ذمے دار میں خود ہوں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 20 فروری 2015

چینی کہاوت ہے ’’اگر آپ دو خرگوش پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں تو وہ دونوں فرار ہوجائیں گے‘‘۔ خدا کے واسطے تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، بھاگنا بند کردیجئے، ہانپنا بھی بند کردیں، آہستہ آہستہ سانس لیں، اب ذرا سوچئے کہ آپ کیوں بھاگ رہے ہیں اور کس سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں؟ کیا آپ اپنے آپ سے ڈر کے بھا گ رہے ہیں یا کسی منزل کو پانے کے لیے بھاگ رہے ہیں یا بغیر سوچے سمجھے بے مقصد بھاگے جارہے ہیں؟ آج ملک کے 18 کروڑ لوگ بھاگے جارہے ہیں، بس بھاگے جارہے ہیں، خوفزدہ، ڈرے، سہمے ہوئے، اپنے آپ کو ظالموں، لٹیروں، قاتلوں سے بچانے کے لیے بھاگے جارہے ہیں۔ لیکن بے چارے کیا کریں؟ بھاگتے ہیں، ان سے محفوظ رہنے کے لیے، لیکن بھاگتے بھاگتے دوبارہ وہیں آپہنچتے ہیں جہاں سے بھاگے تھے۔

ان کا وہ سفر ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہوپاتا ہے۔ بیچارگی، لاچارگی کی تمام حدیں پار ہوگئی ہیں، وہ ان حدوں سے بہت دور نکل آئے ہیں، اب آپ کے پاس صرف دو راستے باقی بچے ہیں، ایک تو یہ کہ اسی طرح بھاگتے رہیں اور بار بار واپس اسی جگہ پہنچتے رہیں جہاں سے بھاگتے ہیں یا پھر ایک بار ہمت، جرأت کرکے اپنے قاتلوں، لٹیروں، غاصبوں کو للکار لیں کہ بس بہت ہوچکا، اب مزید اور اپنے ساتھ زیادتی اور ظلم نہیں کرنے دیں گے۔ یاد رہے آپ دو خرگوش ایک ساتھ پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک طرف آپ اپنے لیے اختیار، آزادی، ترقی، امن اور خوشحالی کے خواہش مند ہیں اور دوسری طرف آپ اپنی کم ہمتی، بزدلی، ڈر اور خوف سے بھی نجات حاصل نہیں کررہے ہیں۔ ظاہر ہے خوشحالی، اختیار، آزادی، ترقی آپ کو سڑک پر چلتے چلتے پڑے ہوئے نہیں ملیں گی اور نہ ہی یہ کسی لاٹری یا پرائز بونڈ کے انعام کے ذریعے آپ کے ہاتھ آنی ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے لیے تو صرف ایک ہی راستہ ہے جو پوری دنیا نے اپنایا اور وہ راستہ ہے جدوجہد، ہمت، جرأت اور محنت کا راستہ۔ یہ بھی یاد رہے کہ صرف قاتل، انتہاپسند، دہشت گرد اور لٹیرے ہی اکیلے مجر م نہیں ہیں۔

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ اگر کسی جگہ ظلم ہورہا ہے تو اس کی ذمے داری دو فریقوں پر عائد ہوتی ہے، ایک وہ جو ظالم ہے اور دوسرا وہ جو ظلم کو قبول کررہا ہے، یعنی اس کے خلاف کوئی احتجاج یا مزاحمت نہیں کرتا۔ ان دونوں فریقوں کے تعاون اور اشتراک کے نتیجے میں ظلم وجود میں آتا ہے، ورنہ ظلم کا وجود ممکن نہیں ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے، ایک شخص ظلم کرتا ہے اور دوسرا اس ظلم کو قبول کرتا ہے۔ ظلم کے خلاف خاموشی دراصل آپ کی رضامندی ہوتی ہے کہ آئیں آپ کو اجازت ہے کہ مجھ پر ظلم کریں۔

ابن خلدون نے کہا ہے ’’ظلم اسی میں محدود نہیں کہ کسی سے اس کا مال یا اس کی چیز بلامعاوضہ چھین لی جائے بلکہ ظلم عام ہے وہ ہر شخص جو کسی سے کسی کی چیزچھین لے یا اس کے دائرہ عمل میں ہو اسے غصب کرے یا اس کا اس سے ناحق مطالبہ کرے یا کوئی ایسا حق اس پر فرض کردے جو شریعت نے اس پر فرض نہ کیا ہو، وہ ظالم ہیں، لوگوں کے حقوق روکنے والے ظالم ہیں، وصول یابی میں تشدد برتنے والے ظالم ہیں، مال لوٹنے والے ظالم ہیں۔ غرض ان تمام ظلمتوں کا وبال حکومت پر ہی پڑتا ہے جو آبادی کی ویرانی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ویرانی اس لیے آتی ہے کہ ظلم سے لوگوں کی امیدیں ختم ہوجاتی ہیں اور دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ شارع علیہ السلام نے جو ظلم حرام فرمایا ہے۔

اس میں یہ ہی حکمت کارفرما ہے یعنی اس سے آبادی میں نقصان اور ویرانی لازم آتی ہے اور ظلم نسل انسانی کے فنا ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ ہی وہ عام حکمت ہے جس کی رعایت شرع نے اپنے پانچ ضروری مقاصد میں پیش نظر رکھی ہے یعنی دین، نفس، عقل، نسل اور مال کی حفاطت کی جائے پھر انھیں ضائع نہ ہونے دیا جائے، پھر جب ظلم انسانی نسل کے کٹ جانے کی خبر دیتا ہے کیونکہ اس سے ویرانی لازم آتی ہے تو اس میں خطرے کا وجود ہے، اس لیے ظلم کی حرمت میں سنگینی ہے، ظلم پر خاص لوگ ہی قادر ہوتے ہیں، کیونکہ ظلم طاقت والا اور سلطان ہی کرسکتا ہے‘‘۔

آئیں ہم سوچیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ایک سوچنے والے زندہ انسان کے خیالات میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر نہیں بدلتا تو پتھر نہیں بدلتا۔ ایک صاحب نے کیا خوب کہا تھا میں اپنی مصیبتوں کا دوسرے لوگوں کو ذمے دار سمجھنے کا عادی تھا لیکن جوں جوں میری عمر بڑھتی جارہی ہے اور شاید عقل و شعور بھی، میں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ اپنے سارے مصائب کا ذمے دار میں خود ہوں۔ کمزوری، بزدلی اور خوف جسم میں نہیں بلکہ ذہن میں پرورش پاتے ہیں جس کو ہم پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، جب تک ہمارے اندر کے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے، کچھ بدلنے والا نہیں۔ یاد رکھیں، ہمیں اپنی مدد آپ کرنی ہے، نہ ہی کوئی دوسرا آدمی ہماری مدد کرسکتا ہے، یہ جنگ اور یہ لڑائی ہماری اپنی ہے اور اسے ہمیں ہی لڑنا ہے۔

ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے جبکہ پانے کے لیے سارا جہاں ہے۔ آؤ فیصلہ کریں، دماغ سے نہیں بلکہ دل سے، کیونکہ دل سے کیے فیصلے ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ آج ساری دنیا ہمارے حالات کی وجہ سے ہم پر ترس کھارہی ہے، نجانے ہمیں اپنے آپ پر ترس کیوں نہیں آتا ہے۔ لٹیروں، قاتلوں، ظالموں اور غاصبوں سے بڑا بزدل کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تاریخ نے ہمیشہ سچ ثابت کی ہے، اگر آپ کو اس بات کی سچائی پر کوئی شک و شبہ ہے تو اپنے بزرگوں سے پوچھ کر دیکھ لو، جو جواب ملے اس پر ایمان لے آؤ۔

اپنے خیالات کو تبدیل کرنا سب سے بڑا جہاد ہے، آئیں ہم اپنے بزرگوں کی اس بات کو پھر یاد کرتے ہیں کہ شریف آدمی سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ہوسکتا، وہ اگر ایک دفعہ کھڑا ہوجائے تو اس کے سامنے کھڑا ہونے کی کوئی بھی جرأت نہیں کرسکتا۔ کیا پڑوسی ملک میں عام آدمیوں نے اپنی پارٹی بناکر کامیابی نہیں حاصل کی۔ کیا وہ کرپشن، لوٹ مار، ظلم و ستم اور اپنے حق کے لیے نہیں کھڑے ہوئے، کیا انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملی۔ یاد رکھو کامیابی آپ کی بھی منتظر ہے لیکن دیر آپ کی طرف سے ہورہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔