جنھیں ہم بھلا بیٹھے

مقتدا منصور  جمعرات 19 فروری 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی نظام نہیں کہ ان لوگوں کے کارناموں سے آنے والی نسلوںکوآگاہ کرسکیں،جنہوں نے وطن عزیزمیں شعوروآگہی کے فروغ ، سماجی انصاف کی فراہمی اورایک شائستہ معاشرے کی تشکیل کی خاطر اپنی زندگیاں تیاگ دیں۔آج کی نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ 1953ء کی طلبا تحریک کیوں چلی تھی؟ اس تحریک میں کتنے نوجوانوں نے اپنے خون سے کراچی کی سڑکوں کو لالہ رنگ کیا تھا؟ انھیں شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ ون یونٹ کے خلاف جدوجہد کا آغاز سندھ کے طلبا نے کیا تھا۔ جن پر اس وقت کی انتظامیہ نے کوٹری پل پر تشدد کیا اورگولی چلائی تھی۔ انھیںشاید یہ بھی نہیں معلوم کہ ایوب خان کی آمریت کو روز اول سے بھرپور انداز میں چیلنج طلبا نے کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایوب خان طلبا تحاریک سے پریشان ہوکر وفاقی دارالحکومت کراچی سے دور مرگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں منتقل کرنے پر مجبور ہوئے۔

آج کے نوجوانوں کو شاید یہ بھی نہ معلوم ہوکہ پروگریسو پیپرز کے زیراہتمام دو روزنامے نکلتے تھے۔ جن میں امروز اردو اور پاکستان ٹائمز انگریزی کا اخبار تھا۔ ساتھ ہی یہ ادارہ ایک ہفت روزہ لیل ونہار اور ایک اسپورٹس کا ماہ نامہ بھی شایع کیا کرتا تھا۔ جنھیں ایوب خان کی فوجی حکومت نے جبراً قومی ملکیت میں لے کر نیشنل پریس ٹرسٹ کے حوالے کردیا۔ اسی طرح ملک کے ابتدائی دورمیں کمیونسٹ پارٹی سمیت دیگر ترقی پسند جماعتیں بھی کام کرتی تھیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین بھی سرگرم تھی۔ جس سے ملک کے بڑے اور نامور دانشور ، ادیب وشعراء وابستہ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک متحدہ تھا اور ملک کے دونوں حصوں میں ایسی نابغہ روزگار ہستیاں موجود تھیں، جنہوں نے عوام کو ایک بہتر زندگی دلانے کی خواہش میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور معاشی تنگ دستی کے عذاب ہنستے کھیلتے سہے، مگر زبان سے اف تک نہ کی۔

پاکستان میں قائم ہونے والی سبھی حکومتیں اپنے گماشتہ کردار کے باعث ترقی پسندی اور روشن خیالی پر مبنی سوچ سے ہمیشہ خوفزدہ رہی ہیں۔ لہٰذا انھوں نے انگریزوں کے لڑاؤ اور حکومت کرو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ملک کے دونوں بازوؤں کی سیاسی قوتوں کے درمیان باہمی روابط کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ ترقی پسند سیاسی قیادت کا راستہ روکنے کے لیے مغربی پاکستان میں بھی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے آزادانہ نقل و حمل کو مشکل بنائے رکھا۔ بائیں بازو کے بیشتر رہنماء زیر زمین رہ کر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن اس زمانے میں اسٹڈی سرکلز سیاسی شعوروآگہی میں اضافے کے علاوہ زیر زمین سیاسی رہنماؤں اورکارکنوں سے روابط کا ذریعہ ہواکرتے تھے۔

جہاں وہ چھپتے چھپاتے وقتاً فوقتاً شریک ہو جایا کرتے تھے۔ جن قارئین نے اسٹڈی  سرکلز میں شرکت کی ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کے ذریعہ علم وآگہی کے ساتھ بحث و مباحثے کے ذریعے سیکھنے کا جو موقع ملتا تھا، وہ آج میسر نہیں ہے۔ اسی طرح  اسٹڈی سرکلز کی وجہ سے کتب بینی کا شوق بھی پیدا ہوتا تھا۔ خود میں میکسم گورکی کی ’’ ماں‘‘  اور باری علیگ کی ’’کمپنی بہادر کی حکومت‘‘ کے علاوہ بیشمار سیاسی و سماجی کتب سے اسٹڈی سرکلز کی وجہ سے متعارف ہوسکا۔ جب کہ حسن ناصر شہید سمیت برصغیر کی اہم سیاسی شخصیات کے بارے میں آگہی بھی ملی۔چند روز پہلے مجھے اس وقت شدید ذہنی جھٹکا لگا جب ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کی اینکر پرسن جس نے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری لے رکھی ہے، علی مختار رضوی مرحوم اور بھائی معراج محمد خان کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔

لہٰذا ایک دہائی یا اس سے قبل اس دنیا سے چلے جانے والے رہنماؤں کے بارے میں نوجوان نسل کی لاعلمی پرحیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ آج نہ تو اسٹڈی سرکلز کا رواج ہے اور نہ ان رہنماؤں کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں کتابیں یا کتابچے موجود ہیں،جنہوں نے اس ملک میں سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنی اور اپنے اہلخانہ کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن چینلوں بالخصوص نیوز چینلز پر جوکچھ نشرہو رہا ہے، اس میں سیاسی تاریخ، فلسفے اورعمرانیات جیسے سنجیدہ موضوعات پر10 فیصد سے بھی کم مواد ہوتا ہے۔ اس لیے نوجوان نسل پر تنقید کے بجائے ہم سینئر شہریوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم نے نئی نسل کے شعور وآگہی میں اضافے کے لیے کیا مواد تیار کرکے پیش کیا۔ ذکر ہو رہا تھا بائیں بازو کی نابغہ روزگار ہستیوں کا۔ایسی ایک شخصیت ڈاکٹر اعزاز نذیر کی بھی تھی۔جنہوں نے پاکستان میں سماجی انصاف پرمبنی معاشرے کے قیام کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ وہ پاکستان میں گذاری 50 برس سے زائد زندگی کا بیشتر حصہ قید وبندکے علاوہ زیر زمین بسرکرنے پر مجبورکردیے گئے۔مگر ان کے قدموں میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوئی۔

جس نظریے کے ساتھ انھوں نے بھارت کی ریاست حیدرآباد(دکن) سے اپنے سیاسی سفر کا آغازکیا، مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ نیشنل عوامی پارٹی سے عوامی نیشنل پارٹی تک ہر ترقی پسند جماعت کی تشکیل میں ان کا سرگرم کردار رہا۔ اس سرگرمی کی انھیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔نظریاتی کمٹمنٹ کی قیمت کے طور پر انھیں اپنی زندگی معاشی تنگ دستی میں گذارنا پڑی۔ مگر انھوں نے کبھی اس کا شکوہ نہیں کیا۔ وہ ایک چھوٹے سے خستہ مکان میں رہتے اور ہمیشہ بس پر سفر کرتے۔ ہم اکثر ان سے کہتے کہ جناب اس طرح بسوں میں سفر نہ کیا کریں، آپ کے لیے خطرناک ہے۔

مگر وہ  ہنس کر ٹال دیا کرتے۔ حالانکہ اس زمانے میں آج کل کی طرح ٹارگٹ کلنگ کا چلن نہیں تھا،بلکہ صرف گرفتاریوں کا خطرہ ہوا کرتا تھا۔1970 کے عشرے میں بایاں بازوچین نواز اور روس نواز دھڑوں میں منقسم تھا۔ NAP (ولی گروپ) روس نواز اورNAP (بھاشانی) چین نوازکہلاتی تھی۔اسی طرح نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کا رشید گروپ چین نواز تھا ۔ کاظمی گروپ روس نواز کہلاتا تھا،مگر صرف کراچی تک محدود تھا۔ جب کہ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(SNSF) سندھ کے بقیہ علاقوں میں فعال تھی ۔سکھر میں حسن حمیدی،فتح اللہ عثمانی اورمعروف شاعر شیخ ایازNAP(ولی گروپ)کے معروف رہنماء ہواکرتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب جب بھی خیر پور سے سکھر آتے تو حسن انکل کے گھر ہی قیام کرتے۔ حسن حمیدی مرحوم میرے چچا کے دوست تھے، اس لیے NSF چین نوازسے وابستگی کے باوجود NAP(ولی) کے رہنماؤں سے بھی میرے خوشگوارتعلقات تھے۔ یوںمیری ڈاکٹر اعزاز نذیر مرحوم سے پہلی ملاقات حسن حمیدی مرحوم کے گھر پر 1967 میں ہوئی۔اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔دراز قدر،آبنوسی رنگ اورگرجدار آواز کے ساتھ بظاہر ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ لیکن انداز گفتگو انتہائی شیریں اور مشفقانہ ہواکرتا۔

انھیں تاریخ،فلسفہ ،سیاسیات اور معیشت پر بلاکسی تھکان مسلسل اور مدلل بولنے پر ملکہ حاصل تھا۔یہ ایوب خان کی حکمرانی کا آخری زمانہ تھا۔گوکہ ان کا زور ٹوٹ رہا تھا، لیکن پھر بھی عنان حکومت پر ان کی گرفت سخت تھی۔1968 میں جب ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک میں شدت آئی تو ہم لوگ مولانا بھاشانی مرحوم سے متاثر ہونے کے باوجود تمام ترقی پسند سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس دوران ڈاکٹر اعزاز نذیر بھی زیر زمین ہونے کے باوجود ہفتہ پندرہ دن میں سکھر ضرور آتے اور کبھی حسن حمیدی،کبھی فتح اللہ عثمانی کے گھرپر ملاقات ہوتی اورگھنٹوں ان کی گفتگو سے مستفیض ہونے کا موقع ملاکرتا تھا۔

پاکستان میں بائیں بازو کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور ترویج میں ان کا کسی نہ کسی شکل میں اہم کردار ضرور رہا ہے۔مگر انھوں نے اپنے اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر کبھی سودا نہیں کیا۔1986 میں ولی خان مرحوم اور ان کے ساتھیوں نے جب نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے الگ ہوکر عوامی نیشنل پارٹی تشکیل دی تو ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس کی تشکیل میں انتہائی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ ANPکے ابتدائی دور میں اس کے صدر ولی خان مرحوم، نائب صدرحاکم علی زرداری مرحوم اور جنرل سیکریٹری رسول بخش پلیجو مقرر ہوئے، جب کہ ڈاکٹر اعزاز نذیر مرحوم سمیت مختلف لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماء مرکزی کمیٹی کا حصہ بنے۔

اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ ترقی پسند افکار کی بنیاد پر قائم ہونے والی ANPنے جلد ہی اپنے قومی کردارکو محدود کرتے ہوئے خودکو صرف پختون سیاست تک محدود کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یہ فیصلہ ترقی پسند قوتوں پر بجلی بن کر گرا تھا۔ صرف رسول بخش پلیجو اور حاکم علی زرداری ہی اس سے الگ نہیںہوئے بلکہ ڈاکٹر صاحب مرحوم سمیت بائیں بازو کے کئی جید رہنماء بھی الگ ہونے پر مجبور ہوگئے۔

ڈاکٹر صاحب کو ہم سے بچھڑے دودہائیاں گذرگئیں،مگر جو لوگ شائستگی اور اصولوں کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں،ان کے دلوں میں ان کی یادوں کے چراغ آج بھی روشن ہیں۔کاش کوئی تنظیم یا ادارہ ماضی کے ان بے لوث اورجذبہ انسانی سے سرشار اکابرین پرکتابیں، کتابچے شایع کرنے کے علاوہ ان کے یوم پیدائش یا برسی کے موقعے پر سیمینار کا انعقاد کرکے نئی نسل کو ان کی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں آگہی دینے کا سلسلہ شروع کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔