’’شاید ادیب ہونے کی وجہ سے بھٹائی کے ہاں میری پزیرائی ہوئی‘‘

اقبال خورشید  اتوار 1 مارچ 2015
دیوار چین سا قلعہ ڈیجی، ’’مہرانو‘‘ سمجھو افریقی جنگل، جین مندر کسی ہیرے کی مثل  ۔  فوٹو : فائل

دیوار چین سا قلعہ ڈیجی، ’’مہرانو‘‘ سمجھو افریقی جنگل، جین مندر کسی ہیرے کی مثل ۔ فوٹو : فائل

’’سندھ، گھوڑوں کی دولت سے مالامال ہے۔۔۔

رتھوں کے بیڑوں سے مالا مال ہے۔۔۔ زرق برق کپڑوں کی فراوانی سے مالا مال ہے۔۔۔‘‘

یہ ہندوؤں کی مقدس کتاب، رگ وید کے شبد ہیں۔ رگ وید، جو اِس دھرتی کی رگوں میں دوڑتے دریا کا یوں تذکرہ کرتی ہے: ’’اے سندھو! تو اپنی روانی میں آگے ہی آگے چلا جاتا ہے، خوش حالی کے دیوتا نے دھرتی پر تیری گزر گاہ متعین کر دی۔‘‘

جس روز خبر ملی؛ دریاؤں کا ایک دیوانہ کہ جس کا قلم پنچھیوں میں زندگی پھونک دیتا ہے، سفر پر نکلا ہے کہ جھاگ اڑاتے، چمکتے پانیوں والے سندھو کے کنارے آسن جمائے، محبت سے لبریز مقبروں میں گونجتے بے آواز گیت سن سکے۔۔۔ تو دل مسرت کے لطیف احساس سے بھر گیا، اُس سے ملاقات کی آرزو ہمکنے لگی۔

خوشی اِس بات کی تھی کہ مسائل میں الجھا سندھ، جس کا اکلوتا حوالہ اب ’’باب الاسلام‘‘ رہ گیا ہے، اردو کے قارئین کو اب نئے راگوں میں اپنی داستان سنائے گا۔ ایک ایسے تخلیق کار کے وسیلے، داستان گوئی جس کی سرشت میں، آوارگی جس کا اوڑھنا بچھونا۔

جب ’’بہاؤ‘‘ کے خالق، ممتاز سفرنامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ اپنی سندھ یاترا کے آخر پڑاؤ، یعنی کراچی پہنچے، تو ہم نے دریا کنارے سجنے والے اُس میلے کا رخ کیا، جہاں اُن کی تازہ کتاب ’’لاہور سے یارقند تک‘‘ کی تقریب منعقد ہونی تھی۔ ہال جلد بھر گیا۔ میزبانی کا فریضہ جناب اصغر ندیم سید کے پاس۔ سامعین سیکڑوں میں۔ تارڑ صاحب اپنی مسکراہٹ کے ساتھ موجود۔ بذلہ سنجی بھی دست یاب، اور سنجیدگی بھی۔ کسی نے پوچھا: ’’جناب! بیگم ساتھ ہو، تو کیا سفرنامہ لکھا جاسکتا ہے؟‘‘

تو فوراً کہا: ’’ہاں، اس عمر میں تو لکھا جاسکتا ہے!‘‘

اور جب سوال ہوا: ’’76 برس کی عمر میں کیا شے لکھنے کی تحریک دیتی ہے؟‘‘ تو جواب دیا: ’’موت کا قرب!‘‘

سیشن تمام ہوتے ہی آٹو گراف کے متلاشی اسٹیج پر حملہ آور ہوگئے۔

ہجوم چھٹے، تو نیا سیشن شروع ہو، اِس فکر میں غلطاں انتظامی کارکن وقفے وقفے سے اگلے سیشن سے متعلق اعلان کرتے رہے۔ تارڑ صاحب ہال سے باہر آئے، تو مداح بھی ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ (ویسے اُن کی مقبولیت کے تصور کو ’’تارڑ۔ازم‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے!) کتابوں پر دست خط کا طویل سلسلہ تھما، تو گفت گو کی صورت نکلی۔ گفت گو۔۔۔ جس میں جھیل کنارے اترتی مرغابیاں تھیں۔ جھاڑیوں میں دوڑتے ہرن تھے۔ صحرا کی چاندنی رات تھی۔ شاہ لطیف کے مزار پر سکون کا مینہ برستا تھا۔ اور قدیم مندروں میں وقت ٹھہر ٹھہر جاتا تھا۔

سندھ پر بات ہو، تو آغاز بھٹائی کے ٹیلے ہی سے ہوگا۔ جہاں اُس درویش کا حجرہ ہے۔ اُدھر پلنگ دھرا ہے۔ اِدھر عصا رکھا ہے۔ مزار کا متولی ایک گونگا آدمی ہے۔ جب ایک دوپہر اس نے مستنصر حسین تارڑ کو مزار میں داخل ہوتے دیکھا، تو پلوں میں ’’چاچا جی‘‘ کو پہچان گیا، مگر یہ بات اسے پریشان کیے دے رہی تھی کہ وہ اتنا بوڑھا کیسے ہوگیا۔

خیر، دوڑا دوڑا چابی لے آیا کہ وہ اندر بیٹھ کر آرام سے دعا کر لیں۔ کھانا کھلا کر رخصت کیا۔ اس تجربے کی بابت کہتے ہیں،’’شاہ لطیف کے مزار پر شاید اِس لیے میری پزیرائی ہوئی کہ وہ بھی ادیب تھے، میں بھی ایک ادیب ہوں۔ وہاں میں نے بہت سکون محسوس کیا۔ سچل کے مزار پر بھی یہی احساس تھا۔ البتہ لعل شہباز قلندر کے ہاں میں نے وہ اطمینان محسوس نہیں کیا۔ وہاں معاملات تھوڑے کمرشل ہوگئے ہیں۔‘‘

پوچھا؛ سات روزہ سفر میں سندھ کو کیسا پایا؟ جواب دیا،’’میں نے پوری دنیا گھومی، مگر سندھ کا یہ پہلا دورہ تھا۔ یہ صوفیوں کا علاقہ ہے۔ میں نے لوگوں میں بہت Broadness (کشادگی) پائی، جو شاید پنجاب میں اتنی نہیں۔ یہاں عقائد کے معاملے میں روایتی روک ٹوک نہیں ہے۔ اگر کوئی کچھ کہہ رہا ہے، تو اسے کہنے دیتے ہیں۔‘‘ اولیاء کی دھرتی پر فرقہ واریت کی تازہ لہر پر بھی بات ہوئی۔ کہا،’’میرے خیال میں یہ لوگ یہاں کے نہیں ہیں۔ یہ باہر سے آئے ہیں۔

وزیر داخلہ نے اس حوالے سے ایک بیان بھی دیا تھا۔ سندھ والے مختلف عقیدوں کے پرچارک ہیں۔ ہم فقیر مشتاق سے ملے، اُس کا اپنا طریقہ ہے۔ اُس کی بیٹھک کھلی ہوئی ہے۔ کوئی اُسے کچھ نہیں کہتا۔ سچل کے مزار کے احاطے میں ہندوؤں کی قبریں ہے۔ اُنھوں نے یہاں دفن کیے جانے کی وصیت کی تھی۔ ننگرپارکر میں جین اور ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ وہاں مسجد ہے، اُس کے عین پیچھے مندر کا کلس ہے۔ وہ زندگی مجھے زیادہ متوازن لگی۔ مختلف عقیدوں والے لوگ ساتھ ساتھ آباد ہیں۔‘‘

تارڑ صاحب کے مطابق اکثر کسی نئی زمین پر قدم رکھتے ہی اُس سے متعلق پڑھی ہوئی کتب بے معنی ہوجاتی ہیں، وہ علاقہ بالکل الگ نکلتا ہے۔ البتہ سندھ اُنھیں اتنا مختلف نہیں لگا۔ ’’لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں۔ شاید اِسی نرم دلی کے باعث سیاست داں اور وڈیرے اِنھیں آسانی سے بیوقوف بنا لیتے ہیں۔ (قہقہہ!)‘‘

جب پوچھا؛ آپ نے سندھ کی آرکیالوجیکل سائٹس کا دورہ کیا، اُن کی دیکھ ریکھ صحیح طرح ہورہی ہے یا نہیں؟ تو کہنے لگے،’’موئن جودڑو کا معاملہ ٹھیک ہے۔ وہاں پی پی کے جلسے پر تو مجھے شدید اعتراض تھا، مگر مجموعی طور پر اُن آثار کا خیال رکھا جارہا ہے۔‘‘

قلعہ کوٹ ڈیجی نے بہت متاثر کیا۔ ’’سوچا ہی نہیں تھا کہ اتنا بڑا قلعہ یہاں ہوگا۔ وہ پہاڑی پر ہے۔ لگتا ہے، آپ دیوار چین کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہ بھی اچھی حالت میں ہے۔ خیرپور گئے، تو فیض محل بھی دیکھا۔‘‘ تالپوروں کے ایک اور محل کا ذکر کرتے ہیں، جس کی چھت مبہوت کر دینے والی تھی۔

میر مراد خان تالپور کے قائم کردہ نیشنل پارک ’’مہرانو‘‘ کا بالخصوص تذکرہ کرتے ہیں۔ ’’وہ میرے لیے حیران کن تھا۔ دس بارہ کلومیٹر پر پھیلا جنگل ہے۔ برسوں سے کوئی درخت نہیں کاٹا گیا۔ وہاں ڈیڑھ ہزار ہرن ہیں۔ بڑی سی جھیل ہے، جہاں سردیوں میں ہزاروں مرغابیاں آتی ہیں۔ اور کئی جانور ہیں۔

یوں لگتا ہے، جیسے آپ افریقا کے کسی جنگل میں کھڑے ہیں۔ سندھ والوں کو وہاں جانا چاہیے۔ بہت متاثر کن جگہ ہے۔‘‘ ہندوستان کی سرحد سے دو کلومیٹر دور ’’قصبو‘‘ نامی ایک گاؤں بھی جانا ہوا۔ اُدھر مندر دیکھے۔ روایتی جھونپڑیاں دیکھیں۔ وہاں ایک ویران جین مندر بھی تھا۔ بہ قول اُن کے،’’وہ تو کسی ہیرے کے مانند ہے۔ آثار قدیمہ والوں نے تختی تو لگائی ہوئی ہے، مگر کوئی دیکھ ریکھ نہیں کرتا۔ اس کی بحالی کے لیے سوچنا چاہیے۔‘‘

اس سفر میں سب سے خوش گوار تجربہ اپنے قارئین سے ملنا رہا۔ ’’اندرون سندھ میں بسنے والے جہاں سندھی زبان میں پڑھتے ہیں، وہیں اردو میں بھی کثرت سے مطالعہ کرتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ پنجاب کے مقابلے میں سندھ کے دیہی علاقوں میں مطالعے کا رجحان زیادہ ہے۔ مجھے اسکول ٹیچرز کے خطوط موصول ہوئے، جنھوں نے میرے ناول پڑھ رکھے تھے۔ ہماری طرف اسکول ٹیچرز کا یہ معاملہ نہیں۔‘‘

یہ سوال بھی کیا کہ جب درس گاہیں تباہ کی جارہی ہوں، طلبا قتل ہورہے ہوں، تو قلم کار خود کو کہاں کھڑا محسوس کرتا ہے؟ کہنے لگے؛ سانحات پر لکھتے ہوئے وہ Guilt محسوس کرتے ہیں کہ لکھنے سے کتھارسس تو ہوجاتا ہے، مگر صورت حال میں بہتری نہیں آتی۔ ’’یہ لفظوں کا ضیاع ہے۔ شاید آپ پرائیڈ محسوس کریں کہ آپ نے اپنا حق ادا کردیا، مگر مجھے جرم کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے ہمارے سارے بچے صبح جیلوں میں چلے جاتے ہیں۔ مورچے بنا دیے گئے ہیں، چیکنگ ہورہی ہے۔ اس سے اُن کی نفسیات پر بہت برا اثر پڑرہا ہے۔‘‘

چلتے چلتے پوچھا، آگے کے کیا منصوبے ہیں؟ کہا؛ ناول کا تو امکان نہیں۔ اس محاذ پر مکمل خاموشی ہے۔ ہاں سفرنامے ہیں، کہانیوں کا مجموعہ آنے والا ہے۔

’’عمارتیں کم، بینر زیادہ‘‘
’’سندھ کا سفر مجموعی طور پر خوش گوار رہا۔ البتہ ایک بات سے طبیعت مکدر ہوئی۔ ’’جگہ جگہ بینر لگے ہیں۔ تمام پارٹیوں کے۔ عمارتیں کم دِکھائی دیتی ہیں، بینر زیادہ ہیں۔ جھنڈوں کی بھرمار ہے۔ الیکشن کے دنوں میں تو ٹھیک ہے، مگر عام دنوں میں یہ منظر کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اِس سے مجھے الجھن ہوئی۔‘‘

کرپشن بھی ایک مدعا ہے۔ ’’صوفیاء والی بات اپنی جگہ، مگر مجھے جگہ جگہ کرپشن نظر آئی۔ سنا ہے، لاڑکانہ کے لیے اربوں روپے کے فنڈز منظور ہوئے، مگر اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ پیسے ادھر کبھی خرچ ہوئے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں، گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، کیچڑ کھڑا ہے۔‘‘

سیاح کے نقطۂ نظر سے بھی تھوڑی پریشانی ہوئی۔ ’’میں سندھ ٹورازم کے ایک موٹیل گیا۔ وہاں حالت بہت بری تھی۔ بالکل کھنڈر تھا۔ وہ فنڈز نہ ہونے کا رونا روتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اور خیبرپختون خوا میں ٹورازم کے جتنے ریزوٹ ہیں، وہ نسبتاً بہتر حالت میں ہیں۔ اس جانب توجہ دینی ہوگی۔‘‘

یہ بھی پوچھا، کیا اس سفر نامے میں ہمیں سیاسی رنگ ملے گا؟ کہا،’’مجھے اس سفر پر لکھنا تو ہے۔ فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اسے گرفت میں کس طرح لائوں۔ سیاست کا شاید میں تذکرہ نہ کروں کہ اس طرح معاملہ ’لوکل‘ ہو جاتا ہے۔ سیاست وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔‘‘

بہاؤ، پاروشنی اور موئن جودڑو

اپنے شہرۂ آفاق ناول ’’بہاؤ‘‘ میں انھوں نے موئن جودڑو کے عہد کو کمال مہارت سے ماجرے کا روپ دیا۔ پاروشنی کے گرد گھومتے اس ناول کا خوب ڈنکا بجا۔ اب جو اِدھر آئے ہیں، تو ہم نے پوچھنا ضروری جانا کہ کیا اِن کھنڈرات میں پاروشنی کے قدموں کی آواز سنائی دی؟ ہنستے ہوئے کہا،’’یہ بات دل چسپ بھی ہے اور عجیب بھی کہ میں پہلی بار موئن جودڑو آیا ہوں۔

اچھا، ’بہاؤ‘ کے علاوہ میں نے ایک کہانی بھی اس بارے میں لکھی تھی، مگر اِس سے پہلے دیکھا نہیں تھا۔ اب دیکھا، تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ جو کچھ ’بہاؤ‘ میں لکھا ہے، اس میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، کسی اور زاویے سے لکھا جاسکتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔