یہ کھلاڑی ہیں یا سفید ہاتھی؟

سالار سلیمان  بدھ 25 فروری 2015
چلئے ہم بھی اچھی امید قائم کر لیتے ہیں کہ کھلاڑی بھی ناکام ہونے کے بجائے بہترین کھلاڑی بن کے لوٹیں گے ۔

چلئے ہم بھی اچھی امید قائم کر لیتے ہیں کہ کھلاڑی بھی ناکام ہونے کے بجائے بہترین کھلاڑی بن کے لوٹیں گے ۔

پاکستان ورلڈ کپ میں اپنے ابتدائی دو میچ بری طرح سے ہار چکا ہے۔ پہلا میچ روایتی حریف بھارت کے خلاف تھا، جس کو پاک بھارت جنگ تصور کریں تو زیادہ مناسب ہوگا، لیکن ہم یہ جنگ بھی اپنے پرانے اسلحے، ناکارہ چلے ہوئے کارتوس اور نا قص جنگی حکمت عملی کے باعث ’با آسانی‘ ہار گئے۔

پاکستان نے دوسرے میچ ویسٹ انڈیز سے شکست کھائی۔ دوسری شکست پہلی شکست کی نسبت بہت زیادہ ذلت آمیز تھی۔ ایک رن پر چار کھلاڑی آؤٹ ہوجانے کے بعد میچ یکطرفہ ہو چکا تھا۔ اِس شرمناک کارکردگی کو دیکھنے کے باوجود اُمید ہے کہ شاید پاکستان اگلے مرحلے کے تمام میچ اچھے رن ریٹ سے جیت کر کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کرلے، کیونکہ پاکستانی جو ہیں۔

ورلڈ کپ میں ہماری ٹیم کھیل رہی ہے اور ہمیں کرکٹ سے جذباتی لگاؤ ہے، لہذا ہم اپنی ٹیم کی جانب سے بہترین کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری ٹیم پر بہت زیادہ ’انویسٹمنٹ ‘ ہوچکی ہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی تیاری پردو سال میں اب تک 4 ارب 28 کروڑ 38 لاکھ 76 ہزار 8 سو36 روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ اگر اس کو ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ 17 کروڑ 84 لاکھ 94 لاکھ 868 روپے اور روزانہ بنیادوں پر 59 لاکھ 49 ہزار 828 روپے بنتے ہیں۔ اخباری ذرائع کے مطابق یہ خطیر رقم ٹیم کو بہترین سہولیات فراہم کرنے سمیت دیگر مد میں خرچ ہوئی ہے ۔

ساتھ ہی ہماری ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی ہزاروں نہیں لاکھوں روپے کی ماہانہ تنخواہیں بھی لیتے ہیں۔ اندرون ملک ٹورنامنٹ کے انعقاد پر 93 کروڑ 22 لاکھ 86 ہزار روپے کے اخراجات آچکے ہیں جب کہ کرکٹ کے فروغ کی مد میں 63 کروڑ 41 لاکھ 40 ہزار روپے صرف ہوچکے ہیں۔ انتظامی نوعیت کے معاملات پر 1 ارب 22 کروڑ 91 لاکھ 56 ہزار روپے کا خرچ ہو چکا ہے۔ روپے کی گراوٹ کی وجہ سے 20 کروڑ 22 لاکھ 21 ہزار روپے جبکہ مالیاتی اخراجات کی مد میں 3 کروڑ 57 لاکھ 6 ہزار روپے کا خرچ ہوچکا ہے۔ یہ اخراجات اُس ملک کی ٹیم پر ہورہے ہیں جو کہ کشکول اٹھانے کی وجہ سے پورے عالم میں مشہور ہے اور جس کی آبادی کی ایک بڑی تعداد سفید پوش یا غرباء پر مشتمل ہے۔ اِس لیے یہ سوال تو اُٹھنا ہی چاہیے کہ بھیا یہ یہ ٹیم ہے یا پھر سفید ہاتھی ہے؟

اس کے برعکس اگر کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ کسی بھی صورت میں حوصلہ افزاء نہیں کہلائی جاسکتی ہے۔ نیوزی لینڈ نے پاکستان کو ورلڈکپ سے پہلے ہونے والے دونوں میچوں میں باآسانی شکست دی تھی جبکہ پریکٹس میچ میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم کے خلاف بھی کانٹے دار مقابلہ ہوا تھا ہاں یہ بات الگ ہے کہ ہم وہ میچ خوش قسمتی سے جیت گئے تھے۔ بھارت سے میچ سے قبل بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد ہم نے میچ بھار ت کی جھولی میں ڈال دیا تھا جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک رن پر چار کھلاڑی پویلین واپس جا چکے تھے۔ دوسری طرف یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ڈریسنگ روم کا ماحول نہایت کشیدہ ہے اور کھلاڑی اس وقت دو نہیں بلکہ تین گروپس میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ شاہد آفریدی اس وقت ٹیم کے سینئر ترین کھلاڑی ہیں اور کپتان کے ساتھ ساتھ اُن پر بھی سب چیزوں کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ آفریدی نے ابھی تک متاثر کن کھیل کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔

ایک طرف ٹیم میچ ہار رہی ہے تو دوسری طرف پاکستانی ٹیم کے چیف سلیکٹر اور سابق کپتان معین خان کسینو میں جوا کھیلتے ہوئے پائے گئے ہیں۔اُن کا استفسار پر یہ کہنا ہے کہ میں وہاں کھانا کھانے گیا تھا لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ اُس کسینو میں کیا کھانے گئے تھے جہاں پر حلال خوراک نہیں دی جاتی ہے اور اُن کی بیگم کے ہاتھ میں ’پلے چپس ‘ کیا کر رہی تھی جو کہ پہلی منزل پر اپنا دل بہلا رہی تھی۔چیف سلیکٹر اور اُن کی بیگم اُس کلب میں موجود تھے جہاں پر کم و بیش 15سے 20ہزار ڈالر کا خرچ آتاہے۔ عوامی غم و غصہ اس وقت بالکل جائز ہے کہ جب ٹیم کی پرفارمنس زیرو کی بجائے مائنس میں ہے تو اُ س کاچیف سلیکٹر کیسے جواخانے میں دل پشوری کیلئے جا سکتا ہے ؟ یہ تو قوم کے ساتھ مذاق ہے کہ ٹیم پر اربوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں لیکن اُس کا چیف سلیکٹر چین کی بنسی بجا رہا ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اُن کو ئی پرواہ ہی نہیں ہے ۔

قوم کتنی دعائیں کرے جب ٹیم اور اس کے چیف سلیکٹر کی حرکتیں ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ کھلاڑی یہ یاد رکھیں کہ اُن کو کھلاڑی ہم نے یعنی کے عوام نے بنایا ہے ،ورنہ وہ بھی کروڑوں کی بھیڑ میں ایک آدمی ہی ہوتے۔ اب دیکھتے ہیں کہ معین خان بورڈ کی وضاحت پر کیا جواب داخل کرواتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پراخلاقی سمیت تمام بنیادوں پر کوئی اچھی امید نہیں ہے ۔ باب وولمر یا دآرہے ہیں جنہوں نے ٹیم کی ہار کو اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے خود کشی کر لی تھی ۔خیر اب ابھی ورلڈ کپ کے میچز باقی ہیں۔ قوم بھی دعائیں کرے گی ،اور چلئے ہم بھی اچھی امید قائم کر لیتے ہیں کہ کھلاڑی بھی ناکام ہونے کے بجائے بہترین کھلاڑی بن کے لوٹیں گے ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔