بسنت میلہ سے لٹریچر فیسٹیول تک

انتظار حسین  جمعـء 27 فروری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

یہ اتوار کی صبح تھی۔ بارش کا ریلا گزر چکا تھا۔ روشن آسمان پر بادل کا کوئی دھبا تک نہیں تھا۔ دھوپ کتنی چمک کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔ ادھر لاہور آرٹ کونسل کے سبزہ زار میں کتنی چہل پہل‘ کتنی گہما گہمی تھی۔ آج تو واقعی لاہور لٹریچر فیسٹیول میلہ کا سماں پیش کر رہا تھا۔ مگر ہمارے دل و دماغ پر کچھ اور ہی واردات گزری، آرٹ کونسل نے سبزہ زار میں علامہ اقبال کے مجسمہ کے ارد گرد جو صوفے آراستہ کیے تھے، وہ سب زرد پوش تھے اور آس پاس وہ سماں کہ ع

دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی

ارے یہ تو بسنت رت ہے۔ یہ خیال آنا تھا کہ ع

اک تیرے میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

ہمیں لاہور کا بسنت فیسٹیول یاد آ گیا۔ بسنت نے لاہور میں رفتہ رفتہ کیا رنگ باندھا کہ اچھا خاصا ایک بین الاقوامی بسنت میلہ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ کتنے ملکوں سے سیاح آن پہنچتے تھے۔ ہندوستان سے رنگ برنگ ٹولیاں گاتی بجاتی کہ لو پھر بسنت آئی۔

مگر اس بسنت بہار پر مولوی ملا تو لال پہلے ہوئے، بیجا ہوئے۔ عجب بات یہ ہے کہ شہر کی سرکاری انتظامیہ کی آنکھوں میں بھی یہ بہار خار بن کر کھٹکتی تھی۔ روشن آسمان پر ڈولتی رنگ برنگی پتنگیں انھیں زہر لگتی تھیں۔ مولوی ملاؤں کا موقف تو دو ٹوک تھا کہ یہ سارا کاروبار کافرانہ ہے یعنی کہ ہندوانہ ہے۔ لاکھ یاروں نے سر مارا کہ ارے یہ تو موسمی تیوہار ہے۔

کڑکڑاتا جاڑا گیا۔ گلابی جاڑا آیا۔ بسنت رت ہے۔ ارے شہر سے باہر نکل کر دیکھو سرسوں پھولی ہے۔ کھیتوں نے بسنتی بانا پہنا ہے۔ باغ بغیچوں میں گیندا پھولا ہوا ہے۔ اس کی شگفتگی میں بسنت پھولی ہوئی ہے۔ چاروں طرف فضا پر بہار ہے۔ روشن نیلے آسمان تلے بسنتی رنگ کی بہار ہے اور بسنت میلہ کا شور ہے۔ اور وہ شور جس کا ذکر مرزا امانت نے کر رکھا ہے

ہے شور حسینوں کی دو رنگی کا امانتؔ

دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی

اور میرؔ نے کیا خوب بسنت منائی ہے ؎

بسنتی قبا پر تری مر گیا ہوں

کفن دیجیو میرؔ کو زعفرانی

ملا کے فتوے کے سامنے موسم کیا بیچتا ہے۔ ہو گی رت بسنت کی۔ اس کا مذہب تو کافرانہ ہے۔ بند کرو اس کافرانہ کاروبار کو۔ اور شہر کی سرکاری انتظامیہ کو دیکھو۔ اس کے یہاں مذہبی قیل و قال تو نہیں ہے۔ وہ اس رنگ میں بھنگ اور رنگ سے ڈال رہی تھی۔ پتنگ باز سیدھی سچی ڈور کو چھوڑ کر تار کا استعمال کرنے لگے۔ پہلے منظر اور تھا۔  تھوڑی تھوڑی دیر بعد جب پتنگ کٹتی تو گویا کہ آسمان پر ستارہ ٹوٹا۔ شور اٹھتا کہ بو کاٹا۔ مطلب یہ کہ پتنگ کے کٹنے پر تو شور تو بہر حال اٹھتا ہے۔

اب تار سے گردنیں کٹنے لگیں۔ اس پر انتظامیہ نے شور مچانا شروع کر دیا۔ اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ یہ تو تمہاری بد انتظامی کا ثبوت ہے۔ ارے تم سے اتنا انتظام بھی نہیں ہو سکتا کہ ڈور مانجھے کا کاروبار کرنے والوں کو گردن سے پکڑو۔ تار کے استعمال پر ان کی باز پرس کی جائے۔ ان کا چالان ہو۔ انھیں سزا دی جائے۔ مگر سزا ملی بسنت بہار کو۔ بند کرو پتنگ بازی کو چھین لو ان کے ہاتھوں سے پتنگوں کو تو اب جو یہ بہار نظر آ رہی ہے آرٹ کونسل میں۔ یہ بسنت بہار نہیں ہے۔ لٹریچر فیسٹیول ہے۔

عزیزو لٹریچر فیسٹیول اپنی جگہ۔ مگر ادب‘ بیشک وہ انگریزی ادب ہی کیوں نہ ہو بسنت کا نعم البدل نہیں ہے۔ فیسٹیول کے منتظمین نے بحث مباحثہ کے لیے کیسے کیسے موضوعات منتخب کیے۔ یہ نہ ہوا کہ یہ جو اس علاقہ پر تہذیبی خود کش حملہ ہوا ہے اس پر بھی تھوڑا غور کر لیا جاتا۔ مگر اس تہذیبی حادثے کو جانیں اردو پنجابی والے۔ خالص انگریزی کا پروردہ تہذیبی شعور تو اس سے بے تعلق ہے‘ بیگانہ ہے۔ تو صاحبو ہوا یوں کہ ع

اب کے بھی دن بسنت کے یوں ہی گزر گئے

لے دیکے ’’اجوکا‘‘ والوں نے بسنت کے حوالے سے جو ایک کھیل تیار کر رکھا تھا وہ لاہور ہی کی ایک دوسری تقریب میں اسٹیج پر پیش کیا۔ اپنا فرض ادا کیا۔ بدلے میں داد ملی۔

ادھر یاروں نے آرٹ کونسل میں آراستہ فیسٹیول کی بہار لوٹی۔ خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ وہ بہار تو یاں بھی تھی کہ دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی۔ یہ جوانی کی بہار تھی۔ اور نئی جوان مخلوق کی گہما گہمی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ باہر یہ رنگ۔ اندر چھوٹے بڑے ہالوں میں دیسی بدیسی  انٹلکچوئل جمع تھے اور بحثیں ہو رہی تھیں۔ سنا کہ ہال نمبر تین میں اردو مباحثہ گرم ہے۔ وہ جا کر دیکھا۔ بولنے والوں کو سنا۔ کچھ ہم نے بھی بولنے کی جرات کی۔

اصل میں پچھلے برسوں میں آصف فرخی نے جو اردو کے جانے مانے ادیبوں سے لمبے لمبے انٹرویو کیے تھے‘ فیض سے‘ غلام عباس سے‘ قرۃالعین حیدر سے‘ کشور ناہید سے‘ سلیم احمد سے‘ گوپی چند نارنگ سے‘ شمس الرحمن فاروقی سے‘ شمیم حنفی سے‘ وغیرہ وغیرہ سے وہ اب کتابی شکل میں بحث کرنے والوں کے پیش نظر تھے۔ بحث کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر کشور ناہید اور مسعود اشعر۔ خود آصف فرخی بھی شریک بحث تھے۔

وہاں یہ بحث چھڑ گئی کہ دنیائے ادب میں مکالمہ کی جو ریت تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ ارے بھائی وہ کب تھی۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان گئے تو وہاں بھی یہی نقشہ دیکھا کہ اول تو سوالات کے لیے سیمیناروں میں گنجائش کم ہی رکھی جاتی ہے۔ کچھ گنجائش نکلتی بھی ہے تو سوال تو کوئی کرتا نہیں۔ نیا سوال اٹھاتا نہیں۔ سوال کے نام پر تقریریں کرتے ہیں۔ جیسے ان بولنے والوں نے سیمینار میں شرکا کی کوئی بات نہیں سنی۔ موقعہ پا کر اپنی تقریر شروع کر دی۔

یہ جو فیسٹیول کے نام سے اب ادبی اجتماعات شروع ہوئے ہیں ان میں نوجوان بہت نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ ان میں ایسے ذہین نوجوان بھی ہوتے ہیں جو سوال کرنا بھی جانتے ہیں اور سوال اٹھانا بھی۔

اس سے تو واقعی یہ لگتا ہے کہ اب کچھ اس قسم کی تربیت ہونے لگی ہے جسے مکالمہ یا ’’ڈائی لوگ‘‘ کہتے ہیں۔ غنیمت ہے‘ بہت غنیمت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر غنیمت یہ کہ ادب کے نام پر کس ذوق و شوق سے دوڑے ہوئے آتے ہیں۔ ارے یہ لٹریچر فیسٹیول ہے‘ عمران خان کا دھرنا تو نہیں ہے۔ لڑکیوں کے پرے کے پرے اور نوجوان قطار اندر قطار۔ اور ہر سیشن میں موجود۔ ارے انھیں یہ احساس ہی نہیں کہ کتنے خطروں کے بیچ یہ فیسٹیول ہو رہا ہے خود کش حملے کے اندیشے کو وہ خاطر ہی میں نہیں لا رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔