نفرت ،تشدد کا آتش فشاں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 28 فروری 2015

گرے نے کہا ہے قوموں کی عظمتوں کے رستے قبرستانوں سے ہوکر آگے بڑھتے ہیں جب کہ ماؤزے تنگ کہتے ہیں ’’ہر قوم کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اجالے کا راستہ اور تاریکی کا راستہ۔ دو امکانی تقدیریں ہوتی ہیں اجالے کی تقدیر اور تاریکی کی تقدیر۔‘‘ تبدیلی اور انقلاب کی خواہش بری بات نہیں یہ ایک مثبت عمل ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حقائق کو نظر انداز کرکے تبدیلی کے خواں ہوجائیں۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہماری قوم مختلف علاقائی، سیاسی ، مذہبی ، نسلی گروہوں میں منقسم ہے اور انھیں ایک متفقہ پروگرام کی طرف لانے کے لیے ایک طویل سیاسی عمل اور جدوجہد کی ضرورت ہے جو پاکستان کی تمام قومی سیاسی جماعتیں کسی بڑے سمجھوتے کی طرف بڑھ کر اور اپنے اندرونی سیاسی ڈھانچوں کی اصلاح کرکے ہی کرسکتی ہیں۔

اگر تبدیلی صرف خواہشات سے آجائے تو دنیا کا ہر ملک خوشحال ہوجائے اور دنیا میں ہر قسم کے مسائل کا خاتمہ ہوجائے خواہشات محض خواہشات سے تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد ، عملی اقدامات ، صبر و استقامت ذاتی اصلاح سمیت تمام قسم کی کوششوں کی ضرورت ہے پاکستانی معاشرہ میڈیا کی آزادی کی وجہ سے پہلی مرتبہ کھل کر مختلف معاملات پر بحث کا آغاز کر چکا ہے لیکن محض مباحثے سے مسائل حل نہیں ہوتے اورہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا قومی تاریخی پس منظر کیا ہے ۔

برصغیر میں طویل عرصے تک بادشاہت رہی اور اس بادشاہت کے خلاف عوامی بغاوت کی کوئی تاریخ موجود نہیں جب کہ دوسرا دور غیر ملکی غلامی کا تھا اس کے خلاف جدوجہد ہوئی لیکن اس کے نمایاں علاقے وہ تھے جو پاکستان کا حصہ نہیں ہیں وہ بنگال اور دیگر علاقے تھے جو آج بھارت کا حصہ ہیں۔ قائداعظم نے جس پاکستان کا تصور دیا تھا وہ ایک جمہوری اور لبرل پاکستان تھا ۔

مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1955 میں قائداعظم کے یوم ولادت کے موقع پر اپنی نشری تقریر میں کہا تھا ’’یہ دوسرا موقع ہے کہ میں ریڈیو پاکستان سے آپ سے مخاطب ہوں آج قائداعظم کا یوم ولادت ہے قائداعظم کی بے مثال خدمات کو صرف اسی طرح خراج تحسین پیش کیاجا سکتا ہے کہ ہم ان اصولوں کی سختی سے پیروی کریں ۔

جنہیں وہ نہایت عزیز رکھتے تھے اور جو ہماری مملکت کو معرض وجود میں لانے کا موجب بنے اور جو انھوں نے اپنے تصورات کے مطابق اس ملک کی تعمیر نو کے لیے ہمارے لیے وضع کیے تھے ان کی بے مثال کامیابی کا راز کیا تھا جو اب بہت آسان ہے انھیں اپنے نصب العین پر کامل یقین تھا اس کامل یقین نے انھیں خود اعتمادی اور خود انحصاری عطا کی جو ان کی تمام تر سرگرمیوں میں کامیابی کی ضمانت بن گئی انھوں نے اپنے عوام پر اعتماد کیا جس کے جواب میں عوام نے بھی ان پر بھروسہ کیا اور یوں یہ پرانی کہاوت سچ ہوگئی کہ اعتماد اعتماد کو جنم دیتا ہے۔

قائداعظم پاکستان کو ایک آزاد و خود مختار جمہوریہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے وہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جس کی بنیاد سماجی انصاف کے ان اصولوں پر استوار ہو جو تمام لوگوں کے درمیان مساوات اور اخوت کا رشتہ برقرار رکھے۔

تحریک پاکستان جمہوری جذبہ کے تحت ، جمہوری طریقے سے ایسے جمہوری مقاصد کے لیے چلائی گئی جس کا مقصد ایک ایسے آزاد سماجی نظام کا قیام تھا جہاں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل ہو اور وہ خوف ، احتیاج اور مصائب سے آزاد ہوں۔‘‘ میں آپ کو یاد دلاؤں کہ محض پاکستان کا حصول ہی ہماری جدوجہد کا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور ارفع مقصود کے لیے ذریعہ تھا یعنی ملک کے ہر شہری کے لیے پر امن زندگی، خوشحالی ،مساوات، آزادی اور خوشی کی فراہمی ۔

ہماری جدوجہد آزادی کا مقصد درحقیقت ایک ایسے ماحول اور موقع کا حصول تھا جس میں رہ کر ہم آزاد اور اس کے تمام ثمرات اور خوشیاں اس زمین کی حدود میں رہنے والے تمام افراد کو مہیا کرنے کے اہتمام کر سکیں ۔ لیکن ہماری اپنی کوتاہیوں،نادانیوں کی وجہ سے آج پاکستان اس چوٹی پر تکیہ کیے ہوئے ہیں جسے عدم رواداری ، نفرت ،تشدد اور غلبہ کے جذبات کا آتش فشاں کہا جاسکتا ہے ۔

حضرت ابراہیم ادھم درویش سے پہلے ایک بہت بڑی سلطنت کے بادشاہ تھے وہ بادشاہت کے دنوںمیں دن رات اسی فکر میں رہتے کہ خدا سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ایک رات وہ اپنی شاہی خواب گاہ میں نرم ونازک بستر پر استراحت فرما رہے تھے اور چاروں طرف مسلح سپاہیوں کا پہرہ تھا یکایک ان کی آنکھ کھل گئی۔

انھوں نے سنا کہ خواب گاہ کی چھت پرکوئی چل پھر رہا ہے اورآہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز بھی آرہی ہے۔ حضرت ابراہم ادھم سوچنے لگے کہ شاہی محل میںآدھی رات کے وقت یوں چوری چھپے گھسنے کی جرأت کس میں ہے آخر اٹھ کر چھت کی طرف گئے وہاں نورانی چہر ے والے آدمیوں کی ایک جماعت دیکھی۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ۔ انھوں نے عاجزی سے گردنیں خم کرکے کہا، اے بادشاہ ہم رات کے ابتدائی حصے سے اپنا گم شدہ مال ڈھونڈ رہے ہیں لیکن اس کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ بادشاہ نے پوچھا آخرکیا کھوگیا ہے جو تم ڈھونڈ رہے ہو۔

انھوں نے کہا ہم اپنا اونٹ تلاش کررہے ہیں۔ بادشاہ نے کہا حیرت ہے اونٹ بھلا شاہی محل کی اس بلند چھت پر کیسے چڑھ سکتا ہے تو انھوں نے جواب دیا اگر اونٹ اس محل کی چھت پر نہیں چڑھ سکتا تب تو تخت شاہی پر رونق افروز ہو کر خدا کوکیسے ڈھونڈ سکتا ہے ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہمارے سامنے دو ہی امکانی رستے تھے ایک اجالے کا رستہ اور دوسرا تاریکی کا رستہ ۔ ہم نے اپنے لیے دوسرے رستے کا انتخاب کیا یعنی تاریکی کے رستے کا۔ عوام کی طاقت پر یقین کرنے کے بجائے سازشوں، سودا بازیوں، انتشار، موقع پرستی اور ذاتی اغراض کو اپنی طاقت بنانا اور سمجھنا شروع کر دیا پھر اس کے بعد ہم نے قائداعظم کے برعکس اپنے عوام پر کبھی اعتماد نہیں کیا بلکہ جتنا ممکن ہو سکتا تھا ہم عوام کو بے اختیار کنگال ، فقیروحقیر بناتے چلے گئے۔ پاکستان کی کہانی دراصل مساوات ، اخوت، سماجی و معاشی انصاف کے حصول کی اس جدوجہد کا نام ہے جو تسلط، استحصال ،تعصب ،نفرت اور جبر و استبداد کی طاقتوں کے خلاف کی گئی ۔

اس کہانی کی اصل طاقت اور قوت متحرکہ عوام کی مرضی اور ان کی آرزوئیں تھیں ۔آج ہماری نجات اور استحکام کا انحصار خود ہماری کوششوں اور جدوجہد پر ہے پوری دنیا صدیوں کے تجربوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اجالے کی تقدیر صرف عوام کی طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور عوام پر اعتماد کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

تخت شاہی پر رونق افروز ہوکر نہ خدا مل سکتا ہے اورنہ ہی عوام کا اعتماد اگر ہمیں اپنی تقدیر بدلنی ہے تو ہمیں آج ہی پہلے رستے کا انتخاب کرنا ہوگا یعنی اجالے کے رستے کا ۔ صرف اس ہی رستے پر چل کے ہمیں خوشحالی ،ترقی اور استحکام حاصل ہو سکتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ تمام بحرانوں سے نجات بھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔