میں اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھی…

شیریں حیدر  اتوار 22 فروری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چند برس قبل تک جب ہم بیرون ملک سفر کرتے تھے تو لوگ یہ جان کر خوش ہوتے تھے کہ ہم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر اب پاکستانی ہونا یوں ہی ہے جیسے آپ نے کسی کو گالی دے دی ہو، لوگ منہ بسور کر، آپ سے ہٹ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں تو سمجھی تھی کہ ہمارے حکمرانوں کے سعودی عرب میں کاروبار اور سعودی فرمانرواؤں سے ذاتی تعلقات کے باعث سعودیہ میں پا کستانی کہلانا باعث عزت و افتخار ہوتا ہو گا ، مگر…

میں تہجد اور فجر کی ادائیگی کے بعد، مسجد نبوی کے پچیس نمبر گیٹ سے داخل ہو کر، ریاض الجنہ کو جانے والے دروازے کے سامنے ان ہزاروں متمنی عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھی جو غالباً تہجد ، فجر یا ممکن ہے کہ عشاء کے بعد سے بیٹھی ان بند دروازوں کے کھلنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کو یونہی بیٹھ کر کوئی نہیں گزار رہا تھا، قرآن، تسبیح یا نوافل ہر کوئی مصروف تھا، میں حسب عادت اپنے ارد گرد والوں کو سلام کر کے بیٹھ گئی، میرے ہاتھ میں تسبیح تھی، میں نے روضہ رسولﷺ کی جالیوں کو چشم تصور میں لا کر درود شریف کا ورد شروع کر دیا۔

یہاں سے تین دورازے کھلتے ہیں جن سے عورتوں کو باری کے ساتھ اندر بھجوایا جا رہا تھا، فجر، ظہر اور عشاء کے بعد تین اوقات میں لگ بھگ تین گھنٹوں کے لیے یہ دروازے کھلتے ہیں اور ان سے ایک مخصوص تعداد میں خواتین کو اندر بھجوا کر دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، باقی عورتیں اگلے وقت کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں۔

میں جونہی پہلے دروازے کے پاس پہنچی، ایک کرخت آواز میں مجھے بتایا گیا کہ یہ دروازہ ہمارے لیے نہیں تھا، یہاں زیادہ تر عربی عورتیں بیٹھی تھیں سو میں اگلے دروازے کی طرف چل دی، وہاں سے اسی طرح کی ایک اور کرخت آواز میں کہا گیا کہ یہ جگہ پاکستانیوں کے لیے نہیں ہے، پاکستانی، انڈین اور بنگالی… ’’ اگلا دروازہ!‘‘ میں کھڑی رہی، ’’ پاکستان سے آئے ہو؟ ‘‘ اس نے اردو میں سوال کیا۔

’’ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ‘‘ میں نے جوابا انگریزی میں سوال کیا۔’’ اگر پاکستان سے آئی ہو تو اگلے دروازے پر جاؤ، یہ ترکیہ، ایران اور انڈونیشیا کا دروازہ ہے ‘‘ اس نے وضاحت کی۔ میں نے اگلے دروازے کی طرف دیکھا اور اس کے سامنے مسجد کے باہر تک جاتے ہوئے ہجوم کے رش کو دیکھا اور دل ہی دل میں ایک فیصلہ کیا۔

’’ میں ابھی پاکستان سے نہیں آئی ‘‘ میں نے جھوٹ بھی نہیں کہا اور مبہم سا جواب دیا۔

’’ کہاں سے آئی ہو؟ ‘‘ سوال داغا گیا۔

’’ میں مکہ سے آئی ہوں !! ‘‘ میری انگریزی سے وہ سمجھی ہو گی کہ مجھے اردو بولنا نہیں آتی، وہ چلی گئی اور میں وہیں بیٹھ گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ دروازہ ساڑھے سات بجے کھلے گا جو کہ نو بجے کھلا، پہلا دروازہ وہی کھلا جس کے باہر زیادہ تر عربی عورتیں انتظار میں تھیں اور اس کے علاوہ وہیل چئیر پر بیٹھی ہوئی خواتین۔ اس کے نصف گھنٹے کے بعد دوسرا دروازہ کھلا اور ہمارے گروپ کی عورتیں اندر جانے لگیں، بھگدڑ سی بھگدڑ تھی، ہر کوئی جلدی میں تھا غالباً پہلے جانے والوں کو زیادہ ثواب ملتا۔

چند سو گز جا کر اندر ایک اور برآمدے میں تمام گروپ بٹھا دیے گئے جہاں سے آگے دروازے پھر بند تھے، اندر برآمدوں میں بھی اسی طرح گروپ بندی کی گئی تھی، آدھے گھنٹے کے بعد ہمیں ان برآمدوں سے آگے بھیجا جانے لگا، میں نے مڑ کر دیکھا، پاکستانی عورتوں کی طرف کا دروازہ اب تک نہیں کھلا تھا، جب ہمیں اگلے برآمدے سے آگے بھجوایا جا رہا تھا تو اس کے عقب میں وہ دروازہ کھولا گیا تھا۔

میری نظر کے سامنے روضہ رسول ﷺ تھا اور میرا دل خوشی کے احساس سے لرز رہا تھا، میں اس کرم کے قابل تھی بھی کہ نہیں !!! میں نظروں کی تڑپ لیے وہاں بیٹھ گئی، کچھ یاد نہ تھا کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں… اندر ایک میلہ سا لگا ہوا تھا، ہزاروں کی تعداد میں خواتین تھیں، دو سوکے قریب سب سے آگے قطار میں تھیں جہاں سے روضہ رسول ﷺ میں داخلے کا راستہ ہے اور باقی پیچھے گروپوں کی صورت میں بیٹھی تھیں۔ میرے داہنی طرف جو گروہ تھا وہ پاکستانی عورتوں کا ایک گروہ تھا، میں نے ان سب کو سلام کیا، انھوں نے جواب دیا اور اپنی بات چیت میں مشغول ہو گئیں۔

’’ سامنے جو کھمبے نظر آ رہے ہیں نا … ‘‘ ایک عورت پنجابی میں باقیوں کو بتا رہی تھی ، ’’ آپ بھی سنیں!!‘‘ اس نے مجھے مخاطب کیا، ’’ آپ پہلی بار آئی ہیں نا ‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا، ’’ ان کھمبوں سے آگے جائیں گے تو جو کمرہ آئے گا اسے ریاض الجنہ کہتے ہیں، اس کمرے کی پہچان یہ ہے کہ وہاں سبز رنگ کا قالین بچھا ہے… وہاں یہ لوگ ہمیں دو نفل پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں، مگر جب ایک بار آپ کو جگہ مل جائے تو چپک جاؤ… نفل پر نفل پڑھو، نفلوں کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاؤ اور دیکھو کہ جونہی ان ’’ شرطیوں ‘‘ کی نظر چو کے تو فوراً اور نفل نیت کر لو، پڑھتی جاؤ … جب تک کہ پکڑی نہ جاؤ اور یہ لوگ دھکے دے کر باہر نہ نکالیں ‘‘ اس کی ہدایات جاری تھیں ، ’’جب بھی سجدے میں جاؤ تو سجدے کی جگہ پر قالین پر اپنی انگلیوں سے اپنا نام تین بار لکھنا، پھر نئے نفل نیت کرو تو پھر اپنے ماں باپ، بچوں یا جس جس کا بھی موقع ملے، میں نے تو سب کے نام لکھ لیے ہیں، اب جاؤں گی تو اپنی مرحوم بہنوں کے نام لکھوں گی! ‘‘ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف متوجہ ہو گئی ۔

’’ اس سے کیا ہو گا؟ ‘‘ میں پوچھے بنا نہ رہ سکی۔’’ قالین پر جہاں آپ کا نام لکھا ہو گا، وہ جگہ جنت میں آپ کے لیے مختص ہو گی ‘‘ انھوں نے میری معلومات میں اضافہ کیا، میں نے چشم تصور میں عورتوں کے مینار جنت میں دیکھے۔

’’ ہوں ‘‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا، ’’ یہاں تو ایک کمرے کے سائز کا قالین ہے، اس قالین کے چپے چپے پر کروڑوں لوگوں نے سجدے کیے ہوں گے اور غالباً لاکھوں نے اس قالین پر اپنے نام بھی لکھے ہوں گے تو کس کو کون سا ٹکڑا جنت میں نصیب ہو گا؟ ‘‘ اس نے مجھے گھور کر دیکھا، ایسے سوال کی اجازت نہ تھی جیسے۔

’’ باجی نام اردو میں لکھنا ہے؟ ‘‘ ایک نے سوال کیا۔

’’ مجھے تو اپنا نام بھی نہیں لکھنا آتا! ‘‘ ایک اور خاتون نے اپنی تشویش کا اظہار کیا، میں بمشکل اپنی ہنسی ضبط کر سکی، اس’’ سمجھدار اور تجربہ کار خاتون کو اب سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ نہ لکھ سکنے والی خاتون کو کیا کہے ، لوگوں کے عقیدے مجروح ہو جاتے ہیں جو ہم جیسے کم عقل ان کی سوچوں کے مخالف کوئی بات کر دیں تو۔ عبادات سے زیادہ ان لوگوں کو اس طرح کی کمزور روایات پر یقین ہوتا ہے، عبادات کی بابت ناقص معلومات، ان کے اذہان اور سوچ کو بدلا نہیں جا سکتا کیونکہ ان کے ذرایع ان کے مطابقauthentic  ہوتے ہیں۔

جانے کتنا ہی وقت گزر گیا تھا، شاید زمانے… گھڑی نے ساڑھے دس بجائے تھے اور ہمارے گروپ کی خواتین اٹھنے کو تیار ہو رہی تھیں، کیونکہ انھیں کہا گیا تھا کہ وہ اٹھ کر قطار میں کھڑی ہوں ، ’’ آپ لوگ کس وقت سے یہاں بیٹھے ہیں ؟ ‘‘ میں نے اس گروپ سے سوال کیا، ’’ ہم عشاء کے بعد انتظار میں بیٹھ گئے تھے ‘‘ ابھی تک انھیں اندر جانے کی باری نہ دی گئی تھی، ہم ان کے بعد آئے تھے اور ہمیں پانچ گھنٹے کے انتظار کے بعد جانے کی نوید مل رہی تھی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی باری نہیں آئی جانے کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی داہنی طرف سارا گروہ پاکستانی، بنگالی اور ہندوستانی عورتوں کا ہے اور ان کی باری تب آتی ہے جب باقی ساری عورتیں زیارت کر چکی ہوتی ہیں ’’ کوئی بات نہیں… ہمیں تسلی سے باری ملتی ہے اور ہم تسلی سے زیادہ سے زیادہ نفل پڑھ لیتی ہیں ‘‘ اس کے لہجے میں بے فکری تھی، اصل میں تو انھیں کوئی اور احساس نہ تھا، نہ وقت گزرنے کا نہ اتنی دیر تک زمین پر بیٹھ کر تھکاوٹ کا، نہ ہی اس ہتک کا جو ان کی بار بار ہوتی تھی، انھیں تو لگن تھی کہ جنت میں اپنا نام لکھوا لیں ۔

میں نے کھڑے ہو کر دو نوافل نیت کیے مگر میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں، رقت سے نہیں، بے عزتی کے اس احساس سے، ناروائی کے اس سلوک سے جو ہم پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے،اس میں ہمارے بھی لاکھ قصور ہوں گے مگر جس لگن، مشکل اور عقیدت سے ہمارے ہاں سے لوگ جاتے ہیں، وہ ہرگز ایسے سلوک کے مستحق نہیں ہوتے۔ ہماری حکومت چاہے تو ہمارے لوگ بھی ان مراعات کو حاصل کر سکتے ہیں جو ترکی، ایرانی یا انڈونیشین لوگوں کو حاصل ہیں۔

سب سے اہم غلطی ہے کہ ہمارے لوگ جو ان اہم عبادات کے لیے جاتے ہیں، ان کی تربیت یا کوچنگ بالکل نہیں کی جاتی، وہ بالکل ایک ملک سے دوسرے ملک میں، جہاں کی نہ صرف زمین بلکہ لوگ اور زبان بھی انجان اور مختلف ہے، وہاں وہ جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ جو کمپنیاں عمرہ ٹور پر لوگوں کو بھجوانے کے لائسنس رکھتی ہے ان کے لیے لازمی ہونا چاہیے کہ نہ صرف کتابی حد تک بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے، معلوماتی فلموں کے ذریعے ان لوگوں کے لیے تربیت اور رہنمائی کریں جو بالخصوص پہلی بار اس با سعادت سفر پر جا رہے ہوتے ہیں۔ اس بات کو یقینی کس نے بنانا ہوتا ہے؟ بات پلٹ کر پھر حکومت پر آ جاتی ہے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔