چین میں نئے سال کی آمد

محمد ارشد قریشی  جمعرات 19 فروری 2015
چین میں ہر قمری سال کو کسی جانور کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، لہذا رواں سال کو بکری سے منسوب کیا گیا ہے. فوٹو رائٹرز

چین میں ہر قمری سال کو کسی جانور کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، لہذا رواں سال کو بکری سے منسوب کیا گیا ہے. فوٹو رائٹرز

یوں تو دنیا میں بہت سے تہوار منائے جاتے ہیں اور کئی تہواروں کو تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تہواروں کے سلسلے میں چین بہت آگے ہے، وہاں ایک تہوار کے اختتام کے ساتھ ہی کسی دوسرے تہوار کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ چینی لوگ اس حوالے سے بہت زندہ دل اور پر عزم ثابت ہوئے ہیں۔

اگر آپ کسی ملک یا قوم کے رسم و رواج کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو یقینی طور پر آپ کو وہاں کے لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوگی۔ لہذا میں بھی چین میں منائے جانے والے جشن بہار کے تہوارکے بارے میں لکھنے سے پہلے قارئین کو چین اور چینیوں کے بارے میں مختصر بتانا چاہوں گا۔

چین اور پاکستان کی دوستی کا ذکر میں بچپن سے ہی سنتا چلا آرہا ہوں کہ چین پاکستان کا بہت گہرا دوست ہے اور پاک چین دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے مضبوط اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ میرے ذہن میں ہمیشہ یہی سوال گردش کرتا رہتا تھا کہ پوری دنیا میں پاکستان کی صرف چین ہی سے اتنی گہری دوستی کی آخر کیا وجہ ہے؟ اسی دلچسپی اور شوق کی وجہ سے میرا رابطہ چائینا ریڈیو انٹرنیشنل اردو سروس سے ہوا جو پاکستانی سامعین کے لئے اردو زبان میں پروگرام نشر کرتا ہے۔ یہ نشریات چین اور چینی رسم و رواج کے بارے میں جاننے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ بس یہی سے مجھے پاک چین دوستی کی بنیادی وجہ کا علم ہوا کہ جب چین نے عوامی جمہوریہ چین بننے کا اعلان کیا، تو پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک تھا جس نے سب سے پہلے چین کو ایک مملکت کی حثیت سے تسلیم کیا۔

چین اور پاکستان کی دوستی کا یہی آغاز تھا اور اسی وجہ سے چینی قوم پاکستانیوں سے نہ صرف محبت کرتے ہیں بلکہ ان کی بے پناہ عزت بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان سے محبت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بہت سے چینی بہت خوبصورت اور نفیس اردو بولتے ہیں، اور بیجنگ یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں سند حاصل کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اپنے بہت سے چینی دوستوں سے میں اکثر ان کے رسم و رواج کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہتا ہوں اور وہ بھی پاکستان میں منائے جانے والے تہواروں میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔

اب ذکر اس تہوار کا جو میری اس تحریر کا موضوع ہے، یعنی چینیوں کے نئے سال کا جشن جسے جشن بہاراں بھی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں رہنے والے چینی جوش و خروش سے یہ تہوار مناتے ہیں۔

فوٹو؛ رائٹرز

میرے لئے یہ تہوار اس لئے بھی دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ اس تہوار پر چینی گھروں اور دکانوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتے ہیں اور سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں۔ میں نے اس بارے میں کئی چینی دوستوں سے دریافت کیا کہ اس کا آغاز کس طرح ہوا؟ سرخ رنگ کے استعمال کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور اس تہوار کے منانے سے چینیوں کا کیا عقیدہ ہے؟ حیران کن طور پر اس حوالے سے بہت سی باتیں سامنے آئیں، لیکن کسی بھی واقعے کو لوگوں کے علم میں لانے سے پہلے اس کی حقیقت کی تصدیق ایک لازمی جز ہے۔ اس تہوار کے حوالے سے جو کچھ مجھے جاننے کا موقع ملا میں نے اس بارے میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس اور کراچی میں واقع چینی ثقافتی مرکز سے رابطہ کیا اور یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ یہ تہوار پاکستان میں واقع چینی سفارتخانوں اور ثقافتی مراکز میں بھی منایا جاتا ہے۔

جشن بہاراں کو منانے کی ابتداء 4 ہزار سال پرانی ہے، جس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ کوئی شیطانی قوت ان ہی دنوں چین کے مختلف علاقوں سے گزرتی تھی، جس کی وجہ سے علاقے میں تباہی اور لوگوں میں بیماریاں پھیلتی تھی، مویشی ہلاک ہوجاتے اور فصلیں تباہ ہوجاتی تھیں۔ ایک دفعہ انہی تاریخوں میں کچھ بچے ایک علاقے میں بہت بڑی سرخ رنگ کی چادر تان کر اس کے نیچے آتش بازی کررہے تھے، بچے اتفاقیہ طور پر سرخ رنگ کی چادر استعمال کررہے تھے، لیکن اسی رنگ کے استعمال سے وہ شیطانی طاقت وہاں سے بھاگ گئی۔ اس سال چین میں  نہ کوئی آفت آئی، نہ بیماریاں پھیلیں اور نہ ہی فصلیں تباہ ہوئیں۔

اس بات سے لوگوں نے اندازہ لگایا کہ وہ شیطانی طاقت سرخ رنگ اور آتش بازی سے خوفزدہ ہوتی ہے۔ بس اسی وقت سے یہ تہوار منانے کی ابتدا ہوئی، جس کے بعد چینی ہر نئے سال کا آغاز اسی تاریخی مذہبی عقیدے سے ساتھ کرتے ہیں۔ نئے سال اور جشن بہاراں کی آمد سے قبل ہی اپنے مکانوں اور دکانوں کی صفائی کرتے ہیں، سجاتے ہیں، مختلف اقسام کے پکوان پکائے جاتے ہیں اور سرخ رنگ کے مشروبات تیار کئے جاتے ہیں جن سے مہمانوں کی خوب خاطر مدارات کی جاتی ہے۔

فوٹو؛ رائٹرز

چین میں ہر قمری سال کو کسی جانور کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، لہذا گذشتہ سال کو گھوڑے سے اور رواں سال کو بکری سے منسوب کیا گیا ہے۔ پاکستان میں عیدین کے تہواروں سے اس کی ایک حد تک مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔

فوٹو؛ رائٹرز

میرا تو ذاتی خیال ہے کہ ہمیں اپنے چینی بھائیوں کی خوشیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے اور چین کی ثقافت کو پاکستان میں اور ہماری ثقافت کو چین میں متعارف کرانے کے لئے انفرادی اور حکومتی سطح پر مزید کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستانی اخبارات و رسائل اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ایسے تہواروں کو خصوصی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ دونوں ملکوں کی دوستی مزید مستحکم ہو اور دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔