61 فیصد منتخب نمائندوں کی بیرون ملک اثاثوں کے سوال پر ’’خاموشی‘‘

زاہد گشکوری  پير 23 فروری 2015
الیکشن کمیشن کوار جمع کرائے گئے مالیاتی گوشواروں کی سخت اسکروٹنی کرنی چاہیے, سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن : فوٹو فائل

الیکشن کمیشن کوار جمع کرائے گئے مالیاتی گوشواروں کی سخت اسکروٹنی کرنی چاہیے, سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن : فوٹو فائل

اسلام آباد: تقریباً61 فیصد قانون سازوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے مالیاتی گوشواروں میں بیرون ملک اثاثے یا جائیدار رکھنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا۔

اس بات کا انکشاف ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ میں کیا گیا۔ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 1173منتخب اراکین میں سے715 نے گوشواروں کے فارم میں اس سوال کو نظر انداز کیا ہے۔ سوال میں بیرون ملک جائیداد کی تفصیل نہیں مانگی گئی بلکہ صرف ہاں یا ناں میں جواب مانگا گیا تھا۔ ان 715 میں بہت سے اراکین ایسے ہیں جو عوامی تقریبات میں اپنے بیرون ملک اثاثوں کی موجودگی کے بارے میں گفتگو کرتے رہے ہیں۔

باقی اراکین جنھوں نے اس سوال کا جواب دیا، ان میں سے بھی صرف 24اراکین نے اعتراف کیاکہ ان کے بیرون ملک اثاثے موجود ہیں تاہم ان میں کسی بھی رکن کا تعلق بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے نہیں۔ اثاثوں کے گوشواروں کی تفصیلات سے ظاہر ہوتاہے کہ زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ مالیاتی گوشواروں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ 80 فیصد سے زیادہ اراکین نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا کہ آیا ان کی آمدنی گزشتہ ایک سال میں بڑھی یا کم ہوئی۔ آزاد ایم این اے جمشید دستی نے پورے فارم کو ہی خالی چھوڑدیا۔

24 اراکین کی جانب سے اعلان کردہ بیرون ملک اثاثوں کی مالیت1.4ارب روپے ہے۔ ان میں سے 620 ملین روپے کی جائیداد 6 ایم این ایزکی ملکیت ہے،62ملین کی جائیداد 4 سینیٹرز، 500ملین روپے کی جائیدادپنجاب اسمبلی کے 7 اراکین جبکہ 215 ملین کی جائیدادسندھ اسمبلی کے 7 اراکین کی ملکیت ہے۔ فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک (فافن)کے چیف ایگزیکٹو مدثررضوی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو فارمز میں شامل سوالات کے جواب دینا لازمی قرار دینا چاہیے۔

الیکشن کمیشن کو گوشواروں میں دی گئی معلومات کی اسکروٹنی بھی کرنی چاہیے۔ اسی بارے میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کواراکین پارلیمنٹ کی جانب سے جمع کرائے گئے مالیاتی گوشواروں کی سخت اسکروٹنی کرنی چاہیے۔ سینیٹرفرحت اللہ بابرکاکہنا تھاکہ اگر کوئی رکن اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتا تو یہ پارلیمنٹ سے بے ایمانی ہے،فرحت اللہ بابر نے اپنے گوشواروں میں کہاکہ ان کے بیرون ملک کوئی اثاثے نہیں۔ رحمن ملک جنھوں نے اعتراف کیا کہ ان کے بیرون ملک اثاثے موجود ہیں، کا کہنا تھاکہ ملکی وغیرملکی اثاثے چھپانے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

بیرون ملک اثاثے رکھنے والے 4 سینیٹرز میں رحمن ملک کی برطانیہ میں3.39ملین کی جائیدادہے، غلام نبی بنگش کی متحدہ عرب امارات میں 25 ملین کی جائیداد، عباس آفریدی کا افغانستان اوردبئی میں23ملین کا بزنس ہے جبکہ جعفراقبال کابرطانیہ میں9ملین کاگھر ہے۔ 6ایم این ایزمیں ملک اسدکا بنکاک میں110ملین کافلیٹ، جعفراقبال کا ناروے میں26ملین کا ایک فلیٹ اورگاڑی ہے، باسط بخاری کے بیرون ملک ٹرانسپورٹ کمپنی میں0.8ملین کے شیئرزہیں، سہیل منصورکے متحدہ عرب امارات میں 2، لندن میں ایک اورکینیڈامیں 3 فلیٹ ہیں جن کی مالیت71ملین ہے، امیر حیدر ہوتی کو یو اے ای سے8ملین روپے ملے جبکہ پیرصدرالدین شاہ کاخاندان بیرون ملک ایک گھرکا مالک ہے جس کی مالیت186ملین ہے۔

پنجاب اسمبلی کے 7 اراکین میں سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی لندن میں153ملین مالیت کی 2 جائیدادیں ہیں، چوہدری لال کی برطانیہ میں 170ملین کی جائیدادہے، عامر عنایت کی یواے ای میں3 ملین، عبدالقدیرعلوی کی یو اے ای میں8 ملین، علی رضاکا لندن میں60ملین کافلیٹ ہے، احسان الحق کادبئی میں70ملین کاسوئٹ ہے جبکہ عمرجعفرکا لندن میں10ملین کا سوئٹ ہے۔

سندھ اسمبلی کے بیرون ملک اثاثے رکھنے والے اراکین میں مسرور احمد کی17ملین کی جائیداد، فصیح احمد کادبئی میں 18 ملین کا فلیٹ، نادر علی کا امریکا میں9ملین کا گھر، مخدوم رفیق کی برطانیہ میں35ملین کی جائیداد، شرجیل میمن کے پاس 25 ملین مالیت کے 2 فلیٹ دبئی میں ہیں جبکہ ان کی بیوی کے نام پر 99ملین کا ایک ولا دبئی میں ہے۔ اویس مظفر اور ان کی اہلیہ کے دبئی میں 5ملین کے 2 فلیٹ ہیں، محمد عبدل کا مدینہ میں 2 ملین کا بزنس ہے جبکہ عرفان اللہ خان کی بیرون ملک10لاکھ کی جائیداد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔