پاک چین اقتصادی راہداری!!

احسن کامرے  جمعـء 20 فروری 2015
سیاسی و اقتصادی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

سیاسی و اقتصادی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

مغربی چین سمندر سے دوری کی وجہ سے مشرقی چین کی نسبت پسماندہ رہ گیا تھا جس طرح پاکستان کا مغربی حصہ جس میں بلوچستان، فاٹا اور خیبرپختونخوا شامل ہیں پسماندہ رہ گیا ہے۔

پسماندگی اور غربت کی وجہ سے مغربی چین میں آزادی کی تحریکیں جنم لینے لگیں۔ پھر چین نے ان علاقوں کی ترقی کے لیے پاکستان کے برعکس ملٹری آپریشن کی بجائے 1978ء میں ایک طویل منصوبے کا آغاز کیا جس کے تحت وہاں ہائی ویز تعمیر کی گئیں، ریلوے لائنیں بچھائی گئیں اور سرمایہ داروں کو مراعات بھی دی گئیں۔اس کے بعدسرمایہ داروں نے وہاں کا رخ کیااور اب وہاں بے شمار صنعتیں لگ چکی ہیں۔ ان صنعتوں کو جو خام مال درکار ہے اس کے حصول کے لیے چین کوایک لمبا سفرطے کرنا پڑتا ہے۔

کاشغر سے شنگھائی تک کا فاصلہ پانچ ہزار کلومیٹر ہے جبکہ گوادر تک کا فاصلہ صرف دوہزار کلومیٹر ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ چین نے پاکستان کو گوادر بندرگاہ اورکاشغر تا گوادرکوریڈورکی تجویز دی۔ چین اس کوریڈور کے ذریعے عرب ممالک،مغربی دنیا اور وسط ایشیاء کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے۔ اس کوریڈور کے لیے جو روٹ تجویز کیا گیا تھا وہ ایبٹ آباد، حسن ابدال، میانوالی، ڈی آئی خان، ژوب اور کوئٹہ سے گزر کرجاناتھاتاہم اب جوروٹ بنایا جارہا ہے اس میں حسن ابدال، لاہور، ملتان،سکھر اور حیدرآباد اہم شہر ہیں۔

اس روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لوگوں کے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں اور سینٹ میں اس پر بحث کے دوران سینیٹرز نے واک آؤٹ بھی کیا۔ اس کوریڈور کے روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے تمام سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینے کے لیے چند روز قبل حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی ۔ ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی و اقتصادی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے ۔

حمید اختر چڈھا (نائب صدرایف پی سی سی آئی)

اس کوریڈور کا روٹ تبدیل کرنے سے لوگوں میں تحفظات پیدا ہوں گے، یہ کوریڈور بلوچستان کے بڑے اضلاع میں سے گزر رہا ہے ، ان علاقوں کی حالت پسماندہ ہے ، اس منصوبے سے وہاں انڈسٹری لگے گی اور ان علاقوں کی حالت بہتر ہوگی لیکن اگر یہ روٹ تبدیل کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچستان کے لوگ پہلے ہی خود کو محروم سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہاں بغاوت ہوسکتی ہے۔ ژوب، لورالائی بلوچستان کے بڑے اضلاع ہیں ، اگر یہ کوریڈوربن جاتا ہے تو وہاں کے لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے لیکن اگر یہ روٹ تبدیل کرنا ضروری ہے تو پہلے ان لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں ترقی کا متبادل راستہ بتایا جائے ورنہ مزید مسائل پیدا ہوں گے۔

یہ سڑک جہاں سے گزرے گی وہاں چھوٹی انڈسٹری لگائی جائے گی اور اس طرح ہمارے چھوٹے صنعتکاروں کو بھی وسطی ایشائی ممالک اور افریقی ممالک تک رسائی ہوگی اور ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ بھی ہوگا۔جب سرمایہ دار کو یہ علم ہوگا کہ لورالائی، گوادر اور دیگر علاقے جو اس کوریڈور کے ساتھ منسلک ہیں وہاں بزنس کے مواقع موجود ہیں تو لوگ وہاں انڈسٹری لگائیں گے اور اس سے وہاں کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ بھارت ہمارے ساتھ معاشی جنگ کررہا ہے، وہ ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ کوریڈور نہ بنے۔

بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیں روایتی جنگ میں مات نہیں دے سکتا اس لیے وہ اب ایسے حربے استعمال کررہا ہے جس سے ہماری معیشت کو نقصان پہنچے۔حکومت کوسیاسی وبزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو بلا کر انہیں اعتماد میں لینا چاہیے اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے ۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس کوریڈور سے ہمیںکیا فائدہ ہوگا کیونکہ چین اورہماری برآمدات میں 50فیصد کا فرق ہے اور ہم چین سے زیادہ مال درآمد کررہے ہیں جبکہ وہاں ہماری برآمدات خاصی کم ہیں۔

اس وقت چین میں 50فیصد سرمایہ کاری امریکا کی ہے ، چین نے دنیا بھر میں موجود اپنے لوگوں کو بزنس کے مواقع دیے، انہیں سہولیات دیں جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری وہاں آئی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ چین آج دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اورمیرے نزدیک یہ پلان بہت بہتر ہے کیونکہ اس سے بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

پنجاب اور سندھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت بڑی انڈسٹری ہے اور لوگ دوسرے صوبوں سے یہاں ملازمت کے حصول کے لیے آتے ہیں، اس منصوبے سے بلوچستان میں بھی انڈسٹری لگے گی اور وہاں بھی لوگوں کو روزگار ملے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائے تاکہ مقامی سطح پر لوگوں کو اس منصوبے کے حوالے سے اعتماد میں لیا جاسکے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی نظام نہیں ہے، ہم قرضے تلے دبے جارہے ہیں، اس منصوبے سے ہماری معیشت مضبوط ہوگی اور اس سے ہمارے صنعتکاروں کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔

ڈاکٹر قیس اسلم (ماہر اقتصادیات)

پاکستان اس خطے میں بہت اہمیت رکھتا ہے ، اس خطے میں پاکستان کے تقریباََ تمام ہمسایہ ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور یہ خطہ آبادی کے لحاظ سے بھی بڑا ہے۔ اگر چین ، ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کی آبادی کو ملائیں تو دنیا کی آبادی کا نصف حصہ بنتا ہے، اس کے علاوہ یہاں انرجی اور سونے چاندی کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد جس دنیا کا خواب دیکھا جارہا تھا وہ پورا نہیں ہوسکا۔’’ری او‘‘ کانفرنس میں یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ دنیا کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔اس کے بعد ’’ڈبلیو ٹی او‘‘ بن گیا جس میں چین کوخصوصی طور پر ممبر بنایا گیا تاکہ گلوبل معیشت کو میدان جنگ بنایا جاسکے لیکن اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے کیونکہ امریکہ کے سابق صدر بش اور اسامہ بن لادن نے دہشت گردی کی ایک ایسی دنیا بسا دی جس سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔

امریکہ نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ اپنی معاشی اجارہ داری ختم نہیں کرنا چاہتا، اسے افغانستان سے نکلنا پڑرہا ہے لیکن اب اس کا کردار بھارت یا پاکستان کرے گا اور اس حوالے سے ابھی ہمیں فیصلہ کرنا ہے ۔ دوسری طرف چین ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے، اس نے کمیونزم اور پرائیویٹ سیکٹر کے امتزاج سے دنیا کو ایک نئی جہت متعارف کروائی اور وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔ چین نے اپنے مارکسسٹ فلسفے کے ذریعے عام لوگوں کو فائدہ پہنچایا، اس نے غریب لوگوں کو اپناصارف بنایا اور اس وقت افریقہ، پاکستان، وسطی ایشیائی ممالک اور دنیا بھر کا متوسط طبقہ چین کی مارکیٹ ہے۔

دنیا کا امیر طبقہ امریکی معیشت کے ساتھ ہے جبکہ چین نے غریب طبقے کوٹارگٹ کیا لہٰذا یہ معاشی محاظ اب سیاسی محاظ بھی بن گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں دھرنوں کی صورت میں پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے میں بھی چین نے اہم کردار ادا کیا ہے اور اس میں امریکی، چینی اور پاکستانی سیاسی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ ہونے کے باوجود بھی معاہدہ ہوا ہے ۔ اس میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں 50فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری امریکا کی ہے اور اس کے علاوہ امریکا کی 50فیصد درآمدبھی چین سے ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات مفادات پر مبنی ہیں۔

اس وقت چین پوری دنیا کے ساتھ روابط قائم کرنا چاہتا ہے۔پاک چین کوریڈورکی طرز کے معاہدے اس نے بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی کیے ہیں ۔ اس کے علاوہ چین ریلوے ٹریک کا جال بھی بچھائے گا جس میں ایک ٹرین گوادر سے چین اور سنٹرل ایشیا، ایک ٹرین ہندوستان سے جائے گی، ایک ٹرین سمندر کے راستے چین سے افریقہ جائے گی ، ایک سمندر کے راستے امریکہ جائے گی جبکہ ایک ٹرین روس سے ہوتے ہوئے یورپ تک جائے گی۔ اس منصوبے میں امریکی دولت اور ٹیکنالوجی بھی استعمال ہورہی ہے اور فرانس اور انگلینڈ کا جو لنک دنیا کے ساتھ بننا تھا اب وہ چین دنیا کے ساتھ قائم کرے گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کو اپنے منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی کمی ہے جبکہ چین کو کسی کمی کا سامنا نہیں ہے۔ اوباما کے دورہ بھارت کو بہت اہمیت دی جارہی تھی لیکن اوباما نے بھارت میں بزنس کمیونٹی سے اور پھر امریکامیں جو خطاب کیا وہ بھارت نواز نہیں تھا لہٰذا میرے نزدیک بھارت کو اوباما کے اس دورہ سے کوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس سب میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کتنے بڑے پلیئر ہیں اور اس سے کتنا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ اکنامک کوریڈور صرف چین اور پاکستان کا معاشی تعاون نہیں ہے بلکہ اس سے پاکستان کو چین کا ملٹری تعاون بھی حاصل ہوگا اور پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے دوست ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں لیکن امریکہ کے منع کرنے پر معاہدہ کو آگے نہیں بڑھاتے۔ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ بھی اسی چیز کا شکار ہوا اور اب اس منصوبے کو ناکام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کوریڈور کے روٹ کی تبدیلی میں لینڈ مافیا کا بھی بہت بڑاکردار ہے اور اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بھی ملوث ہے۔

سنگاپور کی کمپنی کو جب گوادر کا منصوبہ دیا جارہا تھا تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا لیکن جب چین کے ساتھ معاہدہ کیا جارہا تھا تو ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکا م پیدا ہوگیا۔اس کے پیچھے اندرونی اور بیرونی طاقتیں کارفرما ہیں ان کا تدارک کیا جانا چاہیے اور ہمیں اپنے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے لہٰذا اس کے ساتھ تعلقات میں ہمارا فائدہ ہے۔

ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہماری انڈسٹری میں کپیسٹی نہیں ہے، ہمیں توانائی بحران کا سامنا ہے اورجی ایس پی پلس سٹیٹس کے باوجود ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے لہٰذا ہمیں اپنی انڈسٹری کی کپیسٹی کو بڑھانا ہوگا۔میرے نزدیک اکنامک کوریڈور سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے قوم کو ایجوکیٹ کرنا ہوگا اور انہیں نئی ٹیکنالوجی، نئی ٹرانسپورٹ، نئی انڈسٹری اور دیگر جدید عوامل سے روشناس کروانا ہوگا ورنہ اس کوریڈور کی سوائے ایک سڑک کے ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔

ہمارے پاس پانی و دیگر قدرتی اشیاء کے ذخائر موجود ہیں ، یہ کوریڈور ہمارے لیے بہت اہم ہے، ہماری سیاسی، فوجی و اپوزیشن قیادت کو مل کراقدامات کرنے چاہئیں اور یہ سوچنا چاہیے کہ 2030ء میں جو نئی دنیا بن رہی ہے اس میں ہمارا کردار صرف ایک بندرگاہ اور سڑک کا ہوگا یا ہم بھی اس میں اپنا کردارا ادا کریں گے۔ میرے نزدیک اس منصوبے میں مقامی لوگوں کو شامل کرنا چاہیے اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا، ان علاقوں کی حالت بھی بہتر ہوگی اوراس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہوگا۔

زمرد اعوان (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج)

پاکستان اور چین کے تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہیں، چین پاکستان کا نہایت قابل اعتماد دوست ہے اور پاک چین تعلقات سمندر کے پانی سے گہرے اور ہمالیہ کی چوٹی سے بلند ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی کسی کامستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ ہر ملک اپنے مفادات کیلئے نئے تعلقات بناتا ہے۔ اگر صرف پاکستان اور چین کے تعلقات کے تناظر میں بات کریں تو پھر سب سے زیادہ تجارت پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے مگر اس وقت چین کی سب سے زیادہ تجارت امریکہ کے ساتھ ہورہی ہے۔

پاک چین کوریڈور جسے اکنامک کوریڈور کا نام دے دیا گیا ہے اس میں وہ سب عوامل شامل ہیں جو 2007ء سے شروع ہیں جن کا تعلق گوادر سے ہے، اس کے علاوہ بلوچستان پیکج میں بھی اس کا ذکر کیا گیا کہ اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور اس سے بلوچستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ اب اس کوریڈورکے روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں، سینیٹ میں بھی اس پر تفصیلی بحث ہوئی اور وہ سینیٹرز جن کا تعلق بلوچستان یا خیبرپختونخوا سے ہے انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ اس کوریڈور کا اصل روٹ حویلیاں، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب اور کوئٹہ سے ہوتا ہواآتا ہے لیکن جو نواز ایڈمنسٹریشن کا نیا روٹ ہے اس میں حسن ابدال، لاہور، ملتان، سکھر اور حیدرآباد اہم شہر ہیں۔

اس روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے بعض حکومتی نمائندے یہ کہہ رہے ہیں کہ چینی حکومت نے یہ روٹ تبدیل کرنے کا کہا ہے اور ان کے مطابق نیا روٹ زیادہ بہتر ہے ۔مشاہد حسین نے اس حوالے سے کہا کہ جو بھی سٹریٹیجی ہے اس پر اسمبلی میں بحث کی جائے اور سب کو اعتماد میں لیاجائے اس کے علاوہ ان علاقوں کے لوگوں کو بھی اس کا فائدہ بتایا جائے۔ ہمارے ملک میںسیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہورہے ہیں،جمہوریت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن عملاً جمہوریت نظر نہیں آرہی۔ میرے نزدیک اس روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے حکومت کوان علاقوں کے لوگوں کو اعتماد میں لینا چاہیے، انہیں اس کے بارے میں بتانا چاہیے کہ چین ایسا کیوں چاہتا ہے اورپھر ایک واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے آرمی چیف نے اپنے دورہ چین میں وہاں کی سیاسی او رعسکری قیادت دونوں سے ملاقاتیں کی اور ان سے مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ایک دور تھا جب سیاسی قیادت ہی سیاسی قیادت سے ملاقات کرتی تھی لیکن اب سیاسی قیادت کا فقدان نظر آرہاہے اور اس خلاء کو فوج پورا کررہی ہے ۔ اگر فوج سیاست میں کردار ادا کرتی ہے تو اعتراضات سامنے آتے ہیں لیکن اگر فوج ایسا نہیں کرتی تو ہمیں سیاسی عزم نظر نہیں آتا لہٰذاہماری سیاسی قیادت میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے چیزوں میں بگاڑ پیدا ہوتاہے۔

اکنامک کوریڈور کیلئے ابھی بہت پلاننگ درکار ہے پھر کہیں جا کر اتفاق رائے کی بات آئے گی۔ اس حوالے سے ایک سینیٹر نے یہ کہا ہے کہ کہیں اس کا حال بھی کالا باغ ڈیم جیسانہ ہوجائے کہ ہم آج تک اس پر متفق نہیں ہوسکے ۔ اکنامک کوریڈور سے معاشی طور پر پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا، اس کوریڈور کے ساتھ ساتھ اکنامک مارکیٹیں بنیں گی، ریل ٹریک بنے گا ، تیل کی تجارت بھی اسی راستے سے ہوگی اس کے علاوہ ہمیں افریقی اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔

اس منصوبے سے ہماری بہت امیدیں وابستہ ہیں لیکن ابھی تک ہم دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکے اور جن علاقوں سے یہ سڑک گزرنی ہے وہاں دہشت گردی کی کارروائیاں بہت زیادہ ہیں اور ان کے پیچھے بھارت کا ہاتھ بھی ملوث ہے لہٰذا اس دہشت گردی پر قابو پائے بغیر اس منصوبے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے ۔ چینی مزدور یہاں کام کررہے ہیں ، ان کی ہلاکتوں اور انہیں یرغمال بنانے کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں اس کے لیے ریاست پاکستان کو انہیں تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔

میرے نزدیک اس کا بہتر حل یہ ہے کہ مقامی لوگوں کو اس منصوبے میں شامل کیا جائے، اس سے چینی مزدوروں کو تحفظ ملے گا اور ہمارے لوگوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس منصوبے میں صرف پاکستان کا ہی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا کیونکہ اسے تیل کے حصول کے لیے اب لمبا سفر طے نہیں کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ بہت سے دوسرے ممالک بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ پاکستان کے ذریعے جب تجارت ہوگی تو ہماری معیشت مضبوط ہوگی لیکن ہمیں فائدہ تو اس وقت ہوگا جب ہماری انڈسٹری کچھ پیدا کرے گی۔

سلمان عابد (تجزیہ نگار)

گلوبل معیشت میںہمیشہ فائدہ حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں ان سے فائدہ اٹھانے کی کتنی صلاحیت ہے۔ہمارابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے اور ہم جذباتی بنیادوں پر پالیسیاں بناتے ہیں۔ جن ممالک میں معاشی یا سیاسی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہوتا وہاں ترقی کے جتنے بھی مواقع آجائیں ان سے وقتی فائدہ توحاصل کیا جاسکتا ہے تاہم اس سے طویل المیعاد فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ہمارا ایک بڑاا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صحیح وقت پر درست فیصلے کرنے کے عادی نہیں ہیں، ہم صرف وقتی فائدہ دیکھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ بعد میں اس کے نتائج کیا ہوں گے، ہمیں اسکی کیا قیمت چکانی پڑے گی اورا س سے ملک و قوم کا کیا نقصان ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات اس سے مختلف ہیں ۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ دنیا میں جتنے بھی اکنامک کوریڈوربنتے ہیں اورترقی کے جتنے بھی مواقع نکلتے ہیں، ان سے فائدہ اس وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں اور بھارت کے ساتھ ہم کہاں کھڑے ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ نریندر موودی نے وزیراعظم پاکستان کو فون کیا اور دوطرفہ تعلقات پر بات چیت ہوئی جبکہ اس سے ایک دن پہلے آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے ایک خطرناک گیم کھیل رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فوجی اور سول قیادت بھارت، افغانستان اور امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہے۔ لہٰذا پہلے ہمیں اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنا چاہیے اور پھر بین الاقوامی تعلقات کی طرف بڑھنا چاہیے۔

دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ آپ اکنامک کوریڈور کا حصے بنیں ، اپنی معیشت تباہ کرلیں اور صرف اس پر انحصار کر کے بیٹھ جائیں ۔ چین نے دنیا میں کوریڈور کھولا ہے اور اس نے بیشمار ممالک کی معیشت پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے اگر ایسا رویہ پاکستان میں بھی ہوا توپھر ہمارا کیا ہوگا لہٰذا ہمیں اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوریڈور پاکستان کی معیشت کو کہاں کھڑا کرے گا اور کہیں ہم عالمی معیشت میں چین کے محتاج تو نہیں ہوجائیں گے۔اس منصوبے کے لیے ہم نے چین سے صرف ٹیکنیکل مدد لینی تھی لیکن اب اس کے مزدور بھی یہاں کام کررہے ہیں لہٰذا اب سوچنا یہ ہے کہ ہماری لیبر کہاں جائے گی۔

بعض اوقات ہم اتنے پُرجوش ہوجاتے ہیں کہ ہم یہ تعین ہی نہیں کرپاتے کہ اس سے ہمارے ملک کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا۔ اگر ہم موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو زیادہ تر معاملات کو انفرادی تعلقات کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، شریف برادران کو انٹرنیشنل کمیونٹی کی جانب سے اچھا رسپانس ملا ہے اور انہوں نے تمام معاملات کو ادارتی صورت نہیں دی، انہیں پاکستانی ادارہ جاتی شکل میں نہیں ڈھالا اور انفرادی تعلقات کی بنیاد پر معاہدے کیے جارہے ہیں۔ یہ امر قابل بحث ہے کہ انفرادی طور پرطے کیے گئے معاملات حکومت کے پاس ہیں یا پرائیویٹ سیکٹر انہیں ڈیل کررہا ہے اس کے علاوہ ان میں شفافیت کا بھی مسئلہ ہے۔

میرے نزدیک جواکنامک کوریڈور دنیا میں بن رہا ہے اس میں پاکستان کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پلان ہے کہ اسے کیسے ڈیل کرنا ہے ۔ ہمیں ہندوستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ اپنے معاملات کونئے سرے سے دیکھنا ہوگا کہ انہیں کیسے ٹھیک کیا جائے۔ اس کوریڈور کے راستے میں جو خطرات ہیں ، خطے کی سیاست کو مضبوط کیے بغیر ان پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اکیلا پاکستان یا ہندوستان ان پر قابو نہیں پاسکتا اس میں علاقائی تعاون اور اعتماد بحال کرنے کی ضروت ہے اور صرف اسی صورت میں کامیابی ہوسکتی ہے لیکن اس حوالے سے یہاں کوئی کام نہیںہورہا، میرے نزدیک اس میں ہندوستان کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ وہ ایک بڑا ملک اور بڑی معیشت ہے لہٰذا اسے ایک نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا لیکن اگر وہ ایک منفی کردار ادا کرے گا تومسائل پیدا ہوں گے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اداروں کا سیاسی استحصال کرکے انہیں تباہ کردیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں کپیسٹی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ نندی پور پراجیکٹ کے بارے میں بہت باتیں ہوئیں، انوسٹمنٹ کی گئی مگر اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوااور اب کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے ۔ اداروںکی صلاحیت کے مسئلے کو ہم اپنی پلاننگ میں نظر انداز کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے ۔حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے پاس ان منصوبوں کے لیے پیسے نہیں ہیں لہٰذا اگر پیسے نہیں ہیں توپھر ان منصوبوں کا کیا کرنا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ملک میں کرپشن ہے اورمختلف مسائل ہیں لہٰذا اب اگر وزیراعظم کا یہ موقف ہے تو پھر باقی کہاں کھڑے ہوں گے، اس سے تو مزید مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ ہم بے بس ہیںاور ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس منصوبے سے چین ہماری نسبت زیادہ فائدہ اٹھائے گا، بھارت بھی فائدہ اٹھا لے گا لیکن ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری خارجہ پالیسی کی خامیاں ہیں۔ دنیا میں بھارت کی شنوائی ہورہی ہے لیکن ہندوستان کے معاملے میں کوئی بھی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے۔

میرے نزدیک ہماری سیاسی ناکامیوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے ، اپیکس کمیٹیاں اب معاملات دیکھیں گی اور اس میں سیاسی قیادت اور کورکمانڈر بیٹھیں گے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ فیصلہ کہاں ہوگا۔اس کامطلب یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کی ساکھ ختم ہوتی جارہی ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن ممالک میں سیاست کمزورہوجائے وہاں سیاسی استحکام اورمعاشی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ ہماری سیاسی قیادت میں اتفاق رائے نہیں ہے، اس کے علاوہ ہم دہشت گردی پر بھی قابو نہیں پاسکے۔ ہمارے چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور ہم نے اس حوالے سے مناسب ہوم ورک نہیں کیا لہٰذا جب تک پوری لیڈر شپ ایک پیج پر نہیں آتی تب تک ملک کواکنامک کوریڈور جیسے منصوبوں سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔