نام اور پیسہ کمائیں

رئیس فاطمہ  اتوار 1 مارچ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سیالکوٹ کی اریبہ ماڈلنگ کرنا چاہتی تھی اور یہ شوق اسے ماڈل ٹاؤن کی طوبیٰ عرف عظمیٰ راؤ تک لے آیا۔ اس طرح ایک یونیورسٹی کی طالبہ اپنے ماڈلنگ کرنے کی خواہش میں جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھ لگ گئی جو بہت خطرناک اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔

شوبز کی گلیمرس دنیا سے وابستگی اریبہ کو بہت مہنگی پڑگئی۔ اسے طوبیٰ نامی عورت کے ساتھیوں نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا اور اس کی لاش سوٹ کیس میں بند کر کے شیرا کوٹ لاہور کے علاقے میں ایک بس اسٹینڈ پر پھینک دی۔

اریبہ کا قتل کوئی پہلا قتل نہیں ہے جو ماڈلنگ کی شوقین کسی لڑکی کا ہوا، اور نہ ہی یہ واردات کوئی نئی ہے۔ آج اور ابھی آپ کوئی بھی اخبار اٹھا کر کلاسی فائیڈ اشتہارات میں دیکھیے تو مسلسل ایسے اشتہارات نظر سے گزریں گے جن میں نوجوان لڑکیوں کو فلم، ٹی وی اور ماڈلنگ کے حوالے سے پرکشش پیشکش کی گئی ہیں، شوبز اور اینٹرٹینمنٹ کے عنوانات سے ٹی وی کمرشل، ڈرامہ اور فیشن کی دنیا سے سو فیصد کامیابی کی نوید دے کر لڑکیوں کو جھانسہ دیا جاتا ہے اور اس جھانسے میں نہ جانے اب تک کتنی معصوم لڑکیاں آ کر اپنی زندگی برباد کر چکی ہیں۔

زندہ ہیں لیکن کہاں اور کن حالات میں، یہ کسی کو معلوم نہیں، بیشتر اپنا سب کچھ لٹا کر نامراد واپس گھروں کو لوٹیں اور بقیہ زندگی آرزوؤں کے ماتم میں گزار دی  کہ گلیمرس دنیا میں داخلے کے جو خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ سراب ثابت ہوئے۔ اور جن کے لیے واپسی کی کوئی صورت نہ تھی، وہ یا تو کال گرل بن گئیں، یا مجبوراً اسی جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بننے پہ آمادہ ہو گئیں، جو لڑکیوں کو فیشن کی دنیا میں سو فی صد کامیابی کا فریب دے کر ہمیشہ کے لیے غلاظت کے ڈھیر میں پناہ لینے پہ مجبور کرتے ہیں۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسے واقعات گھر والے بدنامی کے ڈر سے سامنے نہیں لاتے۔

اس طرح جرائم پیشہ افراد کی ہمت بڑھ جاتی ہے کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ جو چاہیں کریں، وہ اور ان کے والدین کبھی کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے، نہ پولیس کے پاس جائیں گے کہ پولیس پر عوام کا ذرہ برابر اعتماد نہیں ہے۔ زیادہ تر جرائم پولیس کے افسران اور ماتحت عملے کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ وہ تو کہیے کہ اریبہ کے بھائی نے ہمت کی اور قبر کشائی کے لیے درخواست دے کر مکمل حقائق سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کبھی کسی نے اس پر غور کیا؟ آئے دن نوجوان لڑکیاں جنسی زیادتیوں کا نشانہ کیوں بن رہی ہیں؟ ماڈلنگ اور فیشن کی دنیا کیوں انھیں اپنی جانب کھینچ رہی ہے؟ اچھے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں شوبز اور اینٹرٹینمنٹ کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے ماں باپ سے بغاوت کیوں کر رہی ہیں؟ وہ کسی اجنبی مرد کے ساتھ فرار کیوں ہو جاتی ہیں؟ ان سب سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے پیسہ! پیسے کے ساتھ شہرت لازمی ہے۔ دولت اور شہرت کا نشہ دو آتشہ ہو کر جب مدہوش کر دیتا ہے تو پھر کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یاد رہ جاتا ہے تو صرف یہ کہ شہرت اور دولت کی دیوی کو کس طرح قابو کیا جائے۔

اس کوشش میں کچھ کامیاب بھی ہوتی ہیں، لیکن اس کے لیے انھیں ’’جسم و جاں‘‘ کی ’’بھاری‘‘ قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہاں کچھ بغیر کچھ لیے دیے بھی کامیاب ہوتی ہیں، لیکن ان کے پیچھے بھاری سفارش اور تعلقات کی چھتری ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دوسرے شعبوں میں حکمرانوں، سیاستدانوں، صنعت کاروں، عدلیہ، صحافت اور مختلف مافیاز کی چھتر چھایہ کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ فیشن کی دنیا میں کسی جاگیردار، قومی اسمبلی کے ممبر کی بیٹی تو انٹری دے کر کیٹ واک کر سکتی ہے۔

لیکن ایک عام لڑکی نہیں۔ عام لڑکی کو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے، لیکن بعض اوقات گوہر مقصود پھر بھی ہاتھ نہیں آتا، بالکل بدنصیب اریبہ یا اس جیسی دوسری گمنام لڑکیوں کی طرح۔ یہ لامتناہی سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ نہ جانے اور کتنی احمق اور ناسمجھ لڑکیاں ان جعل سازوں کے پھندے میں پھنس کر عزت و آبرو اور جان سب گنوا بیٹھیں گی۔

یہ سارا کھیل ہے پیسے کا،  سوسائٹی میں وہی باعزت ہے جس کی جیب بھاری ہو، 70ء کی دہائی کے بعد معاشرے کو دیمک لگ گئی، ساری اخلاقی اقدار کو گھن کھا گیا، رہی سہی کسر کارپوریٹ کلچر کے فروغ نے پوری کر دی، جس ملک میں آبادی کی اکثریت بھوک، بے روزگاری اور غربت کا شکار ہو، وہاں ٹی وی اسکرین پہ آرائشی اشتہار کی بھرمار، لپ اسٹک کے نت نئے رنگ، نیل پالش لگے ناخن، لہراتی زلفیں، بلش آن کے لشکارے، جدید فیشن کے ملبوسات کی نمائش کرتی ماڈلز کو دیکھ کر لگے کہ زندگی تو یہ ہے جو نظر آ رہی ہے۔

ساتھ ساتھ ایک غریب ملک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہونے والے فیشن شوز جن میں پیش کیے جانے والے ملبوسات کا تعلق کسی بھی طرح اس ملک کے 90 فیصد عوام سے نہیں ہے ۔ اور۔۔۔۔اور وہ کھانے، پیزا، برگر، کولڈ ڈرنک جن کی پبلسٹی کے لیے بڑے بڑے اداکار اور نامور کھلاڑی لاکھوں اور کروڑوں روپے دے کر بک کیے جاتے ہوں، تا کہ ان غیر ملکی کمپنیوں کا کاروبار خوب پھلے پھولے اور غریب ملکوں کا سرمایہ نکل کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار کو فروغ دے۔ تو ترغیبات کیونکر نہ پیدا ہوں گی۔

کسی حکومت یا کسی ادارے کو بھلا کیا ضرورت ہے۔ جہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہو، اور ترغیبات کا ہجوم ہو تو انسان ڈگمگا ہی جاتا ہے۔ اندھیروں سے اجالوں کا سفر بعض اوقات بڑا مہنگا پڑتا ہے۔ والدین کی اب اولاد سنتی نہیں، غیر ملکی درآمدی کلچر اور شخصی آزادی کے تصور اور اختیار نے نئی نسل کو ایک طرح سے باغی کر دیا ہے۔ والدین اگر روک ٹوک کرتے ہیں تو بچے برا مانتے ہیں۔ اس بگاڑ میں 80 فی صد حصہ موبائل فونز، فیس بک اور انٹرنیٹ کا ہے۔

مقصد سب آسائشوں کا صرف پیسہ کمانا ہے۔ جب صرف دولت ہی معیار ہو تو ناسمجھ لوگ اسے کسی بھی طریقے سے حاصل کرنا چاہیں گے آج خاندانی آدمی مفلسی کی وجہ سے خوار ہے اور دو نمبر کا امیر آدمی باعزت ہے۔

اریبہ جیسے واقعات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ والدین کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کے بچے کن کن مقاصد کے حصول کے لیے کمپیوٹر سے چپکے بیٹھے ہیں۔ فون پر کس سے بات ہو رہی ہے۔ کس جعلی اشتہار سے مغلوب ہو کر لڑکیاں گھر والوں کو بغیر بتائے کسی سے بھی ملنے نکل پڑتی ہیں۔

غیر ملکی ڈراموں  سے ہم نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو، لیکن ہماری خواتین اور نو عمر لڑکیوں نے ان ترکی ڈراموں سے مختصر لباس پہننا، نوک دار ہائی ہیل کی سینڈل پہننا  سیکھا، دوپٹے  سے نجات حاصل کر لی ہے۔ ساتھ ہی ماں باپ سے بد زبانی اور ان کے سامنے اپنے بوائے فرینڈ کا ہاتھ پکڑنا تو سیکھ ہی لیا۔ بلکہ اب پاکستانی سوسائٹی میں جلد ہی وہ دن بھی آنے والا ہے۔ جب کھلے عام اس بات کا اقرار کیا جائے گا کہ ’’لو یہ اٹھارہ سال کی ہو گئی اور ابھی تک اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے۔‘‘

ہم لوگ نقل میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہمارے پاس نہ اپنی سوچ ہے نہ کوئی شناخت۔ اگر کچھ ہے تو صرف نقالی، خواہ ترکی ڈراموں میں جلوہ گر حسیناؤں کی بے باکانہ حرکات اور بنا شادی کے ماں بننے کے واقعات، اور ساتھ ہی ان مسائل سے نجات پانے کے لیے لیڈی ڈاکٹرز۔ بس یہی زندگی ہے جس کی آرزو آج ہر لڑکی کرتی نظر آتی ہے۔ اور اسے یہ شارٹ کٹ صرف فیشن اور ماڈلنگ میں نظر آتا ہے۔

اہل محلہ، پڑوسی اور رشتے دار بولتے نہیں، والدین نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں اور ایک کے بعد ایک باعث شرم اور باعث تکلیف واقعات سامنے کھڑے ہیں۔ غلطی کس کی ہے۔ چینلز کی؟ سوسائٹی کی؟ والدین کی؟ یا دولت کو خدا سمجھنے کی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔