قبول عام کی سند اور بیسٹ سیلرز

انتظار حسین  پير 23 فروری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

عین وقت پر کُریال میں غلہ لگا۔ یعنی کہ ادھر لاہور لٹریچر فیسٹیول کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں کہ خود کش حملوں کی رو امنڈتے امنڈتے لاہور تک پہنچی۔ ایک خود کش حملہ ادھر بھی ہو گیا۔ اب خوف و ہراس کی رو اُمنڈی اور لاہور لٹریچر فیسٹیول افواہوں کے نرغے میں گھر گیا۔ فیسٹول ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ ادھر فیسٹیول کے منتظمین افواہوں کی تردید کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ہو گا‘ ہو گا‘ ہوگا۔ مگر افواہ کے بگولے کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ صبح فیسٹیول کا آغاز ہونے والا تھا۔ ادھر اس صبح سے پہلے کی شام افواہ نے زور باندھا اور کس تیقن سے اغیار نے شگوفہ چھوڑا کہ سرکاری حکم آ گیا ہے کہ آرٹ کونسل کے دروازے بند فیسٹیول منسوخ۔ یاں جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ تمہیں لٹریچر فیسٹیول کی سوجھی ہے؎

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل

مگر یاران ادب صبح سے لو لگائے بیٹھے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ رات کا اندھیرا چھٹنے دو۔ صبح ہونے پر کُھلے گا کہ کیا گُل کِھلتا ہے۔ لیجیے صبح بھی ہو گئی۔ مرے کو ماریں شاہ مدار۔ گھٹا گِھر کر آئی اور بارش ہونے لگی۔ یاروں کی آس پر اوس پڑ گئی۔ مگر خبر لانے والے خبر لائے کہ ادھر تو ہجوم امنڈا ہوا ہے۔ آرٹ کونسل پر پہرہ سخت ہے۔ پہرہ دینے والے ایک ایک مہمان کی خوب جانچ پڑتال کرتے ہیں تب اندر جانے دیتے ہیں۔ اندر بڑے ہال میں افتتاحی تقریب کا آغاز ہو چکا ہے۔ وہ جو ہندوستان کی نامی گرامی مورخ ہیں رومیلا تھاپر وہ آ چکی ہیں۔ کلیدی خطبہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیجیے اداس چہرے کِھل اٹھے۔ چلو دوڑو۔ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ لٹریچر فیسٹیول کا آغاز ہو گیا۔

برصغیر کا ماضی زمانہ حاضر تک پہنچتے پہنچتے کیا سے کیا بن گیا۔ اس کی ایک مثال تاریخ کی یہ شناور اس واقعہ سے لائیں جس کے زور پر محمود غزنوی نے بت شکن کا خطاب پایا۔ اس واقعہ کو جو سومناتھ کے بت سے وابستہ چلا آتا ہے وہ زیر بحث لائیں اس پر وہ تفصیل سے لکھ چکی ہیں۔ وہ کتاب ترجمہ ہو کر اردو میں بھی چھپ چکی ہے۔ اب جو اس کا بیان ہم تک پہنچا ہے وہ برطانوی سامراج کے زمانے کی کرشمہ کاری ہے۔ برطانوی دارالعوام میں ایک معزز رکن نے اسے اپنے رنگ سے بیان کیا جو ہندو مسلمانوں کے درمیان منافرت کا سبب بنا۔ بس ایسے ہی شگوفوں سے اس عہد نے برصغیر کی تاریخ میں رنگ بھرا اور کیا سے کیا بنا دیا۔

تو یہ ادبی میلہ تاریخ کی تصحیح کی کوشش سے شروع ہوا اور ادب تک پہنچا۔ آٹے میں نمک کی نسبت سے کچھ اردو نشستیں بھی نشستوں کے اس طویل سلسلہ میں شامل ہیں۔ ایک نشست اسی شام منعقد ہوئی۔ یہاں اردو فکشن زیر بحث تھا اس حساب سے کہ قبول عام ادب کا مطلب کیا ہے۔ بات الف لیلہ کی مقبولیت سے شروع ہوئی اور ان ناولوں تک پہنچی جو بیسٹ سیلر کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ اور بات یہاں بھی برصغیر میں نو آبادیاتی عہد کی کرشمہ کاریوں تک پہنچی۔

اس سے پہلے مقبول عام قصہ کہانی کا کیا رنگ تھا اس عہد میں آ کر اس نے اپنے اعلیٰ معیار سے گر کر بیسٹ سیلر والا رنگ کیسے پکڑا۔ اس پچھلے عہد میں اردو فکشن کے سرچشمے تین تھے۔ عربی قصص، فارسی داستان اور کتھا کہانی۔ اولذکر کے جلو میں الف لیلہ آئی۔ حاتم طائی کی مہمات اور لیلیٰ مجنوں کی داستان عشق آئی۔ اور ایسے شان و شوکت والے ہیرو جیسے امیر حمزہ اور حاتم تائی۔

فارسی کے خزینے سے شیریں فرہاد کی داستان محبت آئی‘ رستم سہراب آئے۔ اور کتھا کہانی کی قدیم ہندی روایت تلے کتنی کہانیاں، کتنی کتھائیں کتھا کہانی کے امنڈتے سمندر سے بہہ کر اردو کے فکشن میں آن شامل ہوئیں۔ نل دمنتی کا قصہ‘ طوطا کہانی‘ بیتال پچیسی‘ سنگھاسن بتیسی۔ ان سے مل جل کر اردو قصہ کہانی کی جو روایت بنی اس کا خمیر مشرق کی مٹی سے اٹھا تھا۔ ہند اسلامی تہذیب کی نشوونما کے ساتھ اس روایت نے نشوونما کی۔ اس روایت سے کیسی کیسی داستان‘ کیسی کیسی کہانی‘ کیسا کیسا قصۂ عشق برآمد ہوا اور اسے قبول عام کا شرف حاصل ہوا۔

مگر جب انگریزی عہد نے زور پکڑا تو اس پوری روایت میں کیڑے پڑ گئے۔ اور انگریزی ادب اداب پر فریفتہ اہل دماغ نے یہ کہہ کر اسے یکسر رد کر دیا کہ ان قصہ کہانیوں میں کیا رکھا ہے۔ مافوق الفطرت واقعات‘ لغو کہانیاں انگریزی ناول اور مختصر کہانی کو دیکھو۔ کیا کمال کا فکشن ہے اور کتنا بامعنی۔

تب دیسی روایت کو رد کر کے نئی افسانوی روایت کے سامنے زانوئے ادب طے کیا گیا۔ یعنی از سر نو قصہ کہانی کی الف‘ ب‘ ت سے شروع ہوئے۔ جتنا سیکھ سکے اس کے بل پر رواں ہو گئے۔ اور اچھے رواں ہوئے۔ کم از کم مختصر افسانے میں تو بہت اچھے رواں ہوئے۔ پریم چند کے ’کفن‘ سے لے کر خالدہ حسین کی ’سواری‘ تک ایسے کتنے افسانے ایسے ہیں جنہوں نے قبول عام کی سند حاصل کی۔ احمد علی کا ’ہماری گلی‘ کرشن چندر کا ’ڈیڑھ فرلانگ لمبی سڑک‘ اور ان داتا‘ غلام عباس کا ’آنندی‘ عزیز احمد کا ’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘ اشفاق احمد کا ’گڈریا‘ عصمت چغتائی کا ننھی کی نانی‘ راجندر سنگھ بیدی کا ’لاجونتی‘ اور منٹو‘ اس کے شاہکاروں کو تو گنتے چلے جائیے ’ہتک‘ بابو گوپی ناتھ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘۔

مگر ہم نے کتنی آسانی سے انھیں قبول عام کی سند والے افسانے قرار دیدیا۔ اردو کے بیسٹ سیلرز کی عوامی مقبولیت کے مقابلے میں متذکرہ قبول عام کی سند یاروں کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔ ابن صفی کے ایک نقاد نے کیسے کمال کی بات کہی کہ ابن صفی کے ناولوں کی بے تحاشا مقبولیت کے مقابلہ میں قرۃ العین حیدر کے ناولوں کی اشاعت کتنی معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم نے کہا کہ برادر تم نے پھر قرۃ العین حیدر کو اپنا مسئلہ کیوں بنا رکھا ہے۔ ابن صفی کی اس بے تحاشا مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تمہیں اس پر مطمئن ہو جانا چاہیے۔

اسی بحث میں بیسٹ سیلرز پر تبصرہ کرتے ہوئے کشور ناہید نے عمیرہ احمد کا نام لے دیا۔ ارے اس بی بی نے تو بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ایک اس بیسٹ سیلر کے مداح نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ کے مداح اگر ایک کروڑ ہیں تو اس کے کتنے کروڑ ہیں۔ اتنے کروڑ کہ حواس پیارے ایسے گم ہوئے کہ وہ تعداد بھول گئے۔ دیکھا آپ نے بیسٹ سیلرز کے مداحوں کی طاقت کو ع

ان کے مداح اس زمانے میں
دوسرا مصرعہ نقل کرنے کا یارا نہیں

اور ہاں اس مباحثہ میں قدیم زمانوں کی مقبول عام کہانیوں کے ذیل میں کہیں ’سنگھاسن بتیسی‘ کا بھی حوالہ آیا جسے گزرے زمانے میں اردو میں نولکشور لکھنو نے شایع کیا تھا۔ وہی کتاب انھیں دنوں پاکستان میں چھپ کر نمودار ہوئی ہے۔ کسی نے سوال کر لیا کہ اتنی پرانی کتاب کا آج کے ہمارے زمانے سے کیا relevance ہے۔

مسعود اشعر نے یا شاید آصف فرخی نے جواباً کہا کہ بہت relevance ہے۔ شاید ہم نے بھی کوئی ٹکڑا لگایا۔ وہاں یہی تو مسئلہ زیر بحث ہے کہ اقتدار سنبھالنے والوں کو اس اہم ذمے داری کا اہل بھی تو ہونا چاہیے۔ راجہ بکرما جیت کا تخت کھدائی میں برآمد ہوا ہے۔ اپنے زمانے کا راجہ یعنی راجہ بھوج کتنا متمنی ہے کہ اس تخت پر براجمان ہو۔ مگر جب بھی تیار ہو کر وہ تخت پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو تخت کے نیچے سے ایک پتلی برآمد ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ پہلے مجھ سے راجہ بکرم کے متعلق کہانی سن۔

پھر سوچ کہ کیا تو وہ خوبیاں رکھتا ہے جو اس مثالی حکمراں راجہ بکرم میں تھیں۔ اس طرح بتیس پتلیاں باری باری بتیس کہانیاں سناتی ہیں کہ راجہ بکرم کیسا انصاف پسند کیسا رعایا پرور‘ کیسا جری‘ کیسا سخی‘ کیسا ایثار پیشہ حکمراں تھا۔ تب راجہ بھوج کو احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اس تخت پر بیٹھنے کا اہل نہیں ہے بلکہ اس تخت پر بیٹھنے کا اہل بھی نہیں ہے جس پر وہ براجمان ہے۔ سو راج پاٹ چھوڑ کر وہ سنیاس سے لیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔