سوالات؟؟؟ جن کے جوابات انسان تاحال نہیں دے پایا

انوار فطرت  اتوار 7 اکتوبر 2012
کوئی شک نہیں انسان نے بہت ترقی کر لی ہے اور وہ فطرت کے اسرار کو بے نقاب کر رہا ہے۔ فوٹو: فائل

کوئی شک نہیں انسان نے بہت ترقی کر لی ہے اور وہ فطرت کے اسرار کو بے نقاب کر رہا ہے۔ فوٹو: فائل

کوئی شک نہیں انسان نے بہت ترقی کر لی ہے اور وہ فطرت کے اسرار کو بے نقاب کر رہا ہے۔

ستاروں کو تسخیر کرنے کے ارادے باندھے ہوئے ہے، زمینوں کی تہوں میں چھپے خزانے برآمد کر رہا ہے، سمندروں کی تہوں کو کھنگال رہا ہے لیکن تمام تر ترقی کے باوجود بعض سوالات ایسے ہیں جو نہ تو اس کا پیچھا چھوڑتے ہیں اور نہ ہی اس سے ان کا تاحال کوئی جواب بن پڑا ہے البتہ ہمت اس نے ہاری نہیں، شاید کوئی دن ایسا آئے کہ وہ ان لاجواب سوالات کے تشفی بخش جوابات حاصل کر پائے۔ ذیل میں ایسے بے شمار نا جواب سوالات میں سے چند ایک آپ کے ساتھ بھی شیئر کرتے ہیں۔

بے جان کیمیائی مادّے سے جان دار کیسے پیدا ہوئے؟

یہ بھی ایک حیران کن معاملہ ہے۔ یقیناً سوچنے کی بات ہے کہ بے جان سے جان دار کیسے جنم لے سکتا ہے۔ آخر کیمیائی مادے میں ایسا کیا ہے کہ سائنس داں اسے حیات کی اصل قرار دیتے ہیں۔ علوم فطرت (Natural Sciences) کے ماہرین اس امر کا مسلسل مطالعہ کرتے آ رہے ہیں کہ زمین پر زندگی کی نمود سے قبل بے جان کیمیائی مادے تھے ان مادوں میں جان و روح کے کوئی آثار نہ تب تھے نہ اب، تو پھر زمین جان داروں سے کیسے بھر گئی، یہ کرہ کیسے زندگی سے لبالب ہو گیا۔ سائنس اس امر پر اتفاق کرتی ہے کہ زندگی نے کوئی 4.4 بلین سال پہلے کہیں کُھدبدانا شروع کیا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب آبی بخارات نے مائع کی شکل اختیار کرنا شروع کی اور 2.7 بلین برس پہلے، جب کاربن، لوہے اور گندھک کے مستحکم کیمیائی عناصر نے معدنی عناصر کے ساتھ مل کر سالمیاتی پیچیدگیاں بنانا شروع کیں۔ یہ سب قیاسات ہیں، اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا۔ تاحال اصلِِ حیات کا کوئی حقیقی معیاری ماڈل تیار نہیں کیا جا سکا البتہ حال ہی میں مولی کیولی اور سیلولر مرکبات کی چند دریافتوں کی بنیاد پر کچھ ماڈل قبول کیے گئے ہیں۔ ان مرکبات کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ ان میں کہیں زندگی کے عناصر پیدا ہوئے ہوں گے۔ اسےBottom-Up-Approach کا نام دیا جا رہا ہے، تاہم ہے یہ بھی قیاس۔ بہ ہرحال اگر سائنس بے جان سے جان دار کا پیدا ہونا تسلیم کرتی ہے اور اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر پا رہی تو فی الحال ہم ایک صوفی اور سائنس داں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔

ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟

اس سوال کا بھی آج تک کوئی ایک جواب نہیں دیا جا سکا۔ ساری تاویلیں اور پیچیدہ مباحث بالآخر دلیل اور ردِ دلیل کی نذر ہو جاتے ہیں اور آخر میں سوال اپنی تمام تر سادگی اور معصومیت کے ساتھ ایک بار پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ’’ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟‘‘

خوابوں میں رونما ہونے والے احوال و آثار اکثر ’’ناممکنات‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں ان کا وقوع پذیر ہونا عام طور پر خارج از امکان ہوتا ہے۔ خواب دیکھنے کے عمل پر خواب دیکھنے والا مجبورِ محض ہوتا ہے، البتہ ان میں ایک استثنیٰ ہے، جسے درخشاں خواب بینی (Lucid dreaming) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایسے خوابوں میں خواب دیکھنے والے کو محسوس ہو جاتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ ایسے خوابوں کی رو کو یا ایسے خوابوں کے ماحول کو بعض اوقات خواب دیکھنے والا کسی حد تک تبدیل کر سکتا ہے۔ درخشانی یا تابانی خواب حقیقت کے قریب تر ہوتے ہیں اور انھیں دیکھنے کے دوران حواس بلند تر ہو جاتے ہیں۔

تاحال خواب کی کوئی حیاتیاتی تعریف متعین نہیں کی جا سکی۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ خواب کا گہرا تعلق ہے REM کے ساتھ۔ جو Rapid Eye movement sleep کا مخفف ہے، یعنی ایسی نیند، جس میں آنکھیں تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ یہ نیند کی عمومی حالت ہے۔ آر ای ایم نیند میں ذہن کی سرگرمی حالتِ بیداری جیسی ہوتی ہے۔ اسی باعث محقیقین یقین رکھتے ہیں کہ جب خواب پوری طرح توانا ہوتے ہیں تو آنکھوں کی حرکت تیز ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاتا ہے کہ اس حالت میں آنے والے خواب آسانی کے ساتھ یاد بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ ایک انسان اپنی زندگی میں لگ بھگ 6 سال خواب بینی میں گزرارتا ہے، جس کا مطلب ہے ہر رات دو گھنٹے کی خواب بینی لیکن خواب دماغ کے کون سے حصے سے برآمد یا نمودار ہوتے ہیں؟ اس کا تاحال کوئی اتاپتا نہیں اور بڑا سوال اس سے بھی یہ ہے کہ خواب آتے ہی کیوں ہیں؟

کیا بلیک ہولز کا کوئی وجود ہے؟

کیا کائنات میں حقیقتاً تاریک گڑھے (Black Holes) موجود ہیں۔ یہ جو نظریاتی بنیاد پر کہاجاتا ہے کہ یہ بلیک ہولز شعاعیں منتشر کرتے ہیں، کیا اس میں کوئی صداقت ہے؟ کیا ان کی منتشر کی گئی شعاعوں کے ذریعے کائنات کے ان سیاہ کنوئوں کی اندرونی ساخت کا کچھ اتاپتا چل سکتا ہے، جیسا کہ سٹیفن ہاکنگ کے اصل ریاضیاتی فارمولوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے؟ اور اگر یہ بھی ممکن ہے تو ان کے اندر جو بھی کچھ موجود ہوتا ہے اس کا کیا بنتا ہے؟ کیا وہ بھی تحلیل ہو جاتا ہے (حال آں کہ کوانٹم مکینکس میں انفارمیشن ضایع کرنے کی اجازت نہیں ہوتی) سوال یہ بھی ہے کہ ان بلیک ہولز کی شعاعیں خارج کرنے کا عمل کسی مرحلہ پر جا کر ختم ہو جاتا ہے؟ کیا ان اندھے کنوئوں کی اندرونی ساخت جاننے کا کوئی اور ذریعہ بھی موجود ہے؟

بلیک ہول کے بارے میں عمومی اضافیت بتاتی ہے کہ یہ ایک ایسا خالی علاقہ ہے جو اپنے مرکز میں ایک نقطے جیسا ہے اور بیرونی کنارے پر افقی ہے۔ اس کی صورت میں اس وقت تبدیلی بھی آ سکتی ہے جب اس پر کوآنٹم مکینکس کی سرگرمی کے اثرات پڑتے ہیں۔ اس موضوع پر تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلیک ہول مقید مادے کو ہمیشہ گرفت میں نہیں رکھتا بل کہ سٹیفن ہاکنگ کے مطابق یہ تھرمل توانائی کی ایک قسم کو خارج بھی کرتا رہتا ہے تاہم کائنات کے ان تاریک کنوئوں کے بارے میں کوئی حتمی رائے تاحال سامنے نہیں آئی۔

صنعتی انقلاب کی بنیاد کیا تھی؟

صنعتی انقلاب کا دورانیہ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کا زمانہ ہے، جب زراعت، اشیاء سازی اور نقل و حمل کے ذرائع میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور اس کے زیراثر سماج معاشی اور ثقافتی صورت حال پہلے برطانیہ میں منقلب ہونا شروع ہوئی اور اس کے بعد دنیا بھر میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا، یہ ہی صنعتی انقلاب کہلاتا ہے۔ یہ انسانی سماجیات کی تاریخ میں ایک بہت بڑا موڑ قرار پاتا ہے۔ اسے پہلے زرعی آلے کی ایجاد یا زمین پر شہروں کے آباد ہونے کے عمل سے بڑا وقوعہ نہیں تو اس کے برابر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تبدیلی نے روزمرہ زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا۔

اس انقلاب کے اثرات تسلیم لیکن اس انقلاب کی وجوہات ابھی تک طے ہونا باقی ہیں۔ بعض مورخین اسے انگلستان میں سترہویں صدی عیسوی کی خانہ جنگی کے نتیجے میں جاگیرداری کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سماجی اور ادارہ جاتی انقلاب کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس انقلاب کے نتیجے میں قومی سرحد کا تحفظ زیادہ موثر ہو گیا، امراض کے پھیلائو میں کمی آئی اور وبائوں پر قابو پانے میں سہولت حاصل ہوئی۔ بچوں کا بچپنا ختم ہوا اور وہ ایک بڑی ورک فورس کی صورت میں سامنے آئے۔

یہ مورخین سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کا صنعتی انقلاب یورپ ہی میں آیا اور باقی دنیا اس سے بہت دیر کے بعد متاثر ہوئی خاص طور پر چین، ہندوستان اور مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے خطے اس سے نابلد رہے؟۔ اس کی وجوہات میں وہ زمینی احوال، طرز حکومت اور ثقافت کو شامل کرتے ہیں اور یہ بحث فی الحال جاری ہے۔ سوال تاحال لاجواب ہے کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کی وجہ کیا بنی؟

زبان کی اصل کیا ہے؟

زبان کا آغاز ایک ایسا معمہ ہے جس نے تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کی اور بے شمار قیاسات کو جنم دیا۔ بول لینے کی صلاحیت کے باعث ہومو سے پیئن (ارتقا یافتہ انسان) دوسرے جان داروں سے الگ اور برتر ہو گیا۔ لکھنے کے فن کے تو انسانی زندگی میں آثار مل جاتے ہیں تاہم انسان نے بولنا کب شروع کیا اس کے کوئی آثار نہیں مل رہے۔ تاہم اس کے باوجود زبانیات کے ماہرین زبان کی اصل دریافت کرنے میں کوشاں ہیں اور اس کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ارتقا کے کسی مرحلے پر انسان نے ابلاغ کے لیے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ لسانی نظام استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔ زبان کی ترقی کا زمانہ یہ ماہرین چمپنزیوں (بندروں) اور انسانوں کی علاحدگی یعنی کوئی 60 لاکھ سال قدیم بتاتے ہیں لیکن فی الحال کوئی حتمی جواب نہیں مل رہا، سو سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ زبان کی اصل کیا ہے؟

زبان کیسے سیکھی جاتی ہے؟

زبان سیکھنے کا عمل اشارہ کرتاہے انسان کے اندر ایک بہت ہی خاص صلاحیت کی طرف، تاہم یہ صلاحیت کیا ہے، انسان میں کیسے پیدا ہو جاتی ہے؟ کیا اس کے دو مراحل ہیں۔ پہلا وہ، جب ایک بچہ زبان سیکھتا ہے اور دوسرا وہ، جب ایک بالغ و عاقل انسان اپنی زبان کو ترقی دیتا ہے۔ زبان سیکھنے کے حوالے سے تاریخی طور پر نظریہ سازوں نے اس عمل کو دو طریقوں سے لیا ہے۔ ایک گروہ زبان سیکھنے کے عمل کو فطرت (Nature) پر محمول کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ پرورش (Nurture) کو ترجیح دیتا ہے۔

زبان سیکھنے کے عمل پر بحث یہاں آ کر الجھ جاتی ہے کہ کیا یہ نفسیاتی موروثیت کے باعث آتی ہے، یعنی کیا دماغ میں زبان سیکھنے کے حوالے سے کوئی ہارڈوائر (Hardwire) نصب ہوتی ہے یا پھر ذہن انسانی کے اندر کوئی کوری لوح موجود ہوتی ہے۔ اس کی تشریح کے لیے وہ کہتے ہیں کہ زبان اپنے ماحول کے ساتھ اختلاط کے باعث آتی ہے۔ سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ زبان کیسے آ جاتی ہے؟

1928 کے عالمی مالی بحران کی وجہ کیا تھی؟

مغربی دنیا ایک پرسکون ڈگر پر رواں دواں تھی۔ جنگ عظیم اول کو گزرے ایک دہائی بیت چکی تھی، یورپ اپنے خرابوں پر تیزی سے تعمیر ہو رہا تھا اور خاص طور پر امریکا، جو باقی دنیا ہے بالکل الگ تھلگ ایک دور دراز مقام پر واقع تھا، وہاں سے یہ وائرس کیسے دنیا بھر میں پھیلا۔

امریکا میں 29 اکتوبر 1929 میں سٹے کی مارکیٹ اچانک کریش ہو گئی۔ یہ منگل کا دن تھا اور اسے مالیاتی تاریخ میں ’’سیاہ منگل‘‘ (Black Tuesday) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سٹے کے اس بحران نے آناً فاناً صنعتی ملکوں کو لپیٹ میں لے لیا اس کا اثر ان ملکوں پر بھی لامحالہ پڑا جو ان صنعتی ممالک کو خام مال برآمد کرتے تھے۔ بین الاقوامی تجارت یک بہ یک ڈھلوان پر رکھی گیند کی طرح نیچے آ رہی۔ انفرادی آمدنیاں گریں تو نتیجتاً ٹیکس ریونیو کا گراف بھی ٹھنڈے پارے کی طرح نیچے آ رہا۔ ایشیا کی قیمتیں اور منافع گر گئے، خاص طور پر وہ ممالک جن کا انحصار بھاری صنعت پر تھا، ان کے شہروں کی رونقیں پھیکی پڑ گئیں، تعمیراتی کام تو بالکل ہی ٹھپ ہو کر رہ گئے۔

اس بحران کی وجوہات پر سرمایہ دار دنیا آج تک بحث و تمحیص میں مصروف ہے، تحقیق ہو رہی ہیں، جستجو جاری ہے، لیکن کوئی بھی الجھے ہوئے دھاگے کے ڈھیر میں سے سرا تلاش نہیں کر پا رہا۔ دنیا بھر کے دانش ور اور ماہرین معاشیات اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور کسی ایک نکتے پر اتفاق کرنے سے قاصر ہیں۔ بحران 1929 میں شدید تر ہوا اور قریباً ایک دہائی تک جاری رہا پھر گزر بھی گیا۔ اب یہ لگ بھگ پون صدی پرانا قصہ ہو گیا۔ اب ایک بار پھر امریکا اور یورپ پھر ایک مالی بحران سے دوچار ہیں۔ ابھی تک پہلے ہی بحران کی گرہ نہیں کھل پائی تو اس بحران کو کیسے سمجھا جائے جب کہ دنیا کا مالی نظام بیسویں صدی کی اوائلی دہائیوں کے مقابلے میں سادہ تر تھا۔

کہا اور سمجھا یہ جاتاہے کہ اگر اُس بحران کی وجوہات کا صحیح اندازہ ہو جاتا تو شاید حالیہ بحران جنم نہ لیتا۔ یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا اس بحران کی وجہ آزاد منڈی تھی یا پھر وہ اُس وقت کی حکومتوں کی ناکامی تھی کہ وہ بینکوں کی ناکامی کے سامنے بند نہ باندھ پائیں۔ یہاں دل چسپ صورت حال یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ دانش ور جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ معیشت کے تحفظ میں حکومتوں کا کردار اہم ہوتا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ بحران کی وجہ آزاد منڈیاں تھیں جب کہ وہ گروہ، جو آزاد منڈی کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں، وہ حکومتوں کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔