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کیلئے ٹریننگ پروگرام کا انتظام کیا گیا تھا۔ ٹریننگ کے دوران مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہوئی اور اسی دوران اساتذہ کو بتایا گیا کہ بچوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنا بے حد ضروری ہے، جس پر ایک باریش اُستاد نے کھڑے ہوکر کچھ کہنے کی درخواست کی۔

اُنہوں نے کہا کہ جناب حب الوطنی دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔ ایک حُب اور دوسرا وطن۔ حب یعنی محبت پیدا کرنے کیلئے اُس بچے میں جمالیاتی ذوق کا ہونا ضروری ہے اور دوسرے جس چیز سے محبت کی جاتی ہے اُس میں کچھ کشش کا ہونا ضروری ہے۔ اب جنابِ والا میں پاکستان کی کونسی خوبی یا خوبصورتی بچوں کے سامنے بیان کروں کہ بچوں کے دل میں پاکستان کی محبت جاگے؟

کیا یہاں کی پولیس قابلِ تعریف ہے؟ کیا عدالتیں عوام کو انصاف فراہم کررہی ہیں؟ کیا حکمران عوام کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں؟ کیا ہمارے سرکاری اسکول بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں؟ کیا یہاں واپڈا اور اسپتالوں سے لوگ خوش ہیں؟ ان سوالوں کا پینل میں کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ کیو نکہ ماسٹر صاحب نے ایسے اداروں کے نام لئے تھے جن سے عوام کا ڈائریکٹ رابطہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام ان کی کارکردگی کو فوراََ جانچ سکتے ہیں۔

جب بھی حکمران ترقی اور خوشحالی کا دعویٰ کرتے ہیں تو عوام کے پاس سادہ سا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ان اداروں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ ان اداروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے شماریات کے بہت وسیع علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 

ماسٹر صاحب کی بات سن کر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ جب سال بھر محنت کرنے کے بعد میں نے کچھ پیسے جمع کئے تھے۔ پھر جولائی کے شروع میں بیوی اور بچے کو مری لے گیا۔ جب واپسی پر راولپنڈی سے پشاور جانے کیلئے ایک معروف ٹرانسپورٹ کمپنی کے ٹکٹ گھر میں ٹکٹ لے رہا تھا تو کاوئنٹر پر موجود شخص سے تھوڑی سی کوتاہی ہوگئی، جس کے باعث کھڑکی کے سامنے لوگوں کا رش جمع ہوگیا۔ ایک نوجوان جو گرمی کا مارا ہوا تھا فوراََ غصے میں آگیا اور کاؤنٹر پر موجود شخص کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ ساتھ میں کھڑے دوسرے نوجوان نے اُس کو چپ کراتے ہوئے کہا کہ؛

’’مڑہ یہ پاکستان ہے۔ کیوں اپنا دماغ خراب کرتے ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا‘‘

یہ جملہ میں پہلی بارنہیں سن رہا تھا، بلکہ اکثر چلتے پھرتے یہ جملہ کانوں میں آپڑتا ہے۔ اِس جملے میں پاکستان کے مطلب کو ظالمانہ سسٹم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بحث میں اُلجھے بغیر بہت ہی سادہ جملے سے سسٹم پر تنقید کردی جاتی ہے اور سامنے والے کے پاس سوائے خاموشی کے دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ پاکستان وہ لفظ ہے جسے تقسیمِ ہند سے پہلے مسلمانوں میں سیاسی غیرت پیدا کرنے کیلئے چُنا گیا تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ آج وہی لفظ کلمہ کے معنوں میں نہیں بلکہ ظالمانہ نظام کی نشاندہی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔

آئے روز ہمارے ملک میں عادلانہ نظام کے قیام کیلئے بلند و بانگ نعرے اور زوردار بیانات جاری کئے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر قومی آزادی کی سوچ، امن، معاشی خوشحالی اور عدل و انصاف کے اُصولوں کی بنیاد پر تعلیم و تربیت، تنظیمی مہارت اور صلاحیت و استعداد پیدا کرنے کا کام نہیں کیا جارہا۔ آج پوری قوم یہ خواہش رکھتی ہے کہ ملک میں عدل و انصاف، امن و خوشحالی کا دوردورہ ہو لیکن ایسے میں کیا محض نعروں اور چہروں کی تبدیلی سے نظام عدل کا قیام ممکن ہے؟ نظام فرسودہ ہے اور ادارے غلامانہ سوچ کے دائرے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور ساتھ ہی ساتھ شخصیات کے ذاتی مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔

آج بڑے جوش و خروش سے شخصیات کی تبدیلی پر عدل و انصاف کے نام پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ لیکن ظلم کے نظام کا بنیادی ڈھانچہ قائم رہتا ہے۔ طبقاتی مفادات نے قومی مفادات کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے یعنی ہمارے معاشرے میں وہ تمام عوامل موجود ہیں جو ظلم کے نظام کو تقویت دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ محض چند افراد کے آنے جانے سے’’عدل کا نظام‘‘ قائم ہو گیا۔

گزشتہ دنوں کافی عرصہ کے بعد ہمارے ملک میں عدل وانصاف اور قانون کی بالادستی کا بلبلہ زوروشور سے بلند کیا گیا۔ اِس سے کم از کم یہ تو واضح ہوگیا کہ ہمارے ملک کے عام لوگوں میں عدل وانصاف کا جذبہ موجود ہے لیکن نتائج کے حصول کیلئے صحیح رُخ پر شعوری جدوجہد کا فقدان ہے۔ آج پوری قوم کی آواز عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قیام کیلئے متفق ہے۔ آج ایسے تعلیمی اداروں اور تنظیمی مہارتوں کو منتقل کرنے والی جماعت کی ضرورت ہے جو عقل وشعور، فہم وبصیرت کے ساتھ سماجی زندگی کے اعلیٰ اصول و نظریات کو سمجھنے، اُن پر تنظیمی صلاحیت پیدا کرنے، باوقار انداز سے جدوجہد اور کوشش کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں۔

نوجوان نسل کی شعوری آبیاری مستقبل کی تعمیر و تشکیل کیلئے انتہائی ضروری ہے اور اس کیلئے ہمیں اپنی قومی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ عادلانہ نظام کے قیام کے تقاضوں کیلئے جذباتی نعروں کے بجائے شعوری بنیادوں پر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے تمام تحریکوں کے مقاصد کو سمجھنا ہوگا جو اپنی ذاتی رنجشوں اورمفادات کی آڑ میں عوام کو عدل کا جانسہ دے کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں اور بر سرِاقدار آکر عدل و انصاف کے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔