کمال کرتے ہیں پانڈے جی

قادر خان  بدھ 25 فروری 2015
qakhs1@gmail.com

[email protected]

کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ وہ سب کچھ کر ڈالوں جو کسی نے نہ کیا ہو لیکن شیرآفریدی بھائی کی ایک بات اچھی لگی کہ ’’ قومی مفاد میں یہ کر رہے ہیں، قومی مفاد میں یہ ہو رہا ہے، قومی مفاد میں وہ کیا تھا، غرض قومی مفاد کے نام پر عوام کا ہمیشہ بیڑا غرق کیا گیا ہے۔‘‘ بے ساختہ ایک فلم کا مشہور مکالمہ ذہن میں دوڑ گیا اور کچھ کہنے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ ’کمال کرتے ہیں پانڈے جی۔‘

جی ہاں دراصل ہم ہر بات میں کمال کرتے ہیں لیکن اس کمال کا ہمیں خود بھی پتہ نہیں چلتا ، مملکت کی سرزمین ہو اُس پر لینڈمافیا کا قبضہ، سرکاری املاک ہوں تو اُس پر افسران کا قبضہ، اسمبلی ہو تو اُس پر اراکین کا قبضہ، سینیٹ کے انتخابات ہوں تو اُس پر دولت مندوں کا قبضہ، عدالتیں ہوں تو جلد انصاف فراہم نہ کرنے والوں کا قبضہ، تھانے ہوں تو ایماندار افسران و اہلکاروں کے بجائے کرپٹ اور لاقانونیت کرنے والوں کا قبضہ، امن کا معاملہ ہو تو اس پر دہشت گردوں کا قبضہ اور تو اور اب یہ خبر بھی پڑھی کہ اٹھارہ بیس سالوں سے کچھ افراد کا کرکٹ بورڈ پر قبضہ ہے۔

ہم نے بے ایمانی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، ملت کے بجائے لسانیت اور گروہ بندی کو جگہ دے رکھی ہے۔21 فروری کو مادری زبان کا دن منایا گیا۔ دانشوروں نے بڑی روشنیاں ڈالیں، تاریخ بیان کی، لیکن کمال کرتے ہیں پانڈے جی کہ یہ نہیں بتاتے کہ ماں کی زبان تو شیریں، محبت، پیار، ایثار اور قربانی سے لبریز ہوتی ہے، ہمارے یہاں کون سی زبان ہے پانڈے جی یہ نہیں بتاتے۔

میں ایک صاحب کے شناختی کارڈ کے فارم کی تصدیق کے لیے سترہ گریڈ کے افسر کو تلاش کر رہا تھا، لیکن شومئی قسمت کوئی دستیاب نہیں ہو رہا تھا، میری خرابی تقدیر عارف میاں سے پوچھ لیا کہ عارف بیٹا، یہاں ڈاکٹر کہاں ملے گا؟ وہ معصومیت سے اٹھا اور ریگ مال مجھے تھما دیا، میں نے حیرانی سے پوچھا کہ ابے یہ کیا ہے؟ وہی دل نشین، جی جلانے والا انداز کہ بھائی آپ نے ہی تو کہا تھا۔ میں نے کہا ’کٹی پہاڑی میں ایک بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر، سرکاری اسکول، سرکاری افسر، کالج نہیں ہے، تم سے ڈاکٹر کا پوچھا تو تم نے ریگ مال پکڑا دیا۔

کہنے لگا، بھائی ڈاکٹر کا کیا کرنا ہے، پورے علاقے میں جاہل لوگ ایم بی بی ایس بن کر ڈاکٹر بنے بیٹھے ہیں، سرکاری ایک اسکول بھی نہیں، پرائیوٹ اسکول، بھاری فیسوں کے نام پر این جی اوز بنا کر فنڈنگ کرتے ہیں، سرکاری افسر اس غریب آبادی میں کیوں رہے گا، اس لیے میں آپ کو ریگ مال دیا کہ چراغ تو ہے نہیں کہ رگڑیں اور جن آ جائے اور کہے کیا حکم ہے میرے آقا؟ میں نے اُسے غور سے دیکھا کہ کمال کرتے ہیں پانڈے جی، یہ عقلمندی کی باتیں آپ نے کہاں سے سیکھیں؟ تو وہ کہنے لگا کہ اچھا یہ عقلمندی کی باتیں ہیں، میں تو سمجھا تھا آپ غصہ کریں گے۔ میں نے خاموشی سے راہ پکڑی اور جس کا فارم تصدیق کروانا تھا اسے ایک ایسے سرکاری ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا جو وہاں علاج کے لیے نہیں بلکہ شناختی کارڈ فارم کی تصدیق کرنے کے لیے روز رات دس بجے آتا تھا اور ایک فارم کے سو روپے لے کر اس نا پرساں آبادی کو عذاب سے نجات دلاتا تھا۔

میں سوچنے لگا کہ اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو اس علاقے کے عوام کیا کرتے۔ ایک صاحب نے کہا کہ کچھ نہیں کرتے، اب دیکھ لو کہ فاٹا کے تقریبا 20 لاکھ نفوس پر مشتمل قبائل اپنے گھروں سے بے گھر ہیں، کوئی روزگار، معاشی معاونت نہیں، صحت کی سہولیات میسر نہیں، مگر پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں، پایندہ قوم ہیں ہم سب کی ہے پہچان اپنا آپ … میں نے کہا کمال کرتے ہیں پانڈے جی، اب لوگوں کی اپنی بھی تو غلطی ہے کہ انھوں نے ایسے حالات کیوں جنم لینے دیے کہ گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے، یہ کوئی ایسی قوم تو تھی نہیں کہ بابو صاحب کی طرح، ہمیشہ قلم ہاتھ میں رکھا ہو، بلکہ بچے کی پیدائش پر اتنی فائرنگ کرتے ہیں کہ امریکا سمجھتا ہے کہ اس پر حملہ ہو گیا ہے۔

اتنڑ اور خٹک روایتی رقص کرتے ہیں تو تلواروں کو چابک دستی سے لہراتے ہیں، بچے گلی کوچوں میں، گیند ڈبا، گرم پٹھو کا نشانہ پتھر سے نہیں لگاتے بلکہ کلاشنکوف سے کھیل کر نشانہ بازی سیکھتے ہیں، ان پر چند عناصر کیونکر حاوی آ گئے کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، یہی تو وہ قوم تھی کہ چند گھوڑوں پر سوار ہوکر دہلی کے تخت پر بیٹھ جاتے اور ہندوستان فتح کر لیا کرتے تھے، کوئی تو ایسی غلطی ہوئی ہے جس کا یہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

انھوں نے مجھ سے کہا کہ تو اور کراچی میں؟ میں نے پھر کہا کہ کمال کرتے ہیں پانڈے جی، کراچی کو کہاں سے ملا رہے ہیں آپ، کراچی میں جنات رہتے ہیں جو نامعلوم ہیں، راتوں رات سرکاری زمینوں پر قبضہ ہو جاتا ہے، حکومت کو پتہ تک نہیں چلتا، یہی عوام جا کر مہنگے مہنگے فلیٹس خرید لیتے ہیں، پارکس کی جگہ پر چائنا کٹنگ ہو جاتی ہے، کوئی ایکشن نہیں لیتا بلکہ سفارشی ڈھونڈتا ہے کہ یار کسی سے ایک فلیٹ تو دلا دو، راتوں رات غیرقانونی ہائیڈرینٹ بن جاتے ہیں، حکومت کو پتہ ہی نہیں چلتا، حکمران جماعت کے ایک سابق وزیر نے ایکشن لیا تو انھیں اُس عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا، واٹرگولڈ مافیا کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا کہ ان کی آمدنی دہشت گردوں کی فنڈنگ کا اہم ذریعہ ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر ہائیڈرینٹ کچھ ختم کیے، بتاتے ہیں کہ اٹھارہ رہ گئے، جو پانچ ہزار سے دس ہزار تک پانی فروخت کر رہے ہیں لیکن ٖغریب عوام کو علم ہونا چاہیے کہ ریٹ تین ہزار روپے ہیں، رسید ضرور حاصل کریں۔ وزیر اطلاعات آپ بھی کمال کرتے ہیں، زمینوں پر قبضہ ہو جاتا ہے، فلیٹس بن جاتے ہیں، غیر قانونی ہائیڈرینٹ بن جاتے ہیں، اس وقت تو کچھ کرتے نہیں، پھر بعد میں پریس کانفرنسیں کر کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، واقعی کمال کرتے ہیں پانڈے جی۔

اب یہی دیکھ لیں کہ، جہاں سرکاری ملازمتوں میں میرٹ نہیں، وہاں تعلیمی اداروں میں بھی میرٹ کی پالیسی نہیںہے، لڑکیاں ڈاکٹر بن کر نامعلوم گروپ کی طرح غائب ہو جاتی ہیں، پردے دار خواتین، لیڈی ڈاکٹرز تلاش کر رہی ہوتی ہیں اور ڈاکٹر بن جانے والی فیشن ایبل ’اسٹیٹس کو‘ کی مالک سیلفی بنا کر ٹوئٹر اور فیس بک پر شئیرزکرتی ہیں کہ ہم اب ڈاکٹرکہلائیں گے، ڈاکٹر تو ایک وہ بھی ہے، جس کو کراچی یونیورسٹی نے ڈگری دینے سے انکارکر دیا کہ تم پہلے گریجویشن تو کر لو ڈاکٹریٹ تو دورکی بات ہے، ان سے پوچھا کہ پھر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹرکیوں لگا رکھا ہے تو کہنے لگے کہ مجھ میں اتنی لیاقت ہے کہ لوگ مجھے ’ پیار‘ سے ڈاکٹرکہتے ہیں۔ اسی طرح ہر شہر، کوچے میں ’پیار‘ سے بنائے گئے عطائی ڈاکٹر موجود ہیں۔

میں نے شعبہ صحت کے اعلیٰ افسر سے کہا کہ ان عطائی ڈاکٹروں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے جو کسی اور کی ڈگری لگا کر ہائی اینٹی بائیٹک انجکشن کا استعمال کرتے ہیں اور مریض کی قسمت ہوئی تو بچ جاتا ہے، ورنہ مریض مر جائے تو اللہ کو یہی منظور تھا، ڈاکٹر صاحب نے تو بڑی محنت کی تھی۔ وہ مجھ سے کہنے لگے، کمال کرتے ہیں پانڈے جی، اگر یہ عطائی ڈاکٹرز بھی نہ رہیں تو شکار پور سانحے کی طرح بم دھماکوں سے زیادہ ہلاک ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جن کو علاج کی سہولت بروقت نہیں مل سکی۔

ایک خبر پڑھی کہ بلدیہ عظمی کے مالی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اب مریضوں کو کھانا بھی نہیں مل سکے گا۔ آپ ذرا یہ سوچیے کہ سرکاری اسپتالوں میں جو کھانا ملتا تھا اس سے اس مریض کا تیماردار بھی بیمار ہو جاتا تھا، کم ازکم مریضوں کی تعداد تو کم ہو گی۔ مسئلے مسائل بہت ہیں لیکن کہاں تک لکھوں گا کہاں تک سناؤں، ہزاروں ہی غم، کسں کس کو اپنا زخم دکھاؤں، لیکن اپنے پاکستانی عوام کوضرورکہوں گا کہ ایسے عوامی نمایندے ہمیشہ منتخب کرتے ہیں۔ ’’کمال کرتے ہیں پانڈے جی۔ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔