احمد اوغلو لاہوری

ایاز خان  جمعـء 20 فروری 2015
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

آپ کو ایک ایسے ملک میں لیے چلتے ہیں جہاں کی ایک سیاسی حکومت نے صرف 12 سال کے عرصے میں فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ علاج سو فیصد شہریوں کو میسر ہے۔ شرح خواندگی ننانوے فیصد تک جا پہنچی ہے۔ آپ کا اندازہ درست ہے یہ کبھی یورپ کا مرد بیمار کہلانے والا ملک ترکی ہے۔

کبھی سلطنت عثمانیہ کی شان و شوکت اور پھر یورپ کا مرد بیمار۔ تاریخ میں کئی ایسی قوموں کی داستان ملتی ہے جو بام عروج پر پہنچیں اور پھر اپنی قیادت کی غلطیوں کے باعث تباہ و برباد ہو گئیں۔ متعدد تو ایسی ہیں جو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ بہت تھوڑی تعداد ہے ان قوموں کی جو تباہی کے بعد پھر سے ابھرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ترکی کی مثال بھی ان چند قوموں میں سے ہے جو عروج کے بعد زوال پذیر ہوئی اور اب پھر ٹیک آف کر رہی ہے۔

ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 2003 میں عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور عبداللہ گل اس کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کو عوام نے پسند کیا اور پانچ سالہ مدت پوری ہوئی تو  دوبارہ اسی پارٹی کی حکومت منتخب ہوئی۔ طیب اردوان دوسری حکومت میں وزیراعظم منتخب ہوئے اور عبداللہ گل صدر۔ 2014 میں اس پارٹی کو تیسری بار منتخب کیا گیا تو سابق وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ طیب اردوان اب ترکی کے صدر ہیں۔

اس پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلی بار 34 فیصد‘ دوسری بار 46 اور تیسری بار 49 فیصد ووٹ انھیں ملے۔ گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی ریپبلکنز پیپلز پارٹی نے ان کے مقابلے میں 24 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

موجودہ وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو سے ہماری ملاقات منگل کی رات اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہوئی۔ اس ملاقات کا اہتمام سی پی این ای کی فارن ریلیشن کمیٹی نے کیا تھا۔ محترم مجیب الرحمان شامی اس مجلس کے صدر تھے۔ ملاقات کا وقت رات ساڑھے نو بجے تھا لیکن ترک وزیر اعظم رات ساڑھے بارہ بجے کے بعد پہنچ سکے۔ ان کے آنے سے پہلے بوریت کے ساتھ ساتھ سخت غصہ بھی تھا۔ یہ غصہ اور بوریت اس وقت غائب ہو گئے جب احمد اوغلو چہرے پر مسکراہٹ لیے میٹنگ روم میں داخل ہوئے۔ انھوں نے سب کی نشست پر جا کر ان سے مصافحہ کیا۔

سب سے ملاقات کے بعد وہ اپنی نشست پر بیٹھے۔ انھوں کے تاخیر سے آنے کی نا صرف معذرت کی بلکہ وہ وجوہات بھی بتائیں جو اس تاخیر کا باعث تھیں۔ پھر وہ ہوا جو بہت کم ہوتا ہے۔ ترک وزیر اعظم نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور ہم سنتے چلے گئے۔ ان کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ جو ان کے دل میں تھا وہی زبان پر بھی تھا۔ روایتی سیاست دانوں والی منافقت نظر آئی نہ بناوٹ کا شائبہ۔ ان کی گفتگو کے دوران میں صرف یہ سوچتا رہا کہ کیا کبھی قدرت ہم پر بھی مہربان ہو گی اور ہمیں بھی کوئی ایسا پڑھا لکھا اور سوجھ بوجھ والا وزیر اعظم ملے گا۔

احمد اوغلو پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز اور پولیٹیکل سائنس اینڈ انٹر نیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی ہیں۔  1999میں انھوں نے مارمرا یونیورسٹی سے بطور پروفیسراپنے کیریئرکاآغاز کیا۔ 1995 سے 1999کے دوران وہ ترکش ڈیلی کے لیے کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ یوں وہ صحافی بھی ہیں اور انھیں اپنے صحافی ہونے پر فخر ہے جس کا انھوں نے کئی بار اظہار کیا۔ انھوں نے 2001 میں  ترک خارجہ پالیسی پر Strategic Depth کے عنوان سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے جو بہت مقبول۔ ان کی دوسری تصنیف بھی جلد آنے والی ہے۔ احمد اوغلو یکم مئی 2009سے 28اگست 2014تک وزیرخارجہ کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

اپنی پارٹی کے طرز حکمرانی اور ملکی ترقی کے بارے میں وزیر اعظم نے جو بتایا انھی کی زبانی سن لیں۔ ’’ہماری کامیاب پالیسیوں اور روشن خیالی کی وجہ سے ووٹ بینک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔عوام کا اعتماد بڑھا ہے اور عوام ہم سے مطمئن ہیں۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 3لوکل، 3جنرل اور 2صدارتی الیکشن جیت چکی ہے۔ ہماری ایئر لائن مسلسل خسارے میں جا رہی تھی لیکن اب ترکش ایئر لائن دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں سے ایک ہے‘‘۔ وزیر اعظم جب اپنی ایئر لائن کی تعریف کر رہے تھے تو مجھے ماضی کی پی آئی اے یاد آ رہی تھی۔

لوگ تو معلوم نہیں  باکمال تھے یا نہیں مگر وہ سروس ضرور لاجواب تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اب ان کی حکومت استنبول میں دنیا کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بنانے جا رہی ہے جس پر سالانہ 150ملین مسافروںکو بہترین سفری سہولت مہیا ہوںگی۔ ترکش ایئرلائن 4سال سے یورپ کے لیے سب سے بہترین ایئرلائن ہے اور یہ 2014 میں دنیا بھر کی262شہروں تک جانے والی چوتھی ایئرلائن بن گئی ہے۔

تعلیمی معیار کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اس شعبے میں وسیع پیمانے پر اصلاحات لائی گئی ہیں۔ جس کے باعث ترکی کی شرح خواندگی 99فیصد تک پہنچ چکی ہے اور جلد 100فیصد ہو جائے گی۔ شرح خواندگی میں 99.3فیصد مرد اور 98.2فیصد خواتین ہیں شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے کلاسوں میں طلبا کی تعداد 50سے 60ہوتی تھی لیکن اب انھیںکم کر کے ہر کلاس کے لیے 25طالب علم کر دیے گئے ہیں۔ مسٹر اوغلو نے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک عام سرکاری اسکول میں پڑھتی ہے۔ وزیر اعظم کی بیٹی اگر سرکاری اسکول میں پڑھے گی تو اس کا معیار خراب کیسے ہو گا۔

صحت کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ سو فیصد شہریوں کوعلاج معالجے کی سہولت موجود ہے۔ یہ ممکن نہیں کی کوئی مریض ہو اور اسپتال میں اس کا علاج نہ ہو سکے۔ ترک وزیر اعظم بے تکان بولتے رہے۔ ان کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ وقت کی قلت نہ ہوتی تو یہ محفل نجانے کتنے گھنٹے جاری رہتی۔ وہ دو دن کے دورے پر پاکستان آئے تھے لیکن پارلیمنٹ میں  ایک اہم بحث کے لیے انھیں وطن واپس پہنچنا تھا۔ ہم سب ان سے بہت سے سوال کرنا چاہتے تھے لیکن مسٹر اوغلو کو  واپس روانہ ہونا تھا۔

سوالوں کا سلسلہ شروع ہوا  تو راشد رحمان‘ شامی صاحب‘ ڈاکٹر جبار خٹک‘ عامر محمود اور ممتاز طاہر کے سوا کسی کو موقع نہ مل سکا۔ رخصت سے پہلے ایک بار پھر مصافحے کا موقع ملا تو میں نے ترک وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے لیکن لاہور کی بات ہی اور ہے۔ انھیں علامہ اقبال سے عقیدت اور لاہور سے محبت ہے۔ وہ کہنے لگے میں تو احمد لاہوری ہوں۔ باتیں اور بھی بہت ہیں لیکن وہ پھر کسی نشست میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔