بلوچستان … نگاہ بازگشت

اسلم خان  ہفتہ 6 اکتوبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

’’ بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی طرز پر ڈیتھ اسکواڈ کام کررہے ہیں۔

ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو غائب کردیا گیا ہے۔ ہمیں بھی مشرقی پاکستان جیسی صورت حال کا سامنے ہے ‘‘ ۔ اختر جان مینگل سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے تھے جس کے بعد انھوں نے تحریری بیان بھی عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا ۔

اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اخترمینگل بلوچستان کے تناظر میں مرحوم مشرقی پاکستان کا ذکر کیوں کررہے ہیں؟الشمس اور البدر کا حوالہ کیوں دے رہے ہیں؟ انھوں نے بے وقت یہ تاریخی پنڈورا بکس کیوں کھول؟ نوجوان رپورٹروں کو تو اس کے پس منظر کا یکسر علم نہیں تھا کہ مطالعہ کا شوق معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح اخبار نویسوں میں بھی ناہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔ وہ تو بھلا ہو برادر م محسن رضا کا کہ انھوں نے گزشتہ دنوں ماضی کے نامور اخبار نویس ، مدیر شہیر سید شبیر حسین شاہ کے کالموں کا مجموعہ ’’ نگاہ بازگشت ‘‘ عنایت کیا ۔

کتاب کیا ہے۔ معلومات کا ایک خزینہٗ ہے ۔سقوط مشرقی پاکستان سے ضیاء الحق کے نصف الہنار تک رونما ہونے والے واقعات، ان کا پس منظر اس میں موجود ہے۔

جناب شاہ صاحب سے خاکسار کا بڑا تعلق رہا ۔ مجھے ان کی کفش برداری کا شرف حاصل رہا ، اب تو معدودے چند اصحاب کو یاد ہو گا کہ انھوں نے ڈھاکا ڈوبنے سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے بحران پر پیشگی خبردار کرنے کے لیے انگریزی میں ایک کتاب (LENTHING SHADOWS) لکھی تھی۔ قبلہ شاہ صاحب نے اس متبدی کو کتاب عطا کرتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ انگریزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو ۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے ٗسد ا کا یہ نالائق اس پر کیا عمل کرتا ۔ مدتوں اس کتاب کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ علم محدود اور معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔

5 جولائی 1974 ء کو ’’بلوچستان کا خطرناک کھیل ‘‘کے عنوان سے ان کا ایک طویل تجزیہ شایع ہوا۔ اس کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجے ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف کردار بدلے ہیں، حالات نہیں۔ کامل 38 برس بعد بھی ہمیں ایک بار پھر اسی قسم کی صورت حال درپیش ہے ۔ قدرت کی اس ستم ظریفی کو قادر الکلام منیر نیازی نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا

اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

بلوچستان کی صورتحال کا مشرقی پاکستان سے تقابل کرتے ہوئے جناب اختر جان مینگل کے والد سردار عطاء اللہ مینگل کے بارے میںلکھتے ہیں۔’’ آئے دن بیرونی مداخلت اور مشرقی پاکستان کے ڈرامے کو دہرانے کا ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ جب قوم اندر سے پھٹ جائے اور ملک کے کئی ایک رہنما بیرونی مداخلت کی رٹ لگاتے رہیں تو یہ مداخلت ہو کے رہتی ہے لیکن مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں کوئی مماثلت نہیں، یہاں کے بلوچ رہنما وہ کچھ نہیں چاہتے جو مجیب چاہتا تھا اور نہ ہی سارے صوبے میں ان کی وہ حیثیت ہے جو مجیب کی اپنے صوبے میں تھی۔ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کی طرف سے اس قسم کا استدلال بھی ایک خطرہ ہے۔

سردار عطااللہ مینگل کے متعلق عام طور پر یہ کہا اور سنا جاتا ہے کہ وہ خالص پاکستانی ذہن کا آدمی ہے۔ آخر بلوچ آزاد ہو کر کدھر جائے گا؟ قوم پرست قیادت بلوچستان کو دوسرا بنگلہ دیش کہتی ہے تو یہ یا تو حکومت کو ڈرانے کے لیے ہے یا اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے، عطا اللہ مینگل کچھ اور سوچتے ہیں، عظیم بلوچ ریاست کا خواب ایک آدھ سردار یا نوجوانوں کے ذہن میں کبھی کبھار ضرور آتا ہے مگر ان کے اپنے نزدیک یہ ناممکن الحصول ہے۔

وہ اس قدر جاہل نہیں کہ پاکستان سے علیحدگی کے شوق میں کسی ظالم کے چنگل میں پھنس جائیں۔بلوچستان کے مسئلہ کو نہ سمجھنا اور اس کے حل سے گریز کرنا موجودہ وقت کی سب سے بڑی حماقت اور پاکستان پر سب سے بڑا ظلم ہو گا۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بلوچ سرداروں کی قیادت کا مسئلہ ہے لیکن یہ قیادت ایسی نہیں ہے جسے قانون کے ذریعے مٹا دیا جائے یا جیل میں بند کر دیا جائے۔ بلوچوں میں سرداری سسٹم کسی قانون ساز ی کا محتاج نہیں، وہ ایک انتہائی جابرانہ اور مستحکم نظام ہے جو ظالمانہ بھی ہو سکتا ہے اور بھی بیشتر لوگ یہ قبول کر نے کو تیار نہیں کہ بلوچ سردار پاکستان سے باہر رہنا چاہتے ہیں‘‘

قریبا چار دہائی قبل بلوچستان کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں ’’ آج بلوچستان میں صورتحال نہ اتنی دردناک ہے جتنی حزب اختلاف والوں کا دعویٰ ہے، نہ اتنی اطمینان بخش جتنا کہ حکمران لوگ پیش کر رہے ہیں۔ صحیح لفظ جو بلوچستان کی صورت کے بارے میں استعمال ہو سکتا ہے وہ ’’خطرناک‘‘ہے‘‘مدتیں گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہم بلوچستان میں اسی صورت حال سے دو چار ہیں۔ سید شبیر حسین شاہ نے بلوچستان کی معاشرتی ٗ جغرافیائی اور لسانی صورت حال کو جس خوبصورتی سے پیش کیا تھا۔ وہ بھی خاصے کی چیز ہے ۔

’’بلوچستان ایک عجیب و غریب خطہ ہے، جغرافیائی، نسلی اور سیاسی ہر لحاظ سے یہ صوبہ جو سابق قلات ریاست اور برٹش بلوچستان کے امتزاج سے وجود میں آیا ایک لاکھ 34 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ آب و ہوا کے بے شمار رنگ اور اختلاف ہیں اور یہی کچھ وہاں پر بسنے والے لوگوں کی حالت ہے۔ وہاں کی آبادی میں بلوچ ،پٹھان، ہزارے، تھوڑے سے ایرانی نژاد اور کچھ سندھی، کچھ پنجابی اور کچھ ’’مہاجر‘‘ شامل ہیں۔ بلوچ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسرے نمبر پر پٹھان آتے ہیں اور گو سابق نیپ حکومت نے بلوچوں اور پٹھانوں کی مشترکہ نمایندگی کا بیڑا اٹھا یا تھا، مگر ان دونوں گروہوں کے درمیان کوئی پائیدار پل تعمیر نہیں ہو سکا۔

بلکہ پٹھانوں کی طرف سے ،خاص طور پر پختوں خواہ کے پلیٹ فارم سے صوبے کے اندر’’دو قومی ‘‘نظریہ کا پرچار پوری شدت سے کیا جاتا ہے۔ خود بلوچوں اور پٹھانوں میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قبیلے ہیں جن میں بظاہر کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس تمام’’اختلاف رنگ و نسل‘‘ کے باوجود ان کی پسماندگی کی داستان ایک ہی ہے،غربت اور زندگی کی دشواریوں کے نقطہ نگاہ سے وہ ایک’’رنگ‘‘ اور ایک’’نسل‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے رہن سہن اور ثقافت میں کوئی فرق نہیں۔ اونٹ،گھوڑا،بھیڑ،بکری اور بندوق ان کا سرمایہ ہیں۔ ان مویشیوں کو چرانے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ان کو بڑی لمبی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ لوگ عام طور پر پر امن اور بے ضرر ہیں مگر بعض اوقات ان کے اندر ایک خوفناک لاوا اٹھتا ہے جس کو دبانا ممکن نہیں ہوتا۔

دشوار گزار اور خطرناک پہاڑوں میں رہنے والے یہ لوگ اکثر دبلے پتلے اور تیز خرام ہوتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کے چہرے پر بھوک کے گہرے نشان نظر آئیں گے۔ پہاڑ اکثر ننگے ہیں مگر ان کے سینوں میں ایسی قیمتی دھاتیں چھپی پڑی ہیں جن کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ان پہاڑوں کے درمیان بیشر جگہ چھوٹی بڑی وادیاں بکھری پڑی ہیں ،جہاں پانی کی فراوانی کے باوجود زراعت کے پیشہ کو اپنایا نہیں گیا۔ اکثر لوگ پسند کرتے ہیں کہ وہ عام شہری آبادی سے دور،پہاڑی میں اپنی کمین گاہوں میں بدوآنہ زندگی کو اسی نہج پر چلاتے جائیں جو صدیوں سے ان کے آبائو اجداد کا وطیرہ رہا ہے۔

مدتوں سے اس علاقے کو صرف نظم و نسق کے نقطہ نگاہ سے دیکھا گیا اور پاکستان بننے کے بعد بھی ملک کے اس گراں سرمایہ کی طرف محبت کی نگاہ نہ اٹھی۔بلوچستان کی اقتصادی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ ان کے سرداروں اور ان کی اولاد کو بھرپور زندگی میسر ہے۔ وہ دنیا جہان میں گھومتے ہیں، ان کے پاس ہر چیز کی فراوانی ہے۔ مگر بلوچ جو ان سرداروں کو اپنا دنیاوی اور مذہبی پیشوا تصور کرتے ہیں، بھوک ، ننگ اور پسماندگی کے گہرے گڑھے میں سسکیاں لے رہے ہیں۔ ایک تھوڑے سے پڑھے لکھے نوجوان بلوچ نے ایک دفعہ کہا:۔’’جب دو بلوچ سردار نبرد آزما ہوتے ہیں تو غریب بلوچ اپنی بھیڑ بکریاں بیچ کر بندوق کی گولیاں خریدتا ہے اور اپنے سردار کی خاطر جان بکف ہو جاتا ہے، اس کو اپنے بال بچوں کی کچھ پروا نہیں ہوتی‘‘۔

حرف آخر یہ کہ شاہ صاحب نے تقریبا 40 سال پہلے لکھا تھا ’’حقائق سے چشم پوشی نے پاکستان توڑدیا تھا۔ اس وقت کہ فوجی صدر یحییٰ خان بلندو بانگ دعویٰ کرتے تھے کہ اگر بھارتی فوجیں پاکستان کے اندر ایک انچ بھی بڑھی تو ان کا صفایا کردیا جائے گا۔ یحییٰ خان کا ایک انچ 56 ہزار مربع میل سے بھی زیادہ بڑا ثابت ہوا۔

بلوچستان کا مشرقی پاکستان کے ساتھ موازنہ مجیب کے چھ نکات میں سے مسٹر بھٹو کا ساڑھے5 نکات قبول کرنا اور آدھے سے انکار اور پھر اس انکار کی بنا پر بنگلہ دیش کا قیام، ’’بلوچستان کا مسئلہ اس آدھے نکتے سے زیادہ اہم ہے۔‘‘احرار السلام کے خطابت علامہ عنایت اللہ مشرقی سے فکری طور پر متاثر جناب شبیر حسین شاہ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جنہوں نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت یاشہادت کو بے بنیاد افسانہ قرار دیتے ہوئے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا کہ اسامہ 6 سال پہلے انتقال کر چکے تھے، ان کی نعش ایبٹ آباد لا کر ڈرامہ رچایا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔