سوئٹزرلینڈ میں یاد آیا سوات

شیرین زادہ  اتوار 1 مارچ 2015
سوات کے صحافی نے جب کیا سوئس سرزمین کا سفر فوٹو :فائل

سوات کے صحافی نے جب کیا سوئس سرزمین کا سفر فوٹو :فائل

میری بڑی خواہش تھی کہ یورپ کے سوئٹزر لینڈ اور مشرق کے سوئٹزر لینڈ سوات کا موازنہ کیا جائے کہ ان دونوں کوہساروں میں کون سی وادی زیادہ حسین اور دل کش ہے، لیکن یورپ کے سوئٹزرلینڈ جا کر میں نے تین چیزیں ایسی دیکھیں جن کی بنا پر یورپ اور مشرق کے سوئٹزرلینڈ (سوات) میں فرق واضح ہوگیا۔

ان تین چیزوں کے بارے میں تفصیل سے ذکر کر نا چاہوں گا۔ میں اٹلی کے شہر کوموں میں اپنے دوست مطیع اﷲ کے ساتھ ایک اور دوست نواز خان کے ہاں ٹھیرا تھا۔ نواز خان نے ہماری خوب خاطرمدارت کی۔ رات ان کے ہاں گزار کر، اگلی صبح میں اور مطیع اللہ کوموں سے سوئٹزر لینڈ کے لیے روانہ ہوگئے۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میرا تعلق قدرتی حسن سے مالامال سرزمین سوات سے ہے اور میں بہ طور صحافی نوبیل پیس پرائز کی تقریب کی کوریج کے لیے ناروے کے شہر اوسلو گیا تھا، جس میں شرکت کے لیے مجھے ناروے چودہ اگست کمیٹی کے نام سے سرگرم تنظیم کے صدر عامر جاوید شیخ نے مدعو کیا تھا۔ اس تقریب کا احوال پھر کبھی لکھوں گا فی الحال تو آپ میرے ساتھ یورپ کے سوات کی سیر کریں۔

صبح آٹھ بجے کوموں میں شدید سردی تھی۔ درجۂ حرارت منفی پانچ تھا ہم تقریباً دو کلومیٹر پیدل سفر کرکے کوموں کے ریلوے سٹیشن پر پہنچے ، تقریباً 9.30 بجے کے قریب ہم کوموں ریلو ے اسٹیشن سے سوئٹزر لینڈ کے شہر لوگانوں کے لیے روانہ ہوگئے۔

لوگانوں، کوموں سے تقریبًا40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سوئٹزرلینڈ کا بہت ہی خوب صورت اور سیاحوں کا پسند یدہ مقام ہے۔ یہاں پر کئی بھارتی اور ہالی ووڈ کی فلموں کی شوٹنگ ہوچکی ہے۔ شہر کے درمیان میں بہت ہی خوب صورت اور خاصی بڑی جھیل ہے۔ آپ شہر کے جس طرف بھی جائیں یہ جھیل ضرور نظر آئے گی۔

لو گا نوں سے پہلے اٹلی اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع ایک چھوٹا سا شہر کیاسو ں ہے، جہاں ہمیں ریل تبدیل کرکے لوگانو کے لیے اگلی منزل کی طرف جانا تھا۔ کیاسوں بھی خو ب صورت شہر ہے اور یہاں سے سوئٹزرلینڈ میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ کیاسوں ریلوے اسٹیشن پر امیگریشن کے اہل کاروں سے پوچھا کہ لوگانوں کے لیے کو ن سا پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے ہمیں بتا دیا، سا منے 3نمبر پلیٹ فارم ہے۔

سا تھ ہی انہوں نے خندہ پیشانی سے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے پاسپورٹ چیک کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے پا سپورٹ پیش کردیے، جانچ پڑتال کے بعد شکر یہ کے ساتھ پاسپورٹ واپس کردیے گئے۔ اب ہم لوگانوں کے لیے ریل میں بیٹھ کر خوب صورت نظاروں کا مزہ لیتے چل پڑے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ سوات اور سوئٹزر لینڈ کے پہاڑ تقریباً ایک جیسے ہیں۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ ریل کے اندر تو گرمی تھی لیکن باہر کڑ اکے کی سردی تھی۔ راستے میں ہم نے پتوں سے صاف درخت اور پت جھڑ کا موسم کے نظارے بھی کیے۔

مجھے بالکل ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں وادی سوات ہی میں ہوں۔ لیکن سوات میں تو ریل گاڑی ہے ہی نہیں!

لوگانو تک کے سفر میں ایسا محسوس ہوا کہ ہم وادی کالام یا بحرین کے راستوں پر ریل میں سفر کررہے ہیں، لوگانوں تک پہنچنے میں تقریباً 45 منٹ کا وقت صرف ہوا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بلزانو جائیں گے، جو سوئٹزرلینڈ کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

بلزانو ، کوموں سے 57 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، بلزانو پہنچ کر ہمیں سب کچھ سوات جیسا نظر آیا۔ سوئٹزر لینڈ میں جانے کا بہترین موسم ، بہار ہوتا ہے جب کہ دسمبر اور جنوری کے مہینے میں برف سے لدے پہاڑ سوئٹزرلینڈ کی خوب صورتی میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ہم دسمبر کے مہینے ہی میں گئے لیکن پہاڑوں کی چوٹیوں پر تو برف تھی لیکن شہری علاقوں میں برف نہیں تھی۔

برف باری ہورہی ہو تو سوئٹزرلینڈ کی خوب صورتی کا کوئی جواب نہیں۔ بلزانو میں ہم نے مشاورت کی کہ آگے زیورچ جائیں گے یا نہیں؟ زیورچ میں میرا ایک دوست نویدخان مصر تھا کہ آپ لو گ ضرور زیورچ آئی۔ اس نے ہمارے لیے ہوٹل میں کمرہ بھی بک کرایا تھا۔ فیس بک پر پیغام بھی چھو ڑ گیا تھا کہ ہم ضرور زیورچ آئیں، لیکن موسم خزاں اور برف باری نہ ہونے کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کا حسن ماند پڑچکا تھا، سو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بلزانوں سے واپس لوگانوں جائیں گے۔

بلزانوں میں قیام کے دوران ہم وہاں واقع ایک تاریخی قلعہ دیکھنے گئے۔ یہ قلعہ شہر کی ایک چوٹی پر واقع ہے، جس سے پورے بلزانوں کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سے ایک دریا گزرتا ہے۔

جس سے اس شہر کی خوب صورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس تاریخی قلعے کو پرانے زمانے میں حملہ آوروں سے شہر کو بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس قلعے کی دیواروں میں پتھر اور لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی دیواریں تقریباً4 فٹ چو ڑی ہیں۔ دیواروں پر چڑھ کر پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

ہم تقریباً دو، تین گھنٹے بلزانوں میں گھومے پھرے اور پھر ریل گاڑی میں بیٹھ کر واپس لوگانوں چلے آئے ۔ لوگانوں پہنچ کر ہم اس جھیل کی طرف روانہ ہوئے جو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ یہ جھیل شہر کی خوب صورتی کا اہم سبب ہے۔ جھیل کے کنارے خوب صورت عمارتیں ہیں۔ ہم دونوں نے خوب فوٹو گرافی کی اور جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس کے سحر میں ڈوبے رہے۔

میں نے مطیع اﷲ سے کہا کہ ہم نے سوئٹزر لینڈ کے دو شہروں لوگانوں اور بلزانوں کو دیکھ لیا، جس سے اندازہ ہوا کہ سوات اور سوئٹزرلینڈ کی خوب صورتی قدرتی طور پر ایک جیسی ہے، لیکن اس میں جو نمایاں فرق ہے وہ جھیلوں کا ہے۔ یہاں پر بہت بڑی بڑی جھیلیں ہیں اور ان جھیلوں تک رسائی ممکن ہے۔

دوسرا فرق مواصلات کے ذرائع کا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں ہر جگہ چاہے اس کی بلندی بیس ہزار فٹ کیوں نہ ہو، وہاں تک سڑک، ریل اور اگر یہ دونوں نہیں تو چیئر لفٹ کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن سوات میں ایسا نہیں، مثال کے طور پر سوات کے سیاحتی مقام کالام میں واقع فلک سیر کی پہاڑی پر سال کے 12 مہینے برف پڑی رہتی ہے، لیکن وہاں تک سڑک، ریل گاڑی یا چیئرلفٹ کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن سوئٹزرلینڈ میں اس سے بھی مشکل جگہوں تک رسائی ممکن بنائی گئی ہے۔

اسی طرح کالام کے علا قے میں کنڈول جھیل، گودر جھیل ، خاپیروں جھیل ہیں۔ یہ جھیلیں حسن اور دل فریبی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، لیکن ان جھیلوں تک رسائی کے لیے صرف سڑک ہی بنادی جائے تو پوری دنیا کے لوگ انہیں دیکھنے کے لیے پہنچ جائیں گے، لیکن یہاں تو سڑک دور کی بات پیدل جانے کے راستے بھی دشوار گزار ہیں۔

سوئٹزرلینڈ اور سوات میں تیسرا بڑا فرق عمارتوں کا ہے۔ وہاں کی عمارتیں، چاہے سرکاری ہوں یا نجی بہت ہی خوب صورت اور نقشے کے تحت تعمیر کروائی گئی ہیں، لیکن سوات میں ایسا نہیں۔ یہ تین بنیادی چیزیں اگر سوئٹزر لینڈ سے ہٹادی جائیں، یعنی بڑی جھیلیں اور ان تک رسائی کی سڑکیں، چیئرلفٹ ، ریل اور خوب صورت عمارتیں تو میں ضرور کہوں گا کہ سوات اس سے یا تو زیادہ خوب صورت ہے یا دونوں خطے ایک جیسے ہیں۔

لیکن ساتھ ایک اور فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ سوئٹزرلینڈ کے 80 فی صد لوگ دنیا کے امیر ترین لوگو ں میں شمار ہوتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی آبا دی تقریباً 80لاکھ ہے اور وہاں کا ہر دوسرا شہری دنیا کے ایک فی صد امیروں میں شامل ہے، لیکن سوات میں غر بت نے پنجے گاڑے اور بے روزگا ری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔

سیاحت سے جُڑے افراد سڑ کو ں کی خستہ حالی کا رو نا رو تے ہیں، لیکن آج تک کسی بھی حکم راں نے سوات کی سڑکوں پر تو جہ نہیں دی۔ حالاں کہ یہا ں خو ب صورت مقامات، دریائے سوات اور برف با ری کے علا وہ تاریخی مقامات بھی بہت زیادہ ہیں۔

سوئٹزرلینڈ سے واپسی کے سفر کے دوران میں یہی سوچتا رہا کہ حکومت کی ذرا سی توجہ سوات کو سوئٹزرلینڈ کی طرح سیاحوں کی جنت بناسکتی ہے، لیکن کوئی توجہ دینے کو تیار تو ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔