سعودی عرب اور پاکستانی

 جمعـء 27 فروری 2015
سعودی حکام کہتے ہیں کہ غیر سعودیوں کو سعودی عرب کے شہریوں کے برابر حقوق حاصل نہیں جو آخری خطبہ حجتہ الودای کی سریع خلاف ورزی ہے جس میں آپؐ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

سعودی حکام کہتے ہیں کہ غیر سعودیوں کو سعودی عرب کے شہریوں کے برابر حقوق حاصل نہیں جو آخری خطبہ حجتہ الودای کی سریع خلاف ورزی ہے جس میں آپؐ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

رات دیر موبائل کی گھنٹی بجی تو چونک گیا، سیٹ کی ایل سی ڈی پر دیکھا تو دیار مصطفٰیؐ سے بھائی کی کال تھی، میری خوشی تو دیدنی تھی لیکن دوسری جانب ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے صف ماتم بچھی ہو۔

رندھی ہوئی، سسکیوں سے بھرپور آواز مجھے بھی رلا گئی۔ پانچ سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے بھائی کو ایک تو خاندان کا غمِ جدائی تھا اور دوسرا عربیوں کے ڈھائے جانے والے ظلم کا دُکھ تھا کیونکہ گزشتہ 10 دن سے کوئی کام نہیں ملا تھا۔

دوسری جانب وہ بتارہے تھے کہ مجبوراً مکان میں محصور ہونا پڑرہا ہے کیونکہ ایک ساتھی مارکیٹ سے جب کھانے کا سامان لینے گیا تو شرتوں(سپاہیوں) نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا. اب کھانے کو کچھ نہیں، کمانے کو کام نہیں، انتظامیہ کہتی ہے کفیلوں کے پاس کام کرو، کفیل کہتے ہیں کام نہیں، دس دس ہزار ریال (چوبیس سو ریال فیس علاوہ رشوت) اقاموں پر خرچ کرنے کے باوجود گرفتار کیا جارہا ہے۔ یہاں پاکستانی سفارتخانہ ہے تو ضرور ہے مگر مدد نہیں کررہا، آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

اِس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں 70 لاکھ پاکستانی کام کررہے ہیں جو کہ ملکی آبادی کا تین فیصد ہیں، سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں کام کاج کے سلسلہ میں موجود ہیں، جن کی تعداد 15 لاکھ سے زائد بنتی ہے، ان میں زیادہ تعداد مزدوروں کی ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں کے علاوہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی محنت مزدوری کے سلسلہ میں موجود ہیں، ان میں بنگلہ دیشی، بھارتی، سری لنکن، مصری، سوڈانی، فلپائنی و دیگر شامل ہیں۔

ہیومن رائس واچ کی رپورٹ کے مطابق 9 لاکھ مصری، سوڈانی فلپائنی، 5 لاکھ انڈونیشی اور ساڑھے تین لاکھ سری لنکن باشندے موجود ہیں، ان سب میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے اور اِس تعداد میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔

گھروالوں، رشتہ داروں، دوست و احباب کیلئے سونے کا انڈہ سمجھے جانے والے افراد دیارِغیر میں کن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں کبھی کسی نے نہیں سوچا۔ اِن کے شب و روز اذیت اور جبری مشقت میں گزرتے ہیں۔ اِن پاکستانیوں کیلئے سورج روزانہ نئی مصیبتوں کیساتھ طلوع ہوتا ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے امیر ملک سمجھا جانیوالا یہ ملک اور سب سے بڑی بادشاہت، اپنی رعایا اور دیگر ممالک سے آنے والے مسلمانوں پر غیر مسلموں سے بڑھ کرغیر انسانی سلوک کررہا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان سعودی عرب کو اپنا مرکز و محور، مکہ اور مدینہ کو آنکھوں کا نورسمجھتے ہیں، لیکن آج اُنہی مقدس شہروں میں نبی رحمتؐ کے امتی، کفیلوں کے ظلم کا شکار ہیں۔ اول تو وہاں تنخواہ دی ہی نہیں جاتی اور مل بھی جائے تو اتنی قلیل کہ ’’گنجی نہائے کیا نچوڑے کیا‘‘

ہر سال کفیلوں کو الگ سے بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے، یہ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ کئی گھرانوں کے کئی افراد کے بھوکے مرنے کا سوال ہے جو اپنے پیاروں کی آمدن کی آس میں وہاں موجود ہیں۔

یہ جدید دور کی جدید غلامی ہے جس پر آج سب خاموش ہیں۔ مانا کہ سمندر کے اُس پار تو اپنا حق مانگنے پر پابندی ہے لیکن یہاں کیوں زبانوں پر تالے لگے ہیں۔ یہاں کی صحافت جس کو لوگ معاشرے کا آئینہ سمجھتے ہیں اپنی ہی حکومت کو اُس کا چہرہ دکھا دیں، ہم دلی تسکین کیلئے مغرب، یورپ، امریکہ اور برطانیہ کو بُرا بھلا کہنا تو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگرچہ وہاں سے بھی انسانی حقوق کی پامالی کی کچھ کچھ خبریں تو موصول ہوتی ہیں لیکن اگر وہاں کا سعودی عرب سے موازنہ کیا جائے تو پھر وہ غیر مسلم ممالک ہمیں بہت اچھے نہیں تو اچھے ضرور لگیں گے۔

یہ بات اِس لیے کی جارہی ہے کہ یورپ میں اِس وقت 23 لاکھ، امریکہ میں 17 لاکھ اور افریقہ میں 50 ہزار پاکستانی رہتے ہیں۔ اس رویے پر سعودی حکام یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ غیر سعودیوں کو سعودی عرب کے شہریوں کے برابر حقوق حاصل نہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے نبیؐ نے تو خطبہ حجتہ الوداع میں سب کو برابری کی حیثیت دی ہے. بادشاہ اورغلام کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا ہے، آپؐ توعربی، عجمی، گورے، کالے میں تفریق ختم کرکے عالمی اصول سکھا گئے، پھر یہ کون ہوتے ہیں جو انسانوں میں تفریق پیدا کریں؟

لوگ کہتے ہیں کہ دہشتگردی کی وجہ مذہبی انتہا پسندی ہے لیکن میرا جواب نفی میں ہے کیونکہ دہشتگری کی اصل وجہ یہ معاشرتی، معاشی تفریق ہے جو دنیا کے امن کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اگر اِسے نہ روکا گیا تو حالات شاید مزید خراب ہوجائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔