سینٹ انتخابات… آئینی ترمیم سے ہارس ٹریڈنگ کاخاتمہ ہوسکے گا؟

احسن کامرے  جمعـء 27 فروری 2015
آئینی و قانونی ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

آئینی و قانونی ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

سینٹ انتخابات کی آمد آمد ہے، ان انتخابات کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے جارہے ہیں جیسا کہ ہر انتخابات سے پہلے لگائے جاتے ہیں۔

اس مرتبہ ہارس ٹریڈنگ پر قابوپانے کے لیے حکومت نے آئین میں ترمیم لانے کافیصلہ کیا ہے جبکہ اس ترمیم کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں اورابھی تک اس پر مشاورت جاری ہے۔ گزشتہ دنوں’’سینٹ انتخابات اور مجوزہ آئینی ترمیم‘‘ کے حوالے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس میں مختلف آئینی وقانونی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایس ایم ظفر (سینئر قانون دان)

کابینہ نے وزیراعظم کی سربراہی میں یہ فیصلہ کیا ہے چونکہ کرپشن بہت بڑھ گئی ہے اس لیے آئین میں ترمیم کرکے خفیہ رائے شماری کی بجائے کسی اور طریقے سے اسمبلیوں کے سینٹ کے انتخابات کروائے جائیں ۔گویایہ آئین کے اس آرٹیکل میں ترمیم لانے کا ارادہ ہے جس میں یہ درج ہے کہ آئین کے ماتحت الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوں گے۔ مجھے حیرانگی ہوئی ہے کہ اتنی بڑی کابینہ اور مینڈیٹ کے وزیراعظم جو خود رکن اسمبلی ہیں وہ کرپشن کے آگے اتنے سرنگوں کیوں ہوگئے ہیں کہ انہوں نے آئین کی ایک نہایت اہم اور جمہوریت کے لیے ضروری دفعہ کوتبدیل کرکے خفیہ رائے شماری کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ یہ ریاست ،حکومت اور سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ بشمول اسمبلیوں کے ہر جگہ پرکرپشن کا خاتمہ کریں۔

اس ترمیم سے کرپشن بہت تیزی کے ساتھ بڑھے گی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان پارلیمان کو ہوگا۔ پارلیمان کی بالادستی اور ضمیر سے ووٹ دینا دراصل یہی آئین ، جمہوریت اور پارلیمنٹ کا سنگ میل ہے۔ میں اس ترمیم کے حوالے سے احتجاج کرتا ہوں اور حکومت سے یہ مطالبہ کرتاہوں کہ اس قسم کی کوئی ترمیم نہ لائی جائے ، اس سے حالات تباہ ہوجائیں گے، کرپشن بڑھ جائے گی اور ریاست کو نقصان ہوگا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/130.jpg

یہ بات درست ہے کہ الیکشن میں ہر طرح کی کرپشن کی جارہی ہے، اسمبلیوں کے اندر آنے کے لیے جو انتخابات ہوتے ہیں وہ مختلف طریقے کی کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں اور کبھی جبر،کبھی لالچ اور کبھی عہدے ووٹوں کو تباہ کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کو روکنے کے لیے صرف آئین اور قانون کا سہارا لیا گیا تو مایوسی اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کرپشن کو روکنے کے لیے ریاست کے بے شمار ادارے ہیں، ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اس معاملے میں قانون حرکت میں لائے اور ان اداروں کو منظم کرکے ہر موقع پر کرپشن کا خاتمہ کرے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت رواں دواں ہے اور مضبوط ہورہی ہے وہاں صرف اور صرف خفیہ رائے شماری سے انتخابات کروائے جاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے معاملات بلاشبہ جلد طے کرنے کیلئے جن کا تعلق ضمیر سے نہیں ہوتا وہ ظاہری طور پر نپٹا لیے جاتے ہیں۔ اس ترمیم سے مجھے سخت مایوسی ہوگی اور میں تاریک مستقبل دیکھ رہا ہوں اور اس کا اندیشہ محسوس کررہا ہوں ۔میرے نزدیک یہ ترمیم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے لارہے ہیں ، یہ ترمیم کرپشن کے آگے ہتھیار ڈالنے کے لیے ہے یا شاید انہیں جمہوریت کا پتہ نہیں یا انہیں اس پر یقین نہیں۔ میرے نزدیک یہ ترمیم اس لیے بھی لائی جا رہی ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘قائم رہے۔

چوہدری عبدالغفور (سابق وفاقی وزیر قانون)

پاکستان ایک فیڈریشن ہے جس کے چار یونٹس ہیں اور یہاں دو ایوانوں پر مشتمل قانون ساز پارلیمنٹ ہے۔ نیشنل اسمبلی ایوان زیریں ہے جس کے اراکین ڈائریکٹ الیکشن سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ سینٹ ایوان بالاہے جس میں ہر صوبے کو برابر نمائندگی دی گئی ہے اور اس کے پیچھے خدشہ یہ تھا کہ بڑا صوبہ اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کر کے اپنی اجارہ داری نہ قائم کرلے۔ آغاز میں سینٹ کی صرف 100نشستیں تھیں بعدازاں فاٹاا ور خواتین کی نشستیں ملا کر ان کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا۔ صوبہ پنجاب کی اسمبلی کی سیٹیں زیادہ ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی سیٹیں کم ہیں۔

بلوچستان اور خیبر پختونخواکی اسمبلیوں میںسیٹیں کم ہونے کی وجہ سے بڑے سرمایہ داروں نے وہاں ووٹ خریدناشروع کردیئے اب وہ وہاں سے باآسانی سینٹ میں آجاتے ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ اسمبلی میں موجود ہر رکن نے ووٹ دینا ہوتا ہے، مالدار لوگ انہیں خرید لیتے ہیں اور سینٹ کا انتخاب جیتتے ہیں جبکہ پنجاب میں بھی ایک ایسامالدار خاندان ہے جو ہر سینٹ الیکشن میں ووٹ خریدتا ہے اور پورا خاندان ہی سینٹ میں آجاتا ہے۔ آغازمیں سینٹ انتخابات میں یہ برائی نہیں تھی،الیکشن بالکل شفاف ہوتے تھے لیکن بعد میں سرمایہ داروں نے بولی لگانی شروع کردی اور اب سیاست پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔

ایسا نہ صرف پنجاب میں بلکہ چھوٹے صوبوں میں بھی سرمایہ داروں کا راج ہے اوروہ پارٹی فنڈز کے نام پر پیسہ خرچ کرکے ٹکٹ حاصل کرلیتے ہیں جبکہ ان کی پارٹی سے وفاداری نہیں ہوتی بلکہ پارٹیاں اپنے لوگوں کی وفاداریوں اور پارٹی خدمت کو نظرانداز کرکے صرف ذاتی مراسم کی بناء پر انہیں ٹکٹ دے دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سینٹ میں اب سرمایہ داربیٹھے ہیں جو اپنی مرضی کی پالیسیاں بناتے ہیں اور غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ امید رکھنا کہ جمہوریت اپنے پاؤں جمائے گی یہ غلط ہے بلکہ اس سے تو مزید مایوسی پیدا ہورہی ہے کیونکہ جمہوریت اور سیاست پر کاروباری لوگوں نے قبضہ کررکھا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/218.jpg

آئین کے مطابق سینٹ انتخابات خفیہ بیلٹ سے ہوں گے جبکہ سینٹ چیئرمین اور وزیراعظم کا انتخاب اوپن بیلٹ سے ہوتا ہے باقی کسی الیکشن میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون کسے ووٹ کررہا ہے ۔ اسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں نے مک مکا شروع کردیا اور سینٹ کے لیے ووٹ خریدنے شروع کردیے ، میرے نزدیک اس کاواحد حل یہی ہے کہ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروائے جائیں اس سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات کم ہوجائیں گے لہٰذاسینٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کی ترمیم کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن شیڈول کااعلان ہونے کے بعد انتخابی قوانین میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی لہٰذا اب اگر یہ ترمیم ہوبھی جاتی ہے تو یہ اگلے سینٹ انتخابات پر لاگو ہو گی تاہم اس سے جمہوریت پر اعتماد بحال ہوگا اوریہ امر خوش آئند ہے۔

اس مجوزہ آئینی ترمیم کو عمران خان نے بھی سپورٹ کیا ہے لہٰذا اس سے سیاسی حالات میں بھی بہتری آئے گی۔ میرے نزدیک شو آف ہینڈ کا طریقہ کار درست تو ہے لیکن اس میں خرابیاں بھی ہوں گی ۔ اس بات کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی ہیڈز ڈکٹیٹر بن گئے ہیں اور انہیں ضرورت سے زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں ، وہ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی کی بھی ممبر کی پارٹی رکنیت ختم کرسکتے ہیں، اب پارٹی ان کے رحم و کرم پر چل رہی ہے اور کوئی بھی اپنی مرضی سے صحیح بیان نہیں دے سکتا۔ ماضی میں جب پارٹی ہیڈز کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیے گئے تو اس وقت اس کے نقصانات نہیں پر غور نہیں کیا۔

اب اگر یہ ترمیم آجاتی ہے تو اس سے انہیں مزید تقویت ملے گی، پارٹی ہیڈز کی طاقت میں اضافہ ہوگا اوراگر یہی ریت قائم رہی تو اس سے جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگابلکہ اب پارٹی ٹکٹ ایک آدمی کی صوابدید میں چلے جائیں گے ،پھر ہیڈز خود ٹکٹ بیچیں گے اور وہ جسے چاہیں گے ٹکٹ دیں گے لہٰذا یہ ڈکٹیٹر تو فوجی ڈکٹیٹر سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے اور ملک کو نقصان پہنچائیں گے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی نے جب سینٹ انتخابات کروائے تو کوئی ووٹ نہیں خریدا گیا،سیٹیں پہلے ہی طے کر لی گئیں اور سب نے اپنے اپنے حصے کی سیٹیں لے لیںلہٰذا جب تک پارٹی میں میرٹ پر ووٹنگ نہیں ہوگی تب تک اس ترمیم سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

پروفیسر ہمایوں احسان (دانشور)

میرے نزدیک شو آف ہینڈ کاطریقہ درست ہے اس سے شاید حالات میں تھوڑی بہتری آجائے ۔ ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ بکاؤ مال ہیں، اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں اور پیسے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے عوام کا پریشر بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے مگر ہم آج تک اس تاثر کو غلط نہیں کرپائے اور اس سے باہر بھی نہیں نکلے۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آنے والے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں اور اپنا ووٹ بیچتے ہیں۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں جانیں اور انہیں یہ علم ہو کہ ان کے منتخب نمائندوں میں سے کون اپنا ایمان فروخت کررہا ہے اور ان کے دیے ہوئے مینڈیٹ کی بے حرمتی کررہا ہے۔

اب تو عوام کافی باشعور ہوچکے ہیں اور عوام کی نظر میں ان سیاستدانوں کی کوئی عزت نہیں رہی، پاکستان میں توسیاست کوئی عزت والا کام نہیں ہے اور یہ نظریہ بن گیا ہے کہ سیاست میں صرف لوٹ کھسوٹ کے لیے ہی لوگ آتے ہیں۔ میرے نزدیک سیاست سے بڑی کوئی عبادت نہیں ہے اور یقینا ان حالات میں اگر پاکستان میں کوئی خلوص نیت کے ساتھ کلین پالیٹکس کرتاہے تویہ بہت بڑی نیکی ہے، ملک کی خدمت کرنا عبادت ہے اور اگر کوئی سیاستدان ملک کی خدت کرتا ہے تو وہ واقعی ثواب کا مستحق ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ لوگوں کا سیاست اور سیاستدانوں پر کوئی اعتماد نہیں رہا اور اب سیاست کسی شریف آدمی کا کام بھی نہیں ہے۔

آئین کے مطابق انفارمیشن تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے ، شو آف ہینڈ کا یہ طریقہ ضرور متعارف ہونا چاہیے تا کہ وہ چہرے عوام کے سامنے بے نقاب ہوجائیں جوان بکاؤ لوگوں کے سردار ہیں، جنہیں لوگوں کے ضمیر خریدتے ہوئے شرم نہیں آتی، جو ضمیر کا سودا کرنے والوں کی مدد سے سینٹر بنتے ہیں ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں دولت ،دھونس اور دھاندلی سے سیاست کی جاتی ہے لہٰذا جوبھی ترمیم آجائے اس سے کوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ ان حالات میں میڈیا پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اصل حقائق عوام کے سامنے لائے اور میڈیا کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ پریشر کے باوجود میڈیا عوام کے سامنے حقائق پیش کرتا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/318.jpg

ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں جس سطح پر اقدامات ہونے چاہئیں وہ نہیں ہو رہے اور ہر دن پہلے سے زیادہ برا آرہا ہے۔ میرے نزدیک صرف ترمیم لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہاں عملی طور پر وہی ہوتا ہے جوحکمرانوںاور ان کے اپنے لوگوں کے مفاد میں ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور دیگر حکومتی ادارے بنائے تو عوام کی خدمت کے لیے جاتے ہیں لیکن یہ دھونس، دھاندلی اور لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی خدمت کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں حکومتی و غیرحکومتی اداروں، بھتہ خوروں، دہشت گردوں، بیوروکریسی، سیاستدانوں اور تمام سٹیک ہولڈرز میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں اور سب مل کر غریب عوام کی کھال اتار رہے ہیں اور ملک میں اندھیرا پھیلارہے ہیں۔

ہارس ٹریڈنگ ایک شرمناک عمل ہے ، اس سے ملک کے مستقبل کا سودا کیا جارہا ہے اور معاملات کسی کی گرفت میں نہیں آرہے۔ سسٹم کی بہتری کے لیے کوششیں صرف دکھاوا ہیں، یہ ترمیم بھی صرف مفادات پر مبنی ہے اور اگر اس سے کوئی بہتری آئی تو یہ حادثاتی طور پر آئے گی کیونکہ اس ترمیم کا مقصد بہتری لانا نہیں بلکہ پارٹی کی اندرونی بغاوت پر قابو پانا ہے۔ وہ اراکین جو دوسری جماعتوں کی طرف جارہے ہیں اگر وہ واپس آگئے تو یہ ترمیم نہیں لائی جائے گی اور اس کے لیے پھر الیکشن کمیشن کے بیان کو بنیاد بنایا جائے گا کہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد الیکشن کے قوانین میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔

یہ سب کھیل تماشا ہے، اگر ضرورت پڑی تو الیکشن کمیشن بھی اپنا بیان واپس لے لے گا، یہ سب چیس بورڈ کی پلاننگ ہے اور ابھی ایک قوت اور بھی ہے جس کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہے لہٰذا اس الیکشن اور مجوزہ ترمیم کے حوالے سے حکم امتناعی بھی آسکتا ہے۔ میرے نزدیک سسٹم میں اس وقت تک شفافیت نہیں آسکتی جب تک وہ لوگ آگے نہیں آتے جوشفافیت پر پلے بڑھے اورپھر وہ شفافیت کیلئے محنت سے کام کریں تو تھوڑا سا چانس ہے کہ وہ لڑ مر کر اس میں کامیاب ہوجائیں لیکن جو لوگ پڑھوان ہی ایسے دھاندلی زدہ ماحول میں ہوئے ہوں وہ اس سسٹم کوایک اور چکر دیں گے اور اس پُر شکن ماحول میں مزید بل آجائیں گے۔ میرے نزدیک عوام کے اندر بھی ایک مکر ہے اور وہ بھی اس سے نکلنے کو تیار نہیں لہٰذا اگر سسٹم کی بہتری مقصود ہے تو سب کو پہلے اپنے اندر بہتری لانا ہوگی۔

رمضان چوہدری (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)

تمام لوگ شفاف الیکشن چاہتے ہیں اور کوئی بھی یہ نہیں چاہتاکہ کسی بھی سطح پر الیکشن میں شفافیت نہ ہو۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پایسی سازی کے لیے یا کسی بھی اقدام کے لیے ہماری حکومتوں سے صحیح وقت کا تعین نہیں ہوتا اورا س طرح ہر کام مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب حکومت کو یہ معلوم ہے کہ ہر تین سال بعدسینٹ انتخابات ہوتے ہیں تو پھر یہ تین سال سوئے کیوں رہتے ہیں، غفلت کیوں برتتے ہیں، انتخابی اصلاحات لانے کے لیے کام کیوں نہیں کرتے ، تب انہیں زحمت نہیں ہوتی اور نہ ان کو پتہ ہی ہوتا کہ ہم نے انتخابات میں اصلاحات کے حوالے سے کوئی کام کرنا ہے۔

اب الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے، الیکشن شیڈول بھی آگیا ہے، کاغذات نامزدگی جمع ہوچکے ہیں، اب یہ آئینی ترمیم لانے کی بات کررہے ہیں ا س سے تو پوراانتخابی عمل متنازعہ ہوجائے گا۔ ووٹ کی سیکریسی قائم رہنی چاہیے ، ہمارا آئین بھی اسی کی بات کرتا ہے لہٰذاشو آف ہینڈ کا طریقہ درست نہیں ہے اورا س طرح مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ میرے نزدیک اس ترمیم کی بجائے انہیں چاہیے کہ اراکین پارلیمنٹ پر پابندی لگائیں، ان پر اخلاقی حدیں لگائیں اور جو کوئی بھی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جائے۔اب تو انتخابی عمل کا آغاز ہوچکا ہے، الیکشن کمیشن نے تیاری مکمل کرلی ہے ، اب اگر یہ ترمیم آتی ہے تو لوگ اسے عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔ اب سوچنا تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں اس ترمیم کا اطلاق کیسے کریں گے جب کاغذات نامزدگی پرانے قانون کے تحت جمع ہوئے ہیں، اب اگر حکومت اور سیاسی جماعتیں مل کر ترمیم لاتی ہیں تو یہ نامناسب ہوگا اور اس سے ووٹ کا تقدس مجروح ہوگا۔ اس طرح تو شو آف ہینڈ کا سلسلہ آگے چل نکلے گا اور پھر یہ ہر سطح کے انتخابات میں شو آف ہینڈ کو کس طرح لاگو کریں گے لہٰذا یہ طریقہ میرے نزدیک درست نہیں ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/413.jpg

سینٹ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے ، یہ ملک کو اکھٹارکھنے کا ادراہ ہے، ملکی سالمیت کا ادارہ ہے، ملک کے لیے پالیسیاں بنانے والا ادارہ ہے ،اگر وہاں ہارس ٹریڈنگ نہیں رک سکتی تو یہ سسٹم اور جمہوریت کی ناکامی ہے۔ یہ تو کوئی حل نہیں ہے کہ شو آف ہینڈ کا طریقہ متعارف کروادیا جائے، یہ تواس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوری طریقہ کار فیل ہوگیا ہے اور جمہوریت ناکام ہوچکی ہے۔ پہلے تو دوسری جماعتوں کے لوگ کہتے تھے مگر اس ترمیم کے فیصلے سے تو سیاستدان خود اپنے اراکین اسمبلی پر عدم اعتماد کااظہار کررہے ہیں، وہ یہ ظاہر کررہے ہیں کہ ان کے ممبران پارٹی ڈسپلن کو خاطر میں نہیں لاتے اور پارٹی کے فیصلے تسلیم نہیں کرتے۔

میرے نزدیک اس مجوزہ ترمیم سے سیاسی ڈکٹیٹر شپ کو دعوت دی جارہی ہے اور ہمارے سیاستدان ڈکٹیٹر بن چکے ہیں۔ یہ ہارس ٹریڈنگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں، اس جمہوری سسٹم پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں اور یہ تسلیم کررہے ہیں کہ سسٹم فیل ہوچکا ہے۔ اگر یہ ترمیم کردی گئی تو پھر ہر جگہ ایسا ہی مطالبہ آئے گا، پھر قومی اسمبلی کے لیے اراکین کا چناؤ، وزیر اعظم، سپیکر اسمبلی اور سینٹ کے چیئرمین ہر جگہ ایسا نہیں ہوسکے گا، اس طرح مسائل میں اضافہ ہوگا۔ میرے نزدیک ترمیم یا سینٹ انتخابات کے لیے اصلاحات کا وقت گزر چکا ہے اس پر پہلے بحث ہونی چاہیے تھی۔

حکومت کو چاہیے تھا کہ اسے مختلف فورمز پر زیر بحث لاتی، اس میں تمام ا سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جاتا، انہیں اعتماد میں لیا جاتا اس کے علاہ پبلک کے سامنے بھی یہ معاملہ رکھتے اور رائے عامہ کو شامل کرتے مگر ایسا نہیں ہوا اور اب یہ ترمیم عدالت میں چیلنج ہوجائے گی اور اس طرح سینٹ انتخابات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ میرا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ مہربانی کریں ، ایسی کوئی مہم جوئی نہ کریں، آئینی ترمیم سے پرہیز کریں اور موجودہ قانون کے مطابق ہی انتخابات کروائیں۔ اگرکچھ کرنا ہے تو اپنے اراکین اسمبلی پر دباؤ ڈالیں، اپنی پارٹی میں احتساب لائیں، ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کی رکنیت معطل کریں نہ کہ ملک کا آئین ہی بگاڑ دیں۔ یہ ایک متفقہ آئین ہے، اسے متنازعہ نہ بنائیں۔

یہ بات سب کے سامنے ہے کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے بل پاس کیا گیا مگر وہ بھی عدالتوں میں چیلنج ہوچکا ہے لہٰذا اب اگر یہ ترمیم بھی آتی ہے تو فائدے کی بجائے نقصان زیادہ ہوگا اور میرے نزدیک یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے ،یہ بیلٹ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے لہٰذا ایسا نہ کیا جائے اور ووٹ کا تقدس برقرار رکھا جائے۔ میری تجویز یہ ہے کہ سب جماعتیں اپنے اراکین کو پارٹی ڈسپلن کا پابند کریں ، ان پر پابندیاں عائد کریں، ان کا محاسبہ کریں اور ان کی رکنیت معطل کریں اور پھر کسی اور ایماندار شخص کا انتخاب کریں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سینٹ انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اوراس طرح انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔ میری یہ رائے ہے کہ فی الحال ایسی کوئی ترمیم نہ لائی جائے، بیلٹ کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے اور صرف خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی انتخابات کروائے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔