خامہ بگوش کی یاد میں

رئیس فاطمہ  اتوار 22 فروری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

21 فروری 2005ء سے پہلے جب بھی ایک فون نمبر ملایا، تو دوسری جانب سے نہایت نرم اور شائستہ آواز ابھری۔ ’’جی فرمائیے‘‘ لب و لہجے سے کسی اہل زبان کا رنگ جھلکتا تھا۔ لیکن یہ مہذب آواز ہوتی تھی مشفق خواجہ کی، جو اہل زبان نہ ہونے کے باوجود ان سے اچھی اردو بولتے تھے اور بعض اوقات خود اہل زبان خواجہ صاحب سے کسی لفظ کا صحیح تلفظ معلوم کرتے تھے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے۔ لیکن افسوس کہ خواجہ صاحب کے جانے کے بعد کوئی ان کا خلا پر نہ کر سکا۔ کیسا قحط الرجال ہے کہ جو اٹھتے جا رہے ہیں، ان کی جگہ خالی ہے، سامنے کی بات ہے، فیض، ابن انشا، استاد امانت علی خاں، روشن آرا بیگم، صادقین، گل جی، کرشن چندر، منٹو، عطیہ فیضی، فیضی رحمین، بڑے غلام علی اور پھر مشفق خواجہ کی رحلت کے بعد کوئی ان کی جگہ نہ لے سکا۔

مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحئی تھا۔ انھوں نے 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں جنم لیا، کراچی یونیورسٹی سے 1958ء میں اردو لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر کراچی کی زلفوں کے ایسے اسیر ہوئے کہ اسے اپنی محبوبہ بنا لیا۔ وفات سے پہلے ہی انھوں نے اپنے نادر و نایاب کتب خانے کے بارے میں وصیت کر دی تھی کہ اسے کراچی سے باہر منتقل نہ کیا جائے۔ ان کی خواہش کے مطابق مشفق خواجہ لائبریری پاپوش نگر کے قبرستان کے قریب ایک مکان میں ہے۔

عجب اتفاق ہے کہ لائبریری سے قریب ہی ابن انشا محو خواب ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی لائبریری میں اتنی ریفرنس بک نہیں ہیں جتنی خواجہ صاحب کی لائبریری میں ہیں۔ خواجہ صاحب 1957ء سے 1973ء تک انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں مولوی عبدالحق جیسے پارکھ کی شفقت نصیب ہوئی، جنھوں نے خواجہ صاحب کے جوہر قابل کو پہچان کر اسے سامنے لانے میں پوری مدد کی۔ وہ انجمن میں علمی و ادبی شعبے کے نگراں رہے۔

بہ حیثیت مدیر وہ ’’قومی زبان‘‘ اور ’’سہ ماہی اردو‘‘ سے وابستہ رہے۔ خواجہ صاحب اہلیت اور قابلیت کے قدردان تھے، وہ خوشامدیوں اور سفارشیوں سے دور رہ کر اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ وہ ایک نامور محقق تھے، لیکن ساتھ ہی بہترین طنز نگار، کالم نویس اور نقاد بھی تھے۔ حالانکہ خواجہ صاحب نے طنز و مزاح کا میدان صرف ادبی کالم نویسی کے لیے اپنایا تھا۔ ’’خامہ بگوش‘‘ ان کا قلمی نام تھا۔ لیکن یہ ادبی کالم اپنے تنوع، برجستگی اور کٹیلے جملوں کی وجہ سے اپنا ایک الگ اور بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان کالموں میں آمد ہی آمد ہے۔ جیسے کوئی آبشار بہہ رہا ہو، اسی روانی سے ان کے قلم سے جملے نکلتے تھے۔

خواجہ صاحب کا طنز پھکڑ پن کے مزاح سے کوسوں دور تھا۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں ایسی چٹکیاں لیتے تھے جو صرف زیر لب مسکراہٹ تک محدود ہوتی ہے۔ خواجہ صاحب کے چار کالموں کے مجموعے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ (1)۔ خامہ بگوش کے قلم سے۔ (2)۔ سخن در سخن۔ (3)۔ سخن ہائے گسترانہ۔ (4)۔ سخن ہائے ناگفتنی۔ ان کے علاوہ تذکرہ، تذکرہ خوش معرکہ زیبا۔ غالب اور صغیر بلگرامی۔ جائزہ مخطوطات اردو۔ کلیات یگانہ (ترتیب و تدوین)۔ خواجہ صاحب نے ریڈیو کے لیے مختلف موضوعات پہ پچاس سے زائد فیچر بھی لکھے۔

وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’ابیات‘‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری میں اداسی اور افسردگی کا عنصر نمایاں ہے۔ ذات کی تنہائی شاید اس جذبے کی نمو کرتی ہے۔ خواجہ صاحب کے اشعار اس بات کے غماز ہیں کہ انسان انجمن میں بھی تنہا ہوتا ہے۔ شاید ہر فنکار خواہ اس کا تعلق فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے ہو آگہی کے آشوب سے واقف ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب پہ تقریباً پندرہ سے زائد تحقیقی مقالے لکھے گئے۔

ڈاکٹر خلیق انجم (دہلی) اور جناب انور سدید نے ان پر بالترتیب ’’مشفق خواجہ ایک مطالعہ‘‘ اور ’’مشفق خواجہ ایک کتاب‘‘ نامی کتابیں لکھیں۔ خواجہ صاحب کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے مکتبہ تخلیقی ادب سے نصراللہ خاں صاحب کے خاکوں کا مجموعہ ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ شایع کیا جو اب نایاب ہے۔ اس کے علاوہ تحقیقی مضامین پہ مشتمل مجموعہ ’’تحقیق نامہ‘‘ بھی خواجہ صاحب کی ایک گراں قدر تصنیف ہے۔

خواجہ صاحب کے کالموں کا ذکر ہو اور ان کے اقتباس نہ دیے جائیں یہ تو ممکن ہی نہیں۔ لکھتے ہیں ’’کراچی کی ہر اچھی چیز کو لاہور یا اس کے قرب و جوار میں منتقل کر دینے کا کام ایک عرصے سے جاری ہے۔ سب سے پہلے دارالحکومت پہ ہاتھ صاف کیا گیا۔ پھر اقبال اکیڈمی کو کراچی بدر کر کے سپرد لاہور کر دیا گیا۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس شہر میں علامہ اقبال کا مزار پہلے سے موجود تھا۔ اقبال اکیڈمی کی وجہ سے ایک ہی شہر میں علامہ کے دو مزار بن گئے۔‘‘

محمد خالد اختر نے خواجہ صاحب کی تحریر پہ تبصرہ کرتے ہوئے بڑا زبردست جملہ کہا تھا کہ ’’ان کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔‘‘ بات تو سو فیصد درست ہے، بھلا کون سا کالم ایسا ہو گا جو اس سے بچا ہو گا۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ خوبی ’شاخ ہری اور پیلے پھول، اپنا گریباں چاک، دامن یوسف، سفرنامہ یا شاہی دسترخوان، اردو ادب کے مہاراج کتھک، رونمائی یا رسوائی، ادیب اور راگ؟۔ ’تنقید یا قصیدہ گوئی، انشائیے کی تدفین، پبلک ریلیشنگ‘ ادب کا جعلی شناختی کارڈ، اسقاط سخن‘ شہرت اور شاعری کی دوڑ، ڈبویا ان کو ہونے نے‘۔ میں زیادہ نظر آئی۔

ایک اقتباس ’’دامن یوسف تار تار‘‘ سے ملاحظہ ہو یہ ایک ایسی خاتون کی کتاب پہ تبصرہ ہے جو ادیبوں اور شاعروں کا ’’خصوصی کلیکشن‘‘ رکھتی تھیں۔ فیض صاحب کے خطوط اس کتاب کا موضوع ہیں۔ پورا کالم پڑھنے کی چیز ہے۔ ایسے ایسے کٹیلے اور تیکھے جملے ہیں کہ دو دھاری تلوار کا محاورہ یاد آ جاتا ہے۔ ’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کتاب کا نام ’’دامن یوسف‘‘ کے بجائے ’’دامن یوسف تار تار‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس کے ہر صفحے پر ’’دستِ زلیخا‘‘ کی کار فرمائیاں نظر آتی ہیں۔

ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے۔ اصل چیز تو فریقین کا طریقۂ واردات ہے۔ اور پڑھنے والوں کو اسی سے سروکار رکھنا چاہیے۔ کہ کتاب ہرگز مہنگی نہیں 70 روپے دراصل اس تصویر کی قیمت ہے جو کتاب کے عقبی سرورق پہ چھاپی گئی ہے۔ جس میں فیض صاحب شب خوابی کا لباس پہنے نیم دراز ہیں اور ان کے شانوں پہ ہاتھ رکھے کوئی اور بھی موجود ہے۔‘‘

’شاخ ہری اور پیلے پھول‘ ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کوئی ہری شاخ نظر نہیں آتی نہ کوئی پیلا پھول، اگر کچھ دکھائی دیتا ہے تو غیر متعلق باتوں کا جھاڑ جھنکاڑ، کہیں موسیقی کی تاریخ اس طرح بیان کی جا رہی ہے کہ اگر پڑھنے والے کو موسیقی سے دلچسپی ہو تو یہ دلچسپی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ دل چاہ رہا تھا کہ ’’اپنا گریباں چاک‘‘ نامی کتاب جو ڈاکٹر جاوید اقبال کی تخلیق ہے اس پر تبصرے کے کچھ جملے بھی نقل کیے جاتے۔ لیکن یہاں ایک دو اقتباسات سے کام نہیں چلے گا بلکہ قارئین کی آتش شوق مزید بھڑکے گی۔ کیونکہ خواجہ صاحب نے زبان اور گرامر کی جن غلطیوں کی نشاندہی کی ہے وہ بڑی زبردست ہے۔ صرف ایک جملہ سن لیجیے۔ ایک سطر یوں ہے ’’اسلامیہ کالج کے گراؤنڈ سے جنازہ خراماں خراماں چلتے ہوئے۔‘‘

اس پر خواجہ صاحب فرماتے ہیں ’’اگر مصنف کو ’’خراماں خراماں‘‘ کے معنی معلوم ہوتے تو وہ ایسا ہرگز نہ لکھتے۔ یہ الفاظ محبوب کی خوش رفتاری اور اٹھلا کر چلنے کے لیے آتے ہیں۔‘‘ اور اب خواجہ صاحب کے کچھ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے۔ آپ بھی یقینا یہ کہیں گے کہ انھوں نے شاعری بھی محض وقت گزاری کے لیے نہیں کی۔

اپنی یادوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے
کسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا
…………
جانے والا جو کبھی لوٹ کے آیا ہو گا
ہم نے اک عمر کا غم کیسے چھپایا ہو گا
…………
یہ کوئی دل تو نہیں ہے جو ٹھہر جائے گا
وقت اک خواب رواں ہے سو گزر جائے گا
…………
قدم اٹھے تو عجب دل گداز منظر تھا
میں آپ اپنے لیے راستے کا پتھر تھا
…………
عجیب کوچۂ قاتل کی رسم ہے کہ یہاں
جو قتل کرتا ہے وہ خوں بہا بھی دیتا ہے
…………
چہرہ تو چمک دمک رہا ہے
اندر سے یہ شخص بجھ چکا ہے
…………
گھر کی دیواروں پہ تنہائی نے لکھے ہیں جو غم
مرے غم خوار انھیں بھی کبھی پڑھ کر دیکھیں
…………
اپنی دنیا میں خوشی آئی تو ایسے آئی
جیسے اک نقش بنے‘ بنتے ہی پھر مٹ جائے
…………
ہر آئینہ مری آنکھوں سے پوچھ لیتا ہے
وہ عکس کیا ہوئے آباد جن سے یہ گھر تھا

1988ء میں خواجہ صاحب کو ان کی خدمات پہ صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ افسوس کہ 21 فروری 2005ء کو وہ آواز ہمیشہ کے لیے گم ہو گئی جو کہتی تھی ’’فرمائیے۔۔۔۔!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔