شاعر کا سفر کہاں سے کہاں تک

انتظار حسین  جمعـء 20 فروری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

مولانا شبلی سے معذرت کے ساتھ۔ مرزا دبیر نے کیا عجب سلام لکھا ہے۔ آغاز یوں ہوتا ہے؎

مجرئی دہر میں ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا

یہ مطلع اگر یاد آیا تو اس کی ایک وجہ تھی۔ کتنے زمانے کے بعد ہم اپنے عزیز دوست اور ہمعصر شہرت بخاری کو یاد کر رہے تھے۔ اس حوالے سے کہ ابھی ابھی اس کا نیا مجموعۂ کلام غبار زیاں سنگ میل سے چھپ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم اس مجموعہ کے افتتاح کی تقریب سے اکیڈمی آف لیٹرز کی غریبانہ جلسہ گاہ میں جمع تھے۔ ’ہم‘ کے صیغہ سے مت سمجھئے کہ شہرت کے نئے پرانے رفقا اور حلقۂ ارباب ذوق کے پرانے دانے جمع تھے ۔ ارے وہ حلقہ اور وہ پرانے دانے اب کہاں۔ آن دفتر را گاؤ خورد‘ گاؤ را قصاب برد۔ اس سارے دفتر کو گائے نے چر لیا۔ گائے کو قصائی لے بھاگا۔ اور شہرت وقت سے پہلے بوڑھوں سے زیادہ بوڑھا ہو کر چل بسا۔ کہاں سے چلا تھا کہاں پہنچا۔ لیجیے پھر شعر یاد آ گیا۔ یہ شعر بھی عجب ہے۔ ایک تھے دلو رام‘ جی میں کیا آئی کہ ہندو سے مسلمان ہو گئے۔ شاعر تھے۔ اب نیا تخلص رکھا‘ کوثری اور شعر لکھا؎

اللہ غنی کوثری کتنا چالاک
گنگا سے جو پھسلا لبِ کوثر پہنچا

شہرت بخاری چالاک تو کسی صورت بھی نہیں تھا۔ لیکن بہر حال پھسلا کچھ اسی شان سے۔ یعنی حلقۂ ارباب ذوق سے پھسلا اور پیپلزپارٹی کے گھاٹ کو لبِ کوثر جانا۔ وہ جو اپنی قدامت پسندی میں ثابت قدم تھا اور کیا جدید شاعری اور کیا ترقی پسندی دونوں سے بیزار۔ سیاست سے متنفر۔ مگر پھر کیا ہوا۔ ہوا یہ کہ ؎

دفعتاً کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشائے لبِ بام ابھی

ذوالفقار علی بھٹو مطلع سیاست پر عجب شان لے نمودار ہوئے کہ اچھے اچھے شرفا جو سیاست سے بیگانہ چلے آتے تھے ان کے قدم ڈگمگا گئے۔ جب کوئی ایسا لیڈر ابھر کر آتا ہے جو کرشمہ ساز بھی ہو تو اس کا سحر ایسا ہی رنگ دکھاتا ہے۔ تو کجا شہرت بخاری اور کجا پیپلزپارٹی مگر کس تیزی سے حلقہ سے پھسلا اور بھٹو صاحب کے گھاٹ پہ جا کر سیراب ہوا۔ پھر اس عزیز نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہم سمجھے تھے کہ یہ عزیز اب شاعری سے بھی گیا؎

کہاں کی رباعی کہاں کی غزل

مگر اب پتہ چلا کہ اس سفر میں اسے اس نے درد و غم اتنے جمع کر لیے تھے کہ ان کی نکاسی شاعری ہی میں ہو سکتی تھی۔ تو اب نئے مجموعہ کلام کی رونمائی ہو رہی تھی۔ لجیئے شہرت کو ایک نیا نقاد بھی میسر آ گیا۔ ہماری اور یاروں کی تو باتیں ہی باتیں تھیں اس شاعری کو جانچنے پرکھنے کا حق پروفیسر ضیاء الحسن نے ادا کیا…غبار زیاں‘ کیوں اور کیسے‘ یہ اس نے بتایا۔

ویسے تو شہرت کا رنگ غزل درد و غم ہی سے عبارت چلا آتا ہے۔ مگر شاعر نے جب پچھلی روش کو سلام کیا اور اس اقلیم میں قدم رکھا جس سے اب تک وہ نا آشنا چلا آتا تھا تو نئے تجربوں سے بھی سابقہ پڑنا تھا۔ ارے یہ تو دنیا ہی اور تھی۔ ویسے تو اس دنیا میں آ کر کمانے والے کماتے بھی ہیں۔ اور اپنی ا پنی استعداد کے مطابق اچھا کماتے ہیں۔ مگر جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری ہو۔ اسے کیا کمانا ہے وہ تو بقول میر درد و غم ہی کمائے گا۔ ویسے یہ کمائی بھی چھوٹی کمائی تو نہیں ہے۔ مگر اس کمانے میں کھونا بہت پڑتا ہے۔

لیجیے اس سفر میں اس کے ہمسفر کو تو ہم بھولے ہی جا رہے ہیں۔ وہ جس کے نام یہ مجموعہ کیا گیا ہے… انتساب فرخندہ بخاری کے نام۔ کل تک یہ بی بی پردے میں بیٹھی تھی۔ ایسا ویسا نہیں سخت قسم کا پردہ۔ مگر وہ جو ایک شاعر نے مشورہ دیا تھا کہ ؎

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تو اس بی بی نے کس شان سے آنچل کو پرچم بنایا کہ اس سے آگے کی منزلیں بھی طے کر ڈالیں۔ قید و بند کی صعوبتیں۔ خانہ خرابی۔ دربدری۔ جلا وطنی ۔ لاہور سے شام‘ شام سے لندن۔ لیجیے ایک جست میں عشق کی کتنی منزلیں طے کر لیں۔ شہرت بخاری نے بہت لمبی‘ چھلانگ لگائی تھی۔ مگر آخر کو شاعر تھا۔

شاعر ہی رہا ؎
خانہ خراب تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
بس اتنا ہی ہو سکا۔ بس اتنا ہی ہوا

جیسے تیسے یہ مراحل طے کیے۔ لندن سے دونوں ساتھ واپس آئے۔ ان پر پھول برسائے گئے۔ جیوے بھٹو کے نعرے لگائے گئے۔ لوٹ کے دونوں گھر آئے۔ اور ؎

پھر وہی زندگی ہماری ہے۔ شاعر کشٹ کھینچ کر دنیا سے گزر گیا۔ پیچھے اس سارے دکھ بھرے سفر کا احوال شعر میں جس طرح رقم ہوا وہ چھوڑ گیا۔ وہ کلام چھپا اب اس کی تقریب افتتاح ہو رہی تھی۔ شہرت کا پورا گھرانا جمع ہے۔ فرخندہ بخاری‘ دونوں بیٹیاں معصومہ، مقصومہ‘ ان کے بچے یعنی شہرت کی نواسی نواسے۔ اور فرزند ارجمند علی جُو بخاری۔ لندن سے آئے بیٹھے ہیں۔ اعلان کر رہے ہیں کہ اگلے برس برسی منائی جائے گی اس طور کہ اسلامیہ کالج کے منتخب شدہ ہونہار طالب علم کو ایوارڈ دیا جائے گا۔ شہرت بخاری ایوارڈ کے نام سے۔ اور اس سلسلہ کو سال بہ سال جاری رکھا جائے گا۔ جانے والا چلا جاتا ہے۔ اس نے اگر نام کمایا ہے تو بس وہ نام رہ جاتا ہے۔ بقول شاعر ؎

دنیا میں نامیوں کا فقط نام رہ گیا
آخر میں یہی ہوا کرتا ہے۔

باقی رہ جانے والی چیزوں میں ایک نثری کتاب دو شعری مجموعے۔

آخری مجموعہ غبار زیاں۔ اس وقت نام لینے والوں میں اور یاد کرنے والوں میں کون تھا۔ پرانے ہمسفر اب کہاں۔ وہ کب کے سدھار چکے۔ ایک ہم تھے۔ کچھ کلمات ہم نے کہے‘ کچھ الطاف قریشی نے۔ کچھ سب سے آخر میں آئی اے رحمن۔ اور حرف آخر کے طور پر مرحوم شاعر کی طرف سے اعتراف ؎

کیوں کیا تھا یہ سفر بھول گیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔