ضروری نہیں بھارت یا ہالی ووڈ سے مقابلہ کریں، ژالے سرحدی

نیٹ نیوز  پير 23 فروری 2015
اچھی کاسٹ، ٹیم، اسکرپٹ کے ساتھ اب کسی بھی موضوع پر فلم بنائی جا سکتی ہے، گفتگو۔ فوٹو: فائل

اچھی کاسٹ، ٹیم، اسکرپٹ کے ساتھ اب کسی بھی موضوع پر فلم بنائی جا سکتی ہے، گفتگو۔ فوٹو: فائل

کراچی: فلم ’’جلیلی‘‘ میں کام کرنیوالی اداکارہ ژالے سرحدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلم کا مستقبل بہت شاندار ہے۔

ژالے نے کہا کہ ’’ضروری نہیں ہم بھارت یا ہالی ووڈ سے یا کسی سے مقابلہ کریں، ہم اپنی حدود میں رہ کر کام کر سکتے ہیں اور نئے ٹیلنٹ کو اجاگر کریں، فلم بنانے والوں کے لیے اور ان کے لیے جنھیں سینما کا بے حد شوق ہے اچھی بات یہ ہے کہ نئے آنے والوں کے لیے یہ اچھا قدم ہیٔ اچھی کاسٹ، اچھی ٹیم، اچھے اسکرپٹ کے ساتھ اب کسی بھی موضوع پر فلم بنائی جا سکتی ہے‘‘۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں نجی میڈیا اداروں کے تحت بننے والی فلموں میں اضافہ ہوا ہے اور اسی قسم کی ایک فلم ’’جلیبی ‘‘ ہے جو مختلف کہانیوں پر مشتمل فلم ہے۔

فلم کے دو مرکزی کرداروں علی سفینہ اور ژالے سرحدی نے فلم کی کہانی اور کرداروں کے بارے میں بات کی۔ ژالے سرحدی کا کہنا تھا کہ ڈراموں سے فلم میں کام کرنا اتنا مشکل نہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی بڑی تبدیلی ہے۔ فلم ’’جلیبی‘‘ میں ایک بار ڈانسر کا کردار ادا کرنے والی ژالے نے کہا ’’فلم کا ایک چسکا ہوتا ہے‘ پھر کچھ اور کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ فلم کی دور ممالک تک پہنچ ہوتی ہے اور وہ دو گھنٹے میں ختم ہو جاتی ہے اور اسے بار بار دیکھا جا سکتا ہے‘‘۔

فلم میں ژالے سرحدی کا پسندیدہ ڈائیلاگ ہے ’’ڈاکٹر نہیں بنی تو کیا ہوا۔۔۔ بایولوجی تو پوری آتی ہے مجھے‘‘۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ٹی وی پر کام کرنے کو خیر باد کہنے کی نیت رکھتی ہیں۔ علی سفینہ کو ایک نجی ٹی وی چینل کے ڈرامہ سیریل ’’ ٹاکے کی آئے گی بارات ‘‘ سے بہت شہرت ملی۔ انھوں نے کہا کہ فلم میں بھی ان کا کردار ڈرامے کے ’’ ٹاکے‘‘ کے کردار سے مماثلت رکھتا ہے۔ علی سفینہ نے بتایا کہ وہ فلم میں ایک کار چور ہیں‘ فلم کا تجربہ ایک رولر کوسٹر کی طرح تھا جس میں کئی موڑ آئے جن سے ہم بہت تیزی سے نکلے اور اب فلم کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔